0
Sunday 9 Oct 2011 20:23

سعودی دربار لرز اٹھا

سعودی دربار لرز اٹھا
تحریر: نساء امیری نصرآبادی
سعودی عرب میں انجام پانے والے تازہ ترین انتخابات میں شہریوں کی انتہائی کم شرکت نے ثابت کر دیا ہے کہ آل سعود رژیم اپنے جھوٹے پروپیگنڈے کے باوجود سعودی قوم میں عزت سے برخوردار نہیں اور مستقبل قریب میں اس ملک میں ظالم حکمران خاندان کے خلاف بڑے پیمانے پر تحریک جنم لینے کا امکان موجود ہے۔
سعودی الیکشن کمیشن کے ایک اعلی سطحی عہدیدار کے بقول ملک میں انجام پانے والے یونین کونلسز کے انتخابات میں عوامی مشارکت 10 فیصد سے بھی کم رہی۔ یونین کونسلز کے انتخابات میں ووٹنگ کے مراکز شام 5 بجے ہی بند ہو گئے۔ یہ سعودی عرب میں خواتین کی مشارکت کے بغیر انجام پانے والے آخری انتخابات تھے۔ سعودی چیف الیکش کمیشن نے اعتراف کیا ہے کہ الیکشن میں عوامی شراکت انتہائی کم تھی۔ سعودی عرب کی 2 کروڑ 70 لاکھ آبادی میں سے صرف 10 لاکھ 80 ہزار افراد نے انتخابات میں حصہ لینے کیلئے رجسٹریشن کروائی تھی تاکہ 5 ہزار امیدواروں میں سے یونین کونسلز کے 1 ہزار 56 نمائندوں کو انتخاب کر سکیں۔ اگرچہ سعودی عرب کے بادشاہ ملک عبداللہ نے خواتین پر انتخابات میں شرکت کرنے اور حکومتی عہدہ سنبھالنے کی پابندی کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے لیکن یہ قانون رسمی طور پر 2015 سے لازم الاجرا ہو گا اور اس وقت تک خواتین ملک میں انجام پانے والے انتخابات میں حصہ نہیں لے سکیں گی۔ سعودی عرب کی تاریخ میں برگزار ہونے والے دوسرے الیکشن اس طرح انجام پائے کہ اخبار اور پوسٹرز میں انتہائی کم انتخاباتی فعالیت دیکھنے کو مل رہی تھی۔ بعض سیاسی ماہرین کے خیال میں یہ اقدام ایک طرح کے سیاسی کھیل کے مترادف تھا۔
بہرحال سعودی عوام کا آل سعود حکومت پر اعتماد اپنی کمترین سطح تک پہنچ چکا ہے۔ ایسے وقت میں ریاض میں ولیعہدی کے بحران نے بھی آل سعود خاندان کو شدید مشکلات سے دوچار کر رکھا ہے۔ سعودی عرب کے پہلے بادشاہ ملک عبدالعزیز نے ایک منشور بنایا تھا جو منشور عبدالعزیز کے نام سے مشہور ہے۔ اس میں لکھا ہے: "جب تک میرے بیٹے زندہ ہیں، اقتدار میرے پوتوں کو نہیں مل سکتا"۔
لہذا دنیا میں موجود دوسرے سلطنتی نظاموں کے برخلاف جہاں اقتدار باپ سے بیٹے کو منتقل ہوتا ہے، سعودی عرب میں اقتدار بادشاہ کے بھائی کو منتقل کیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے اس قبیلہ نشین ملک میں شہزادوں اور بادشاہوں کے درمیان عمر کا زیادہ فرق نہیں پایا جاتا۔ یقینی طور پر اس منشور کی قبولی ابن تیمیہ اور محمد بن عبدالوہاب کے سلفی پیروکاروں کیلئے درد سر بنا ہوا ہے۔ اس وقت ملک عبداللہ اور ولیعہد شہزادہ سلطان دونوں کی صحت خراب ہونے کے باعث سعودی عرب کے مسائل سے مربوط بعض تجزیہ نگار یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ سعودی عرب کا اگلا بادشاہ شہزادہ نائف ہو گا۔ وہ انتہائی طاقتور ہے جسے سعودی بادشاہی کونسل نظرانداز نہیں کر سکتی۔ شہزادہ نائف گذشتہ تقریبا 30 سال سے سعودی عرب کی وزارت داخلہ کا قلمدان سنبھالے ہوئے ہیں۔
یہ سعودی شہزادہ 1979 میں مکہ کی بڑی مسجد پر حملہ کرنے کا اصلی ذمہ دار تھا اور اب بھی 11 ستمبر کو امریکہ میں انجام پانے والے دہشت گردانہ اقدامات کے بعد القاعدہ کے خلاف فوجی آپریشنز کی سربراہی ہاتھ میں لئے ہوئے ہے۔
سعودی بادشاہ نے آل سعود کی تازہ ترین اندرونی میٹنگز میں اپنے بھائیوں سے ولیعہدی کے مسئلے پر بات چیت کی ہے۔ ملک عبداللہ جو سلطان کی جانب سے امیر سلمان کو ولیعہد بنانے کی پیشکش پر انتہائی متعجب ہو گئے تھے نے اعلان کیا ہے کہ ولیعہد صرف "بیعت کمیٹی" کے ذریعے ہی مشخص کیا جائے گا۔ اس وقت عبدالعزیز کے اکثر بیٹے ولیعہد بننے کیلئے تیار نظر آتے ہیں۔
بہرحال امیر سلمان کا ولیعہد کے طور پر منتخب ہونا مالکی خاندان میں مختلف قسم کے ردعمل سامنے آنے کا باعث بنا ہے۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے شہزادہ نائف، جو سعودی عرب کے حکومتی سیٹ اپ میں انتہائی بااقتدار شخصیت جانی جاتی ہے، نے اعلان کیا ہے کہ وہ "السدیری" خاندان کے ایک فرد کو جو عمر میں بھی ان سے چھوٹا ہے ولیعہد کے طور پر قبول نہیں کر سکتے۔ سعودی خاندان جسکے نام پر ملک کا نام رکھا گیا ہے، گذشتہ 77 سالوں سے اس تیل سے مالا مال ملک پر حکمفرما ہے۔ لیکن سعودی ولیعہد کی بیماری کے شدت اختیار کر جانے کے پیش نظر مستقبل میں یہ ملک سلطنتی خاندان میں اقتدار پر کشمکش اور جنگ کا شاہد ہو سکتا ہے۔
لندن سے چھپنے والے اخبار "القدس العربی" نے اپنے ایک کالم "سعودی عرب میں اصلاحات اور جوانوں کو درپیش سوالات" میں جو مضاوی الرشید کے قلم سے لکھا گیا ہے اس موضوع پر انتہائی دلچسپ اظہار نظر کیا ہے۔ اخبار لکھتا ہے:
"سعودی عرب میں مختلف اصلاحات کے مطرح ہونے کے بعد سے ملک کے نوجوانوں کے ذہن میں کچھ سوالات نے جنم لیا ہے جن میں سے کچھ کا جواب دینا واقعا مشکل کام ہے۔ سعودی عرب میں اصلاحات کے بڑے منصوبے کے بارے میں سوالات، وہ منصوبہ جو کہا جاتا ہے کہ کرپشن اور عمومی وسائل کے ضیاع کو روکنے کا باعث بنے گا اور ایک نیا سیاسی نظام پیش کرے گا۔
وہی منصوبہ جس سے توقع کی جا رہی ہے کہ حکمران خاندان کو پسپا کر دے گا جس نے ہمیشہ اپنے فیصلوں میں قومی مطالبات اور قوم کے حق کو پامال کیا ہے۔ وہ منصوبہ جو ہمیں تیل کی دولت کی عوام کے درمیان عادلانہ تقسیم، بادشاہی نظام کے خاتمے اور سلطنتی محلوں کے آس پاس گداگری کے خاتمے کی نوید دلاتا ہے۔ وہ پروگرام جو معاشرتی اور سیاسی آزادی کے دروازوں کو کھولنے کے درپے ہے جو کئی سالوں سے سعودی باشندوں کی دلی آرزو بھی ہے۔ جبکہ سعودی عرب جو آج خطے میں امریکہ اور حتی اسرائیل کا زور بازو بنا ہوا ہے گذشتہ چند سالوں سے عرب ممالک میں بھی اپنا کردار کھو چکا ہے۔
سب کو اچھی طرح یاد ہے کہ 2007 میں سعودی عرب نے بیروت میں 14 مارچ گروپ کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے لبنان میں عدم استحکام پھیلانے کی کوشش کی تھی لیکن لبنان کے اندرونی معاملات میں سعودیوں کی یہ مداخلت آخرکار دوحہ کانفرنس کے انعقاد اور انتخابات میں 8 مارچ گروپ کی کامیابی پر ختم ہوئی۔ اسی سے ملتے جلتے اقدامات گذشتہ چند عشرون میں اکثر دیکھنے کو ملے ہیں۔ اس وقت بھی سعودی ہر روز مشرق وسطی میں انجام پانے والی سیاسی تبدیلیوں کے مقابلے میں اپنی سیاسی غلطیوں کو بڑھاتے جا رہے ہیں۔ شمالی افریقہ میں آمرانہ حکومتوں کی سرنگونی کے بعد سعودی عرب انتہائی بڑی سیاسی غلطیوں کا مرتکب ہو چکا ہے اور خود کو خطے کی اقوام کے مدمقابل لا کھڑا کیا ہے"۔
خبر کا کوڈ : 103304
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش