0
Wednesday 12 Oct 2011 22:44

امریکہ عوامی طوفان کی زد میں، سرمایہ داری نظام گرنے کو ہے

امریکہ عوامی طوفان کی زد میں، سرمایہ داری نظام گرنے کو ہے
تحریر:ع حسین
 
مسلسل کئی روز سے جاری مظاہرے اس بات کی عکاسی کر رہے ہیں کہ امریکی عوام معاشی ناانصافیوں کو نہ صرف سمجھ چکے ہیں بلکہ اب انہوں نے اس بے عدالتی کے خلاف بھر پور تحریک چلانے کا بھی تہیہ کر لیا ہے۔ دارالحکومت سمیت ریاست متحدہ امریکہ کی اکثر ریاستوں میں مسلسل کئی دنوں سے جاری لاکھوں افراد کا احتجاج امریکی پالیسی ساز اداروں کے لئے ایک کھلا پیغام ہے کہ زمینی حقایق سمجھ لیں کہ سرمایہ دارانہ نظام کی بوسیدہ ہڈیوں میں اب عالمی ٹھکیداری کی سکت نہیں رہی اور انہیں اپنی بنیادی فکر میں تبدیلیاں لانی ہونگی، تخریبی سوچ کو تعمیری سوچ میں ڈھالنا ہو گا۔، خلاصہ یہ کہ انہیں اپنی جہاں بینی یا دنیا کے بارے میں طرز تفکر تبدیل کرنا ہو گا کیونکہ امریکہ کی ڈاون ریٹنگ نے جہاں امریکی معاشی حکمت عملی اور پولیٹیکل اکانومی کی قلعی کھول کے رکھ دی ہے وہاں عالمی اقتصادی نظام کے مستقبل کی نشاندہی بھی کر دی ہے۔ 
ذاتی ملکیت اور سرمائے کے ارتکاز کا نظام جس بری طرح اپنی بنیادوں سے ہلا ہے اس سے یہ بات آسانی سے سمجھ آ جاتی ہے کہ اگر اب بھی سودی سرمایہ کاری اور ٹرکل ڈاون ایفیکٹ کو ہی دنیا پر لاگو رکھا گیا تو مشرق وسطٰی کی طرح وہاں پر بھی تبدیلیاں ناگزیر ہونگی، البتہ اس فرق کے ساتھ کہ مشرق وسطٰی کی تحریک عوامی ہونے کے ساتھ ساتھ اسلامی بیداری کی ایک ایسی لہر ہے جس کی جڑیں وہاں کی عوام کی عقیدتی گہرائیوں میں پیوست ہیں جبکہ یورپ اور امریکہ میں جاری احتجاج کو ہم طبقاتی جنگ کا طبل کہہ سکتے ہیں، جو درحقیقت نظام سرمایہ داری کی ناانصافیوں کی پیداوار ہے۔
برسلز کے ایک دانشور ایرک کا آرٹیکل جیسے اردو میں چنگاری سایٹ نے پبلش کیا لکھتا ہے کہ ”یورپ کا محنت کش طبقہ اس وقت دوہرے عذاب میں مبتلا ہے۔ ایک طرف انہیں اجرتوں میں کمی اور کٹوتی سمیت برطرفیوں اور روزگار سے محرومی کا سامنا ہے تو ساتھ ہی ساتھ اگر انہیں کام کرنا بھی ہے تو ان سے کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنی ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافہ کریں کیونکہ سرمایہ داری بیچاری بحران کی زد میں ہے۔ یورپی معیشت کے استحکام کے سبھی بلند و بانگ دعووں کے برعکس یہاں کے محنت کشوں کو کسی طرف بھی اور کسی شعبے میں بھی بحالی نظر نہیں آ رہی اور اب تو حالت یہ ہو چکی ہے کہ سبھی محنت کشوں کو بلا تخصیص سخت گیر ڈریکولائی بجٹ کٹوتیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ 
صرف یورپ کے اندر گل سڑ چکے مالیاتی نظام کو بچانے کیلئے، بینکوں کو جس قدر بھاری رقم ادا کی گئی ہے، وہ اگر ساری یورپی آبادی کے حساب سے فی کس تقسیم کی جائے تو وہ تین ہزار یورو بنتی ہے۔ ایک ٹریڈ یونین نے اس بارے جو تخمینہ لگایا ہے اس کے مطابق یہ رقم اتنی بڑی ہے کہ جو سارے یورپ میں تعلیم اور صحت کے شعبے میں مجموعی طور پر خرچ کی جاتی ہے۔“
امریکہ اور یورپ میں جاری اس ساری صورتحال کے بارے میں اسلامی دنیا کا وہ ملک جس کے خلاف یورپ اور امریکہ ہمیشہ سے پابندیاں لگاتے آئے ہیں کے دانشوروں کا کہنا ہے کہ درحقیقت یہ یورپ اور امریکہ کے ان جرائم کا نتیجہ ہیں جو انہوں نے دوسرے ممالک پر روا رکھے ہوئے ہیں، ایران میں تہران کے امام جمعہ آیت اللہ کاظم صدیقی کا کہنا تھا کہ ”یورپ میں احتجاج ان جرائم کے نتائج ہیں جو مغربی ملکوں نے دوسرے ملکوں میں انجام دیئے ہیں۔ برطانیہ سمیت بعض مغربی ممالک جارح ہیں اور اپنی جارحیت کا بجٹ ٹیکسوں سے حاصل کرتے ہیں جسے عوام کو ادا کرنا پڑتا ہے اور اس کا نتیجہ داخلی حالات کے خراب ہونے کی صورت میں نکل آتا ہے۔ تہران میں لاکھوں نمازیوں سے اپنے ایک خطاب میں لندن میں احتجاج کرنے والے جوانوں کے خلاف پولیس کے تشدد آمیز رویے کی مذمت کرتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ برطانیہ کے مختلف شہروں میں احتجاج خدا کے سچے وعدہ کی علامت ہے، جس کی نوید حضرت امام خمینی قدس سرہ نے بھی دی تھی اور کہا تھا کہ آخر کار مستضعفین کو مستکبرین پر فتح حاصل ہو گی۔“
امریکہ میں جاری ان مظاہروں کو جہاں اسلام میں کس انداز سے سوچا جاتا ہے اس کو مزید سمجھنے کے لئے اسلام ٹائمز سائیٹ پر جناب ثاقب اکبر صاحب کے آرٹیکل کا یہ اقتباس ملاحضہ کرتے ہیں ”کیا یہ کوئی معمولی سی بات ہے کہ امریکہ کے ایک ہزار شہروں میں اس وقت وہاں پر قائم استبدادی اور ظالمانہ نظام کے خلاف مظاہرے جاری ہیں۔ غریب، محروم، بے روزگار اور مستضعف ننانوے فیصد امریکی عوام ظالم سرمایہ دار بے رحم ایک فیصد حکمران طبقے کے خلاف بپھرتے چلے جا رہے ہیں۔ چوراہوں اور چوکوں میں جمع ہونے والے امریکی ہیں، جنھوں نے اپنے ”مطالبات“ پورے ہونے تک واپس نہ جانے کا اعلان کر دیا ہے۔ دیکھیں امریکی سیاستدان، سرمایہ دار، میڈیا، انٹیلی جنس ایجنسیاں، فوج، تھنک ٹینک، پولیس اور دیگر ادارے مل کر ان کا کیا علاج کرتے ہیں۔ تاہم ایک شعور ہے جو پھیلتا چلا جا رہا ہے۔ ایک آگاہی ہے جو عام ہو رہی ہے۔ ایک تبدیلی ہے جو جڑ پکڑ رہی ہے۔ یہ نیو یارک اور واشنگٹن ڈی سی ہے لاہور اور بغداد نہیں۔“
امریکہ اور یورپ میں طاقتور طبقے کی جانب سے کمزوروں کا استحصال یا دوسرے الفاظ میں مستضعفین کا مستکبرین کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کے کیا نتایج برآمد ہونگے، اس کے بارے میں ابھی کچھ حتمی طور پر نہیں کہا جاسکتا لیکن ایک بات طے ہے کہ اب یورپ اور امریکہ میں پسے ہوئے لوگ اپنے حقوق کی خاطر اس نہج پر چل پڑے ہیں، جو عام طور پر کسی بھی معاشرے میں اس معاشرے کے حالات اور سوچ کے مطابق ایک بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوتے ہیں۔
ہم آخر میں نیویارک ٹائمز کے اس اقتباس سے اپنی اس گفتگو کو سمیٹتے ہیں کہ نیوریارک ٹائمز احتجاج کرنے والوں کے بارے میں لکھتا ہے کہ عادی معترضوں کو شکایت ہے کہ ان مظاہرین کے پاس نہ تو کوئی واضح پیغام ہے اور نہ مسائل کا حل، لیکن ان کے پیغام اور نسخے سے ہر وہ شخص باخبر ہو گا، جس نے قومی معیشت کی اس کساد بازاری پر نظر رکھی ہے۔ جس نے متوسّط طبقے کو کنگال کر دیا ہے، لیکن جس نے صاحب ثروت لوگوں کو اور خوشحال کر دیا ہے۔ اخبار کہتا ہے کہ مشکل یہ ہے کہ واشنگٹن میں اس کی طرف کوئی بھی توجّہ نہیں دے رہا۔
ان احتجاجی مظاہروں کا پیغام یہ ہے کہ آمدنیوں کی ناہمواریوں کی وجہ سے متوسّط طبقہ پس رہا ہے۔ غریبوں اور مفلسوں کی صفیں پھیلتی جا رہی ہیں اور ایک ایسا مستقل مظلوم طبقہ پیدا ہو رہا ہے جو تندرست ہے اور کام کرنا چاہتا ہے، لیکن بے روزگار ہے۔ ایک طرح سے یہ احتجاجی مظاہرین، جن کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے، محرومیوں کی شکار ایک پوری نسل کی نمائندگی کر رہا ہے۔ کالج کے سند یافتہ گریجویٹوں میں بے روزگاری کی شرح 9.6 فی صد ہے اور ہائی سکول گریجویٹوں میں 21.6 فی صد ہے۔ 
یہ مظاہرے محض نوجوانوں کی نمائندگی نہیں کرتے، بلکہ اس کی بھی نشاندہی کرتے ہیں کہ امریکی معیشت جس نہج پر چل رہی ہے وہ بیشتر امریکیوں کے مفاد میں نہیں ہے، اور وہ یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ضابطے وضع کرنے والوں اور منتخب عہدیداروں کی ملی بھگت سے مالیاتی شعبہ پھول کر کپّا بن گیا اور قرضوں کی بھرمار نے بالآخر جب اپنا رنگ دکھایا تو اس وقت تک اس شعبے نے بھی خوب ہاتھ رنگے اور منافع کمایا جبکہ کروڑوں امریکیوں کا روزگار جاتا رہا۔ ان کی آمدنیاں، بچائی ہوئی رقمیں اور گھر ان کے ہاتھ سے جاتے رہے اور حالات اس قدر خراب ہو گئے کہ امریکیوں کا انصاف اور بحالی پر سے اعتماد اٹھ گیا۔ آغاز پر ہونے والی اس بے انصافی میں اگر کوئی کسر رہ گئی تھی تو وہ بیل آوٹ اور وال اسٹریٹ سے اپنے انتخاب کے لئے نقدی کی بھیک مانگنے والے منتخب عہدہداروں نے پوری کی۔ اخبار کہتا ہے کہ یہ وہ زہریلا مرکّب ہے جس نے بنکوں اور بنکاروں کی سیاسی طاقت کو مستحکم کر دیا ہے جبکہ عام امریکی پس رہا ہے۔

خبر کا کوڈ : 105808
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش