0
Sunday 9 Oct 2011 00:21

جنرل سٹینلے میک کرسٹل کی صاف گوئی

جنرل سٹینلے میک کرسٹل کی صاف گوئی
 تحریر:جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم
 جنرل سٹینلے میک کرسٹل امریکہ کا ایک بہت ہی مشہور ریٹائرڈ جنرل ہے، جس نے عراق جنگ میں بطور کمانڈر آف دی جائنٹ سپیشل آپریشن کمانڈ ایک کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ عراق میں بے گناہ لوگوں کی قتل وغارت میں بہترین کارکردگی دکھانے کے بعد جب میک کرسٹل کو افغانستان میں اتحادی افواج کا سربراہ بنا دیا گیا تو اس کو احساس ہونا شروع ہوا کہ اوباما انتظامیہ کی جنگی سوچ غلط ہے۔ اس لئے ایک امریکی رسالے کے مطابق اس نے امریکی صدر کو نالائق اور افغانستان، پاکستان کے معاملات پر معمور امریکی سفارت کار مرحوم رچرڈ ہالبروک کو مجروح جانور کہا۔ اس پر امریکی صدر برہم ہوئے تو میک کرسٹل کو جون 2010ء میں افغانستان سے واپس امریکہ بلا کر سبکدوش کر دیا گیا۔ بعد میں ایک اور تحقیقات کے بعد میک کرسٹل کو اس چارج سے اس لئے بری کر دیا گیا کہ جس رسالے میں اُن کا انٹرویو چھپا تھا اس کی ساکھ اچھی نہ تھی۔
 اب میک کرسٹل نے آٹھ اکتوبر کی ’’دی آسٹریلین‘‘ اخبار کے مطابق کہا ہے کہ امریکہ اور اتحادی ابھی تک افغانستان میں آدھی مصافحت بھی طے نہیں کر پائے اور لگاتار پیچھے بھی پھسل رہے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پچھلے صرف پانچ سالوں میں دس ہزار افغانی سویلین مارے جا چکے ہیں اور اس کے علاوہ تقریباً 2500 اتحادی بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ افغان جنگ اب دس سال مکمل کر کے طوالت میں ویت نام کی جنگ کا نمبر بھی کاٹ چکی ہے اور اس طرح امریکہ کی طویل ترین جنگ بن گئی ہے۔ 
اخبار کے مطابق امور خارجہ کی کونسل کو خطاب کرتے ہوئے سٹینلے میک کرسٹل نے چند روز قبل کہا کہ افغانستان میں ایسی دیانت دار یا قانونی حکومت بنانا انتہائی مشکل ہے جو صحیح معنوں میں طالبان کا مقابلہ کر سکے۔ جنرل میک کرسٹل نے اس بات کا اعتراف کیا کہ امریکہ کے پاس افغانستان کے متعلق کافی اطلاعات نہ پہلے تھیں اور نہ اب ہیں۔ یہاں تک کہ امریکیوں کو افغانستان کی تاریخ کا بھی بدقسمتی سے پورا ادراک نہ تھا اور جنرل کرسٹل کے مطابق امریکہ افغانستان کی پچھلے پچاس سال کی تاریخ سے بھی بے وقوفی کی حد تک بے خبر ہے۔
جنرل میک کرسٹل کے مطابق افغانستان پر اتحادیوں کا حملہ تو شائد اس لئے جائز تھا کہ طالبان القاعدہ کی مدد کر رہے تھے، لیکن عراق پر امریکی حملے کا ہمارے پاس کوئی جواز نہ تھا۔ جنرل کرسٹل کے مطابق امریکہ کے عراق پر حملے کو مسلم دنیا نے غیرقانونی کہا اور سب مسلمان امریکی کے مخالف ہو گئے۔ اگر عراق پر حملے کی بجائے امریکہ افغانستان پر دھیان دیتا تو شائد حالات مختلف ہوتے۔ کرسٹل نے کہا کہ 2014ء میں جب امریکہ کی افواج افغانستان کا قبضہ ختم کریں گی تو تب بھی افغانستان کے بہت سارے علاقوں میں خون خرابہ جاری رہے گا۔ امریکی جنرل کے مطابق جب تک امریکہ طالبان سے کوئی معاہدہ نہیں کرتا، اس وقت تک افغانستان میں جنگ بند نہیں ہو سکتی۔ برطانوی افواج کے کمانڈر اِن چیف نے بھی حال ہی میں کہا ہے کہ افغانستان دوبارہ القاعدہ کا مضبوط اڈہ بن سکتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ اتحادی افواج 2014ء سے پہلے افغانستان میں پرامن حالات پیدا کرنے کی کوشش کریں۔
امریکی ریٹائرڈ جنرل میک کرسٹل کی بات اس حد تک تو درست ہے کہ امریکہ نے عراق پر ناجائز حملہ کرکے مسلم دنیا میں اپنے وقار کو گرا لیا، لیکن میک کرسٹل کی یہ دلیل غلط ہے کہ امریکہ کے پاس افغانستان پر حملہ کرنے کا یہ جواز موجود تھا کہ طالبان حکومت القاعدہ کی ساتھی تھی۔ اس دلیل کی کوئی بنیاد نہیں، چونکہ 9/11 کے حملے میں حصہ لینے والے سارے انیس ہائی جیکرز میں سے کسی کا تعلق بھی طالبان سے نہ تھا اور طالبان اُسامہ بن لادن کو بھی بیرونی طاقتوں کے حوالے کرنے پر تیار تھے، بشرطیکہ اُسامہ بن لادن کے 9/11 کے حملوں میں ملوث ہونے کے ثبوت فراہم کئے جائیں۔ 
حیرانگی اس بات کی ہے کہ امریکہ جیسی سپر طاقت نے انتہائی رعونت میں پہلے افغانستان اور پھر عراق پر حملے کیوں کئے، اس کے بعد پاکستان پر ڈرون حملوں کا بھی کوئی جواز نہیں۔ امریکہ کے پاس آج سے دس سال پہلے صرف پچاس ڈرون تھے۔ اب ایک اطلاع کے مطابق امریکہ کے پاس 7000ڈرون ہیں، جن کو وہ افغانستان، عراق، پاکستان، یمن، لیبیا اور سوڈان وغیرہ میں بے دردی سے استعمال کر رہا ہے۔ ایک طرف تو امریکہ انسان کش بارودی سرنگوں اور کلسٹر بموں کی پیداوار پر دنیا میں پابندی لگانے میں پیش پیش تھا اور دوسری طرف ڈرون مشین جو سو فیصد"Weapons of lethal autonomy" کے زمرے میں آتے ہیں، کا بے دریغ استعمال کر رہا ہے۔ لیکن جب دوسرے ممالک بھی ڈرون ٹیکنالوجی حاصل کر لیں گے تو امریکہ ڈرون کے استعمال پر بھی پابندی لگا دے گا۔ 
اب جبکہ جنرل میک کرسٹل جیسے امریکہ کے چوٹی کے عسکری قائدین امریکہ کی جنگی حکمت عملی کو ناقص قرار دے رہے ہیں تو دیکھنا یہ ہے کہ مصیبت میں گرفتار اوباما 2012ء  کے انتخابات سے پہلے کیا دوغلی پالیسی چھوڑ کر سچ اور حق کا ساتھ دے گا اور کیا امریکی قیادت سے اُس اخلاقی جرات کی توقع کی جا سکتی ہے جس کے زور پر امریکہ افغانستان میں جنگ بندی کا اعلان کرے اور اتحادی افواج کو اس خطے سے باہر نکال کر یہاں اقوام متحدہ کے غیر جانبدار مبصروں کو تعینات کر دیا جائے؟ میرے خیال میں غربت اور افلاس میں مبتلا دنیا کی تقریباً نصف آبادی اتنی خوش قسمت نہیں کہ طاقت کے نشے میں چُور خوشحال قومیں جنگ و جدل کا راستہ چھوڑ کر غریب انسانیت کی خدمت کے لئے اپنے وسائل وقف کر دیں۔ اللہ کرے امریکہ اور مغربی طاقتیں جنرل ریٹائرڈ میک کرسٹل جیسے عسکری ماہر کی صاف گوئی سے ضروری سبق حاصل کریں۔
خبر کا کوڈ : 104776
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش