0
Wednesday 12 Oct 2011 23:19

سعودی عرب میں مظلوم خواتین کی فریاد

سعودی عرب میں مظلوم خواتین کی فریاد
تحریر:طاہر یاسین طاہر
خامہ انگشت بدنداں کہ اسے کیا لکھیے؟
ناطقہ سر بریگریباں کہ اسے کیا کہیے؟

غالب نے ایک بت سیما کی توصیف کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ سراپے کو شعری قید میں لانا خامے کے بس کی بات نہیں، مگر مجھے اور طرح کا دکھ گھیرے ہوئے ہے۔ میں بھی انگشت بدنداں ہوں کہ اس ستم ظریفی کو کیا کہوں؟ گاہے خیال گزرتا ہے کہ جو انبیاء کے طویل سلسلے سے نہ سدھر سکے انہیں اب کیسے راہ راست پر لایا جاسکتا ہے۔؟ گزشتہ سے پیوستہ روز ایک غیر ملکی نشریاتی ادارے کی رپورٹ نے رونگٹے کھڑے کر دیئے۔ یہ بات تو ہم سب کے علم میں ہے کہ مشرق وسطٰی میں تارکین وطن کے ساتھ غلاموں کا سا سلوک کیا جاتا ہے۔ 
شاید عربوں کی سرشت میں یہ بات ہے کہ وہ غیر عرب کو بندہ بشر ہی نہیں سمجھتے۔ کیا ان لوگوں نے اللہ کے برگزیدہ ترین بندوں سے بھی ہتک آمیز سلوک نہیں کیا۔؟ تاریخ کے اوراق اس بات پر شاہد ہیں۔ قدرت کو بار بار رحم آیا اور ہدایت کے لئے انبیاء ع کا سلسلہ جاری رکھا، جو بالآخر خاتم الانبیاء ص  پر آ کر تمام ہوا۔ اخلاقیات، رحم دلی اور انسانی مساوات جیسے الفاظ بڑے دلفریب ہیں، کسی سرخ قالین پر پانچ ستارہ ہوٹل کے بڑے ہال میں جبہ و دستار میں لپٹا کوئی شخص ہو یا تھری پیس میں مساوات اور انسانی حقوق کی بات کرنے والا، دونوں کی بات کانوں کو بڑی بھلی لگتی ہے۔ یہاں تک کہ انسانی بھلائی کا یہ ”فیشن“ اس قدر بڑھتا جا رہا ہے کہ اب تو ریاستیں بھی بعض رفاہی اداروں کے لئے خطیر رقم دینے لگی ہیں۔
دلوں کا حال اللہ رب العزت ہی جانتا ہے۔ خطبہ حجة الوداع کو ہم انسانی مساوات اور بھلائی کا بہترین درس قرار دیتے ہیں۔ کیا الوداعی خطبے میں میرے آقا نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ غلاموں سے نیک سلوک کرنا؟ اور یاد رہے کہ اس میں یہ قید بھی نہیں کہ غلام کس نسل، قوم، قبیلے اور مذہب و مسلک سے ہو۔ پھر سری لنکن سروجنی کا کیا قصور ہے کہ اس کے سعودی کفیل نے اسے تشدد کا نشانہ بنایا، مذکور گھریلو ملازمہ اپنے کفیل کی بدسلوکی سے بچنے کی کوشش کرتی تھی جس کی پاداش میں اسے ستم سہنا پڑا۔
 غیر ملکی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض کے قید خانے میں موجود سری لنکا سے تعلق رکھنے والی گھریلو خواتین نے مدد کی اپیل کی ہے۔ سروجنی اولایا کے حراستی کیمپ میں ہے، جہاں جنوب اور مشرق سے ہجرت کر کے آنے والی سینکڑوں خواتین مدد کی منتظر ہیں۔ ان سب کا جرم ایک ہے، یہ اپنے آجروں کی جانب سے ہونے والے جسمانی تشدد، بدسلوکی اور نفسیاتی دباﺅ سے بچنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ بچاری کسوما نندانی کا قصور کیا ہے؟ فقط یہ کہ وہ اپنے آجر کے بچوں کو پاکٹ منی دینا بھول گئی اور اس وجہ سے اس کی تنخواہ بند کر دی گئی۔ 
کسوما نندانی کہتی ہے کہ ایک دن اسے اس کے آجر نے بتایا کہ اب اسے تنخواہ نہیں دی جائے گی کیونکہ وہ آجر کے بچوں کو سکول چھوڑنے سے پہلے پاکٹ منی دینا بھول گئی اور یوں اسے پندرہ سال سے تنخواہ نہیں ملی۔ کسوما کو تو اس کے آجروں نے دس سال قید میں بھی رکھا۔ وہ کہتی ہے کہ اس کے آجر یا کفیل سری لنکا میں موجود اس کے بیٹے، بیٹیوں اور خاوند سے بھی رابطہ کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ 2009ء میں سری لنکا کے سفارتخانے کے حکام نے کسوما کو قید خانے سے بازیاب کرایا، جس کے بعد وہ ایک حراستی کیمپ میں مقیم ہے۔
 اسی طرح ڈبلیو جی منگالیکا نامی ایک اور گھریلو ملازمہ جنھیں ان کے آجر نے بتایا کہ اسے بغیر تنخواہ کے کام کرنا پڑے گا کیونکہ وہ پہلے ہی سات ہزار سعودی ریال سری لنکا کی ایک ایجنسی کو دے چکے ہیں۔ منگالیکا کو اس کے آجر کی جانب سے مقدمہ کا بھی سامنا ہے اور وہ شدید پریشان ہے۔ حراستی کیمپ میں موجود ان خواتین کا کہنا ہے کہ جب وہ پہلی بار سری لنکا کے سفارتخانے میں آئیں تو سری لنکن حکام نے ان کی مدد کی، تاہم وہ اس بار فکر مند ہیں کہ انہیں واپس سری لنکا بھیجنے میں سستی کیوں کی جا رہی ہے۔؟ 
حراستی کیمپ میں رہنے والی خواتین کے علاوہ سینکڑوں ایسی بھی ہیں جو سفارتخانے کے ہوٹل میں مقیم ہیں اور ان خواتین کی حالت اس وجہ سے مزید خراب ہو چکی ہے کیونکہ وہ اپنے آجروں کو چھوڑ چکی ہیں اور اس کے بعد ان کی حیثیت غیر قانونی ہو چکی ہے۔ سعودیہ کے قانون کے مطابق یہ خواتین غیرقانونی ہجرت کی درجہ بندی میں آتی ہیں۔ یہاں اہم سوال تو یہ ہے کہ کسی ملک میں غیرقانونی تارکین وطن کے ساتھ غیر انسانی سلوک کی اجازت کیوں ہے۔؟ اگست 2010ء میں ایک ایسا واقعہ سامنے آیا تھا جس میں ایک 49 سالہ سری لنکن خاتون ایل پی آریا واتھی، کے جسم سے چوبیس کیلیں برآمد ہوئی تھیں۔ اس واقعہ کے سامنے آنے کے بعد سعودی حکام نے اس کی مکمل تفتیش کرنے کا اعلان کیا تھا، تاہم ابھی تک اس کیس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
اگرچہ انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ ایک عرصے سے مشرق وسطٰی میں کام کرنے والے گھریلو ملازمین کی حفاظت کے لئے کوشش کر رہی ہے اور تنظیم نے سعودی حکام سے ان گھریلو ملازمین کو بھی مقامی لیبر قوانین میں شامل کرنے کی استدعا کی ہے، تاکہ ان کی بہتر حفاظت ہو سکے، مگر مقدس ریاست نے ابھی تک ان بیچارے غلاموں کے لئے کوئی ایسے اقدامات نہیں کئے جس سے انہیں انسانی حقوق میسر آسکیں۔
کیا یہ ستم ظریقی ان چند سری لنکن گھریلو ملازمین پر ہی ہوئی۔؟ نہیں، یہ تو ستم کی وہ کہانیاں ہیں جو کسی نہ کسی طرح منظر عام پر آگئیں۔ کیا فلپائن، انڈونیشیاء اور بنگلہ دیش وغیرہ کے باشندے اس سلوک سے مستثنٰی ہیں؟ حیرت افروز امر تو یہ ہے کہ سری لنکن حکام نے اپنے شہریوں کی حفاظت کے لئے درست اقدام نہیں کیا۔ اس سے بھی بڑھ کر حیرت کہ عالمی برادری خاموش! ہم فخر کرتے ہیں کہ ہم تقدس والی سرزمین کے باسی ہیں۔ کیا میرے آقا نے اپنے آخری خطبہ میں ارشاد نہیں فرمایا تھا کہ ”اپنے غلاموں سے نیک سلوک کرنا“۔؟
خبر کا کوڈ : 105811
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش