0
Monday 17 Oct 2011 23:49

ریڈ لائن سے عبور

ریڈ لائن سے عبور
تحریر: حسام الدین برومند
۱۔ تین عشرے قبل مشرق وسطی میں اسلامی انقلاب کے برپا ہونے اور "نہ شرقی، نہ غربی، جمہوری اسلامی" کے نعروں کے بلند ہونے پر شمعون پرز جو انقلاب اسلامی ایران کو تجزیہ و تحلیل کرنے سے قاصر ہو چکا تھا نے اس جملے پر اکتفا کیا کہ مشرق وسطی اڑتی ریت والی سرزمین ہے۔
اگرچہ "اڑتی ریت" کا کنایہ شیمون پرز کی جانب سے خطے میں انجام پانے والی تند و تیز تبدیلیوں اور مشرق وسطی جیسی اسٹریٹجک سرزمین پر نئی سیاسی سوچ جنم لینے کے اعتراف کے مترادف تھا لیکن صہیونیستوں نے گذشتہ ۳۳ سالوں کے دوران امریکیوں کے ساتھ تعاون اور ہمکاری کو جاری رکھتے ہوئے کبھی بھی انقلاب اسلامی ایران نامی حقیقت کی گہرائیوں کو درک کرنے کی کوشش نہیں کی ہے۔
واشنگٹن اور تل ابیب کے حکمرانوں کی جانب سے خودخواہی پر مبنی یہ رویہ اور پالیسی آج تک جاری ہے۔ لیکن شواہد و قرائن انتہائی واضح انداز میں ظاہر کر رہے ہیں کہ تل ابیب اور واشنگٹن جنکے مفادات ایکدوسرے سے بندھے ہوئے ہیں، کے نہ چاہتے ہوئے بھی عظیم سیاسی تبدیلیاں انجام پا رہی ہیں۔ امریکہ میں آج سیاسی صورتحال ایسی ہے کہ "وال اسٹریٹ" کا نام اب اسٹاک ایکسچینج اور معاشی تبدیلیوں کا عکاس نہیں رہا بلکہ یہ لفظ امریکیوں کی جانب سے اس عظیم اعتراض اور احتجاج کی عکاسی کرتا ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جاری ہے۔ وہ عظیم اور وسیع احتجاج جو ایک تحریک کی صورت میں ابھر کر سامنے آیا ہے۔ وہ تحریک جسے امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے "وال اسٹریٹ کی تسخیر کی تحریک" کا نام دیا ہے۔
شائع ہونے والی مختلف رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس تحریک کی لہر نیویارک کو پوری طرح اپنی لپیٹ میں لینے کے بعد شکاگو، لاس انجلس، سن فرانسسکو اور حتی واشنگٹن تک آن پہنچی ہے۔ انتہائی اہم اور سبق آموز نکتہ یہ ہے کہ امریکی میڈیا بشمول نیویارک ٹائمز اس بات کا اعتراف کرتے نظر آ رہے ہیں کہ امریکی نوجوانوں کی احتجاجی تحریک نے تحریر اسکوائر میں احتجاج کرنے والے مصری نوجوانوں سے درس لیا ہے۔ چند ماہ قبل قائد انقلاب اسلامی ایران آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای بھی اس نکتہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تاکید کر چکے ہیں کہ اقوام عالم کی بیداری کا سلسلہ بہت جلد امریکہ اور یورپ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔
صہیونیست،جنہوں نے گذشت ۶ عشروں کے دوان امریکہ کی کھلی حمایت کے ذریعے انتہائی غیرانسانی اور پست جرائم کا ارتکاب کیا ہے، بھی انتہائی کٹھن حالات اور نابود کر دینے والے مخمصے سے دوچار ہو چکے ہیں۔ اسلامی بیداری کی امواج نے گذشتہ آٹھ یا نو ماہ میں اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم کو خطرناک حد تک گوشہ نشینی کا شکار کر دیا ہے۔
مشرق وسطی اور شمالی افریقہ میں جنم لینے والی تحریکوں کے آغاز سے ہی اسرائیلی حکام خطے میں ایک اور اسلامی انقلاب کے برپا ہونے کی
باتیں کر رہے ہیں اور اس بابت اپنی جانب سے شدید پریشانی کا اظہار بھی کر چکے ہیں اور اس طرح سے اپنی بے بسی کو آشکار کر چکے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نیٹن یاہو اور شمعون پرز نے کئی بار موقف اختیار کیا لیکن اپنی بدحواسی اور پریشانی کو چھپا نہ سکے۔
حتی ان سیاسی تبدیلیوں کے دوران اور اسرائیل کے اسٹریٹجک ساتھی حسنی مبارک کی سرنگونی کے بعد بھی جب کیمپ ڈیوڈ معاہدے کی منسوخی اور صلح مذاکرات کا خاتمہ مصر کے مسلمان انقلابی جوانوں کے اصلی ترین مطالبے میں تبدیل ہو گیا، اسرائیلی وزیر خارجہ اویگڈور لیبرمین یہ کہتے ہوئے نظر آتا ہے کہ اسرائیل کیلئے سب سے بڑا خطرہ ایران کی حکومت اور اسلامی انقلاب ہے۔ ریڈیو اسرائیل لیبرمین کے بقول واضح انداز میں کہتا ہے کہ ایران کے بعد فلسطینیوں کے ساتھ صلح کا حصول اسرائیل کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
جو کچھ ابھی تک ذکر ہو اس سے یہ نکتہ انتہائی واضح ہو جاتا ہے کہ خطے میں اسلامی بیداری کی بنیاد پر رونما ہونے والی سیاسی تبدیلیاں اور امریکی و اسرائیلی پالیسیوں کے خلاف اقوام عالم حتی امریکی اور یورپی اقوام کا اٹھ کھڑا ہونا سب کے سب ایک انتہائی واضح اور موثر واقعہ کا نتیجہ ہیں جو "دو بلاکس مشرق اور مغرب سے ہٹ کر اسلامی انقلاب کا ظہور" ہے۔
۲۔ وہ عظیم حادثہ جسے مشرق وسطی میں رونما ہونے والی سیاسی تبدیلیوں اور امریکہ اور یورپ میں وسیع پیمانے پر احتجاج کے جنم لینے کے درمیان مشترکہ نکتہ قرار دیا جا سکتا ہے، عوام اور رائے عامہ کی جانب سے لادین یا سیکولر حکومتی نظام سے رویگردانی ہے۔
اسلامی بیداری کے جنم لینے کے بعد اقوام عالم نے اپنے انقلاب اور احتجاجی تحریکوں کے ذریعے جس مطالبے پر زور دیا ہے وہ نئی حکومتوں اور ملکی آئین میں اسلامی قوانین کی حاکمیت ہے۔ مصر، اردن، لیبیا اور دوسرے ممالک کے انقلابی عوام بارہا معاشرے میں اسلامی تعلیمات کے لاگو ہونے پر تاکید کر چکے ہیں۔
انقلابی عوام کے اس مطالبے کے بعد کئی سروے بھی انجام پائے جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ خطے کی اقوام اپنے ممالک کو امریکی، مغربی اور اسرائیلی پالیسیوں کے تحت چلانے سے بشدت بیزار ہو چکی ہیں۔ عوامی مظاہروں اور احتجاجی اجتماعات میں گونجنے والا "اسلامیہ اسلامیہ" کا نعرہ بھی ہمیشہ انکے اس مطالبے کی عکاسی کرتا آیا ہے۔
مسلمان ممالک میں اس مطالبے کے جنم لینے کے ساتھ ہی یورپ اور امریکہ میں بھی ایک مطالبہ ابھر کر سامنے آیا ہے جو ملک سے سیکولر سیاست اور سرماریہ دارانہ اقتصاد کے خاتمے پر مبنی ہے۔ امریکی عوام سمجھتے ہیں کہ ان پر ناعادلانہ اور غیرمنصفانہ نظام تھونپ دیا گیا ہے۔
۳۔ ولی امر مسلمین جہان آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے تہران میں برگزار ہونے والی بین الاقوامی "حمایت فلسطین کانفرنس" میں جو "اسلامی بیداری کانفرنس" کے چند دن بعد ہی برگزار کی گئی تھی،
ایک انتہائی اہم اور گہرا نکتہ بیان کیا تھا۔ وہ اس سے قبل اقوام کی بیداری کے یورپ اور امریکہ تک پہنچنے کی پیش بینی کر چکے تھے لیکن اس بار انہوں نے اسرائیل کے حامیوں کو وارننگ دیتے ہوئے کہا:
"امریکی صدر کہتا ہے کہ اسرائیل کی سلامتی اس کیلئے ریڈ لائن ہے، یہ ریڈ لائن کس نے بنائی ہے؟ امریکی قوم کے مفادات نے یا صدارتی انتخابات میں جیتنے کیلئے اسرائیلی کمپنیوں کی دولت اور حمایت کی نسبت اوباما کی ذاتی ضروریات نے؟۔"
قائد انقلاب اسلامی ایران نے امریکی حکام سے یہ سوال پوچھتے ہوئے کہ تم لوگ کب تک اپنی قوموں کو دھوکہ اور فریب دینے میں کامیاب ہوتے رہو گے کہا:
"جان لو، اوباما اور اس جیسے دوسرے افراد کی یہ ریڈ لائن اٹھ کھڑی ہوئی مسلمان اقوام کے ہاتھوں ٹوٹنے والی ہیں۔"
آخر میں امام خامنہ ای نے اقوام عالم کی بیداری کے اس پیغام اور ان نتائج کی جانب اشارہ کیا:
"جس دن یورپی اقوام اور امریکی قوم یہ جان لیں گی کہ انکی معاشی، معاشرتی اور اخلاقی مشکلات کا بڑا حصہ انکی حکومتوں پر بین الاقوامی صہیونیسم کے آکٹوپس کی مانند تسلط کا نتیجہ ہیں اور انکے حکام اپنے ذاتی اور اپنی پارٹی کے مفادات کی خاطر امریکہ اور یورپ میں صہیونستی کمپنی کے خونخوار مالکین کے سامنے مکمل طور پر سرتسلیم خم کئے ہوئے ہیں، تو وہ ان کیلئے ایسا جہنم بنائیں گی جس سے وہ کسی صورت نجات حاصل نہیں کر پائیں گے۔"
لہذا خطے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے ہٹ کر جو بات انتہائی اہم ہے اور مسلمان دانشور اور محققین کی توجہ کا مرکز بننی چاہئے دنیا کی تاریخ کا موجودہ دور ہے جو ایک طرف ایسی صلاحیت کا حامل ہے کہ اسلامی تہذیب و تمدن کی بنیاد کو صدیوں کی تخریب کے بعد دوبارہ تعمیر کرے اور دوسری طرف اقوام عالم کی بیداری کے سبب استعماری نظام کی فریبکاری، جاہ طلبی اور غارتگری کا خاتمہ کیا جا سکے۔
بلاشک یہ انتہائی عظیم اور تاریخی ذمہ داری اس وقت ادا کی جا سکتی ہے جب اولا ایک روڈ میپ موجود ہو اور دوما یہ روڈمیپ جامع اور مانع ہو یعنی اس میں تمام مشکلات، موانع اور انحرافات کی پیش بینی کی گئی ہو اور اسکے مقابلے کیلئے راہ حل بھی پیش کئے گئے ہوں تاکہ مقصد تک پہنچتے پہنچتے اپنے اصلی راستے سے منحرف نہ ہوں۔
اسی وجہ سے تمام اسلامی ممالک اور مسلمان اقوام کو چاہئے کہ وہ ولی امر مسلمین آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کی جانب سے تہران میں برگزار ہونے والی گذشتہ دو بین الاقوامی کانفرنسز میں اسٹریٹجک اور نئی راہ ہموار کرنے والے خطابات کو انتہائی دقت سے اپنی توجہ کا مرکز قرار دیں اور اسے اپنا نصب العین بنائیں تاکہ اوباما اور اس جیسے دوسرے افراد کی طرف سے تعیین کی گئی ریڈ لائن کو توڑ کر صہیونیسم کے آکٹوپسی اقتدار سے آزاد مستقبل کی جانب قدم بڑھایا جا سکے۔ وہ مستقبل جسکے آثار واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 103301
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش