0
Monday 24 Aug 2009 13:30

ایران کا ایٹمی پروگرام اور اسرائیل کی بے بسی

ایران کا ایٹمی پروگرام اور اسرائیل کی بے بسی
 ایس اے قدوائی
اِس وقت دنیا کے تمام مسلم ممالک میں اسلامی جمہوریہ ایران ہی وہ واحد ملک ہے جو نہ تو امریکی گیدڑ بھبکیوں کو خاطر میں لاتا ہے اور نہ ہی ایرانی حکومت اپنے قومی اور ملّی مفادات سے روگردانی کرتی ہے۔ ایران نے "ہولو کاسٹ" کے صہیونی ڈرامے کو ڈھونگ قرار دے کر سختی سے مسترد کر دیا اور وہ اسرائیل کی ناجائز ریاست کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے عزم کا برملا اظہار کرتا رہا ہے۔ ایران نے اپنے قول و فعل سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہاں امریکا اور اسلام دشمن مغربی طاقتوں کے پروردہ سازشی عناصر کے پنپنے اور قدم جمانے کی قطعی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایران کو ایٹمی صلاحیت کے حصول سے باز رکھنے کی تمام سازشیں، دھمکیاں اور حربے ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ افغانستان اور عراق کے سبق کے بعد اب امریکا اور اس کے اتحادیوں میں ایران سے مار کھانے کی ہمت نہیں رہی۔ امریکی اور برطانوی استعمار کی نشانی اسرائیل کی اچھل پھاند اور ایران کے خلاف کارروائی پر اصرار کے باوجود امریکا یہ خطرہ مول لینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ رہا اسرائیل، تو اس کے لیے حزب اللہ کی مار ہی کافی ہے اور اس کے لیے اپنے طور پر ایران سے ٹکر لینے کا تصور بھی محال ہے۔ امریکا میں اسرائیل کے سفیر مائیکل ارون نے سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایران پر حملے کی تیاری کی خبر درست نہیں اور دور دور تک اس کا کوئی امکان نہیں ہے۔ یہ بیان اسرائیل کی بے بسی کا عکاس ہے۔ اسرائیل کے لیے ایران سے الجھنے کا مطلب اپنی مکمل تباہی و بربادی کا خطرہ مول لینا ہے۔ اسرائیل کے لیے سب سے بڑی مشکل یہ آ پڑی ہے کہ اس کا مربی اور سرپرست امریکا بھی ایران کے خلاف کارروائی پر آمادہ نہیں ہے۔ اب اسرائیل کرے تو کیا کرے اور ایران سے کس طرح نمٹے؟۔ یہ مسئلہ اسرائیل کے لیے "سوہانِ روح" بنا ہوا ہے۔ "فلسطین کرانیکل" کے مدیر رمزی بروحر نے اسی موضوع پر اپنے مضمون (مطبوعہ: ہفت روزہ ریڈینسن، نئی دہلی، شمارہ 9 تا 15 اگست 2009ء) میں اسرائیل کی بے بسی کی اس کیفیت کا جائزہ لیا ہے۔ اسرائیلی حکام اِن دنوں سخت کشمکش سے دوچار ہیں۔ انہیں ایک ایسے مسئلے کا سامنا ہے جس سے نمٹنے کے لیے ان کی فوجی طاقت بھی بیکار ہے۔ مسئلہ بڑا سنگین ہے اور وہ یہی ہے کہ ایران سے کیسے نمٹا جائے۔ گومگو کی اس کیفیت سے نکلنے کے لیے غیر معمولی فہم و دانش اور ذہانت درکار ہو گی۔ اسرائیلی پالیسی ساز حلقوں اور دنیا بھر میں ان کے دوستوں اور حامیوں کے لیے یہ بات کس قدر مایوس کن اور اذیت ناک ہو گی کہ وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں اور ایران علی الاعلان اپنے ایٹمی افزودگی پروگرام پر عمل پیرا رہے اور اس کو امریکا اور یورپی ممالک کی طرف سے سینہ کوٹنے اور مزید پابندیوں کی دھمکیوں کے سوا کسی رکاوٹ کا سامنا نہ ہو.... اور جس سے ایران کے عزم و ارادہ میں کسی کمزوری یا لچک کا کوئی امکان نہیں۔ امریکا، اس کے بزدل اتحادیوں اور اسرائیلی "چیئر لیڈرز" نے عراق کے خلاف جتنی آسانی سے جنگ چھیڑی تھی اس کے پیش نظر ایران کے تناظر میں اسرائیل اور اس کے حواریوں کے لیے موجودہ صورت ِحال دو گنا مایوس کن ہے۔ افسوس، وہ دن کب کے لد گئے۔ اب امریکا عراق میں اپنی ناکامی کا ازالہ زیادہ اہم جنگوں مثلاً افغانستان کی جنگ پر توجہ مرکوز کر کے کرنا چاہتا ہے۔ اس سے قطع نظر کہ امریکا نے عراق کو نشانہ کیوں بنایا اور اس کے مقاصد پورے کیوں نہیں ہوئے، اسرائیل کا اپنا جوڑ توڑ حیرت انگیز طور پر یوں کامیاب رہا کہ عراق کا خطرہ (حقیقی یا بناوٹی) ختم ہو چکا ہے اور انتشار کا آسیب اس بدقسمت ملک پر برسوں منڈلاتا رہے گا۔ اب ایران کی باری ہے۔ درحقیقت ایران کا نمبر تو کئی برس پہلے ہی آ چکا ہے لیکن اس محاذ پر کوئی پیشرفت نہیں ہو رہی۔ اگر عراق کا تجربہ کامیاب رہا ہوتا تو امریکا یقینا تیل کی دولت سے مالامال اہم محلِ وقوع کے حامل ملک ایران کو کچلنے کا موقع کبھی ہاتھ سے نہ جانے دیتا کیونکہ ایران کو کنٹرول کرنے کا مطلب امریکی کنٹرول کا دائرہ طاقتور ایشیائی ملکوں اور روس کی سرحدوں تک وسیع کرنا اور اپنے اثر و رسوخ کے لیے ضرورت پڑنے پر پنجہ آزمائی کی راہ ہموار کرنا تھا۔ مگر اب موجودہ حالات میں ایران کے خلاف امریکا کی فوجی کارروائی فوجی خودکشی کے مترادف ہو گی۔ عراق میں امریکی فوج کے کس بل نکل چکے ہیں اور رہی سہی کسر افغانستان میں طالبان نے پوری کر دی ہے جو امریکی اور اتحادی افواج کو چھٹی کا دودھ یاد دلا رہے ہیں۔ جہاں جولائی 2009ء کا مہینہ امریکی فوج کے لیے انتہائی ہلاکت خیز ثابت ہوا، جبکہ طالبان اور دیگر قبائلی ملیشیا تنظیمیں پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط اور جاندار بن کر ابھری ہیں اور اتحادیوں کو ناکوں چنے چبوا رہی ہیں۔ ایران کے خلاف وسیع پیمانے پر فوجی کارروائی یا بھرپور امریکی حملہ یا قبضہ قطعی ناممکن بات ہے۔ اسرائیلی حکام کی مایوسی اور بے چینی کا اصل سبب بھی یہی ہے کہ "جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے"۔ اسرائیلی اپنے دشمنوں پر دھونس جمانے یا نیچا دکھانے اور عراق کی طرح تباہ کرنے کے لیے ہمیشہ امریکا کی فوجی اعانت پر انحصار کرتے رہے ہیں۔ امریکا کی جانب سے ایران کے خلاف سخت دھمکی آمیز بیانات کے باوجود لگتا یہی ہے کہ اس نے ایک ایٹمی ایران کی حقیقت قبول کر لی ہے اور اس کی ایٹمی صلاحیت کو محدود رکھنے کی کوششوں پر اکتفا کر لیا ہے۔ لیکن اسرائیل کے لیے یہ بات قابلِ قبول نہیں ہے۔ مگر فوجی اعتبار سے اسرائیل کے لیے حالات زیادہ سازگار نہیں ہیں۔ اسرائیل نے اپنے "ایرو میزائل شکن نظام" کے تجربات فنی وجوہ کی بنا پر منسوخ کر دیئے ہیں جس کا مقصد ایرانی شہاب 3 میزائلوں کو راستے میں روکنا اور تباہ کرنا تھا۔ اس نظام کے لیے نصف فنڈ امریکا نے فراہم کیا تھا۔ ایران کے خلاف امریکا کی فوجی کارروائی کے امکانات بڑی حد تک معدوم ہوتے جا رہے ہیں اور اس کے ساتھ ہی اسرائیل کی مایوسی اور تشویش بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ اگر امریکا نے ایران کی فوجی طاقت کو بھی عراق کی طرح تہس نہس نہ کیا تو پھر ایک ایٹمی ایران کچھ ہی دیر کی بات ہے۔ اگر اسرائیل ایران پر حملہ کرنے کی حماقت کرتا ہے تو اس سے یقینا امریکا کے تزویراتی مفادات کو نقصان پہنچے گا اور پھر اس امر کی کوئی ضمانت نہیں کہ اس اقدام سے ایران کے ایٹمی پروگرام کو تباہی سے دوچار کیا جا سکے گا یا ایرانی ایٹمی پروگرام کی رفتار سست پڑ جائے گی۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ آخر ایران سے کیسے نمٹا جائے۔ ان کے پاس اس مسئلے کا کوئی حل نظر نہیں آتا اور اسرائیل کے لیے یہ صورت حال سخت اذیت ناک ہے۔
خبر کا کوڈ : 10413
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش