0
Sunday 23 Aug 2009 15:18

پاکستان کی سالمیت پر امریکی حملے

پاکستان کی سالمیت پر امریکی حملے
پاکستان میں امریکا کی حد سے بڑھتی ہوئی مداخلت نے پاکستان کی خودمختاری اور سالمیت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ حکمران امریکا کے کاسہ لیس بنے ہوئے ہیں اور پاکستان کو امریکی کالونی بنا دیا ہے۔ یہ وہ تلخ باتیں ہیں جو قوم کے ہر باشعور شخص کی زبان پر ہیں۔ گزشتہ تین برس سے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں امریکا کے ڈرون حملوں سے سینکڑوں بے گناہ شہریوں کو شہید کیا جا چکا ہے اور اس پر حکمرانوں کے مذمتی بیانات ان ڈرون حملوں سے زیادہ تکلیف دہ ہو جاتے ہیں جو ڈرون حملے کے فوراً بعد ٹی وی اسکرین پر چلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ہر بار اس بات کا اعادہ کیا جاتا ہے کہ امریکا سے کہا جائے گا کہ وہ ان ڈرون حملوں کو فی الفور بند کرے، اس سے پاکستان کی سالمیت کو شدید خطرہ ہے۔ عالمی میڈیا نے جب سے اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ یہ ڈرون طیارے پاکستانی ایئربیس سے پرواز کرتے ہیں، حکمرانوں نے اب مذمتی بیان جاری کرنا بھی بند کر دیے ہیں۔ روزنامہ دی نیوز نے 10 اپریل کو پاکستانی حکام کے حوالے سے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ افغانستان کی سرزمین سے پاکستان کی فضائی حدود میں داخل ہو کر پاکستانی علاقوں پر 11 جنوری 2006 سے 8 اپریل 2007ء تک کئے جانے والے تقریباً 60 ڈرون حملوں میں صرف 10 میں ہی اصل اہداف کو نشانہ بنایا جا سکا جس سے القاعدہ کے 14 لیڈر جاں بحق ہوئے، جبکہ امریکی حکام اس طرح کسی جواز کے بغیر 687 معصوم پاکستانی شہریوں کے قتل کے مرتکب ہوئے۔ پچھلے دنوں امریکی ٹی وی چینل این بی سی نے ایک رپورٹ نشر کی۔ شمالی وزیرستان کے 19 سالہ حبیب الرحمن کے یہ الفاظ اس رپورٹ کی بنیاد ہیں: "مجھے ایک سو بائیس ڈالر، سگریٹ کے کاغذ میں لپٹی چپس القاعدہ اور طالبان سے تعلق رکھنے والوں کے گھروں میں پھینکنے کے لیے دیے گئے اور بتایا گیا کہ اگر میں کامیاب رہا تو ہزاروں ڈالر اور دیے جائیں گے۔ میں نے سوچا کہ یہ تو بہت آسان کام ہے، جبکہ رقم بہت زیادہ ہے۔ اس لئے میں نے ہر جگہ چپس پھینکنی شروع کر دیں۔ میں جانتا تھا کہ جو کچھ میں کر رہا ہوں اس کے نتیجے میں لوگ مر رہے ہیں، لیکن میں دولت کمانا چاہتا تھا"۔ این بی سی نیوز کو یہ رپورٹ اسلام آباد سے Carolgrisanti اور مشتاق یوسف زئی نے مشترکہ طور پر بھیجی تھی جو 17 اپریل کو نشر کی گئی اور ایم ایس این بی سی کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔ امریکی ایجنسیوں کے آلہ کار بن جانے والے حبیب الرحمن کو طالبان نے گرفتار کر کے امریکا کے لیے جاسوسی کے الزام میں گولی مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ڈالر کا لالچ دے کر چپس رکھوانا اور یہ امید رکھنا کہ وہ درست جگہ اس کو رکھے گا، زیادہ ڈالر کمانے کی ہوس میں یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے! اس کے نتیجے میں امریکی ڈرون حملوں سے القاعدہ کے لوگ تو کم بے گناہ افراد بڑی تعداد میں مارے جا رہے ہیں۔ سابق آرمی چیف اور معروف عسکری تجزیہ نگار جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ نے کہا ہے کہ امریکا کی پالیسی کی ایک نئی شکل نظر آ رہی ہے جو بہت خطرناک ہے۔ امریکا کو پاکستان کے ساتھ آج وہ تعاون حاصل ہے جو پہلے نہیں تھا۔ یہ تعاون اس سلسلے میں ہے کہ امریکا افغانستان سے نکلنے کے بعد پاکستان میں ایک مضبوط مرکز قائم کرنا چاہتا ہے۔ امریکا نے یہ کوشش کی کہ اسلام آباد کے میریٹ ہوٹل میں یہ مرکز قائم کرے، لیکن اسے اڑا دیا گیا، اس نے پشاور کے پرل کانٹی نینٹل ہوٹل میں یہ مرکز قائم کیا، اسے بھی اڑا دیا گیا۔ اب امریکا نے اسلام آباد میں اپنے سفارت خانے کے ساتھ کوئی 25 ایکڑ مزید زمین حکومت پاکستان سے خریدی ہے جہاں بہت بڑا تعمیراتی کمپلیکس بن رہا ہے۔ یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ تقریباً 300 افسران کے رہنے کی جگہ انہیں چاہیے۔ 200 سے زیادہ رہائشی عمارتیں تعمیر ہو چکی ہیں، بقیہ تعمیر ہونا باقی ہیں۔ امریکا نے پاکستان کو اپنا مقصد پورا کرنے کے لیے 1.9 ارب ڈالر دیے ہیں اور ہر سال پاکستان کو 1.5 ارب ڈالر ملیں گے۔ اسلام آباد آن لائن میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق بلیک واٹر کے ایجنٹس امریکی سفارت خانے اور ایف بی آئی کی آڑ میں سرگرم ہیں۔ بلیک واٹر نے پاکستان میں اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے مقامی سیکورٹی ایجنسیز کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں۔ بلیک واٹر کے پاکستان میں دو مقاصد ہیں: (1) پاکستان میں القاعدہ اور طالبان کے سرکردہ رہنماﺅں کی کھوج اور (2) خطے میں امریکی مفادات کا تحفظ۔ امریکی ریاست کیرولینا میں 1997ء میں قائم ہونے والی یہ نجی فوج اس وقت دنیا کی سب سے بڑی پرائیویٹ آرمی ہے جس کے پاس 20,000 سے زائد انتہائی تربیت یافتہ اہلکار، 20 ایئر کرافٹ اور ایک گن شپ ہیلی کاپٹر بھی ہے۔ شمالی کیرولینا میں واقع بلیک واٹر کے وسیع و عریض ہیڈ کوارٹر میں ہر سال تقریباً 40,000 افرادکو جدید اسلحے کی تربیت دی جاتی ہے۔ 2004ءمیں بلیک واٹر کے 4 اہلکاروں کو عراقی شہر فلوجہ میں قتل کر دیا گیا اور ان کی لاشیں جلا دی گئیں۔ اس واقعے کی ویڈیوز بھی دنیا بھر میں دکھائی گئیں۔ بلیک واٹر عراق میں اسلحہ کی اسمگلنگ میں ملوث ہے۔ امریکا کا اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ اس کو دہشت گرد تنظیم قرار دے چکا ہے۔ بعدازاں بلیک واٹر نے اپنا نام تبدیل کر کے XE (زی) رکھ لیا ہے۔ 2005ء سے ستمبر 2007ء تک بلیک واٹر کے اہل کار خونریزی کی 195 وارداتوں میں ملوث پائے گئے۔ امریکی نیوز ویب سائٹ پی بی ایس پر اس حوالے سے جاری کی گئی رپورٹ میں بلیک واٹر کی تاریخ بتاتے ہوئے یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ عراق میں بلیک واٹر پر مقدمات درج ہیں۔ عراق میں بلیک واٹر پر جو دو سنگین الزام لگے تھے ان میں سے ایک یہ تھا کہ اس کے اہلکار لوگوں کو ذبح کرنے میں ملوث تھے۔ پاکستان کے حکمرانوں کا امریکا کی دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کا حصہ بننے کا فیصلہ سراسر پاکستان کی سالمیت کے لیے نقصان دہ ہے جس کا اندازہ پاکستان کے بگڑتے ہوئے اندرونی حالات سے لگایا جا سکتا ہے۔ عالمی دہشت گرد امریکا مسلمانوں کا دشمن ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر افغانستان، عراق اور اب پاکستان میں اسلامی تشخص کو ختم کرنے کا ایجنڈا ہے۔ پاکستان کے عاقبت نااندیش حکمرانوں کو اس بات کا ذرا احساس نہیں ہے کہ وہ اپنے ذاتی مفادات کے لیے پاکستان کے نظریاتی تشخص کو تباہ کر رہے ہیں۔ صوبہ سرحد میں جاری آپریشن سے فوج کے خلاف عوام کی نفرت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ افواجِ پاکستان کو حالات کا ادراک کرتے ہوئے ملک پر منڈلاتے خطرات سے پاکستان کو بچانا چاہیے۔ فوجی آپریشن فی الفور بند کر دینا چاہیے اور امریکا کے غلام حکمرانوں کو مجبور کرنا چاہیے کہ وہ پاکستان کے نظریاتی تشخص اور سالمیت کو نقصان نہ پہنچائیں اور امریکا کی ملک میں بے جا مداخلت اور جاسوسی مراکز کی تعمیر کو روکیں۔ افواجِ پاکستان کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، حب الوطنی کا یہی تقاضا ہے۔



خبر کا کوڈ : 10338
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش