0
Wednesday 19 Oct 2011 13:35

سعودی سفیر کے قتل کی سازش، نیا امریکی جال

سعودی سفیر کے قتل کی سازش، نیا امریکی جال
تحریر:ثاقب اکبر
جنجال آفرینی میں امریکہ کو یدطولٰی حاصل ہے۔ وہ ہر روز نئے قصے گھڑتا ہے اور ہر روز نئے جال بنتا ہے۔ اس کی تازہ مثال ایران پر اس کا یہ الزام کہ اس نے امریکہ میں سعودی سفیر عادل الجبیر کو ہلاک کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، جسے پکڑ لیا گیا ہے۔ اس منصوبے کے نام نہاد انکشاف کے ساتھ ہی صدر اوباما، وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن اور دیگر اعلٰی امریکی عہدیداروں نے بیان بازی شروع کر دی ہے اور ساتھ ہی ایران کے خلاف نئی پابندیاں عائد کرنے کے لیے دہائی دینا بھی شروع کر دیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ اور یورپی یونین کو بھی اس میں دخیل کرنے کے اقدامات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ اخبارات اور دیگر ذرائع ابلاغ نے بھی اپنا کردار ادا کرنا شروع کر دیا ہے۔ سعودی عرب جو پہلے ہی ہر مسئلے پر امریکہ کی ہاں میں ہاں ملاتا چلا آ رہا ہے اس مسئلے پر اس طرح سے آواز بلند کر رہا ہے جیسے امریکہ ہی کی صدائے بازگشت ہو۔ اگر کوئی کام امریکہ نہیں کر رہا تو وہ یہ کہ کوئی ثبوت ایران کو اس مقصد کے لیے فراہم نہیں کیا جا رہا بلکہ امریکی حکمران یہ بھی ضروری نہیں سمجھتے کہ کیس ان کی اپنی ہی عدالت میں فیصل ہو جائے، پھر وہ اس سلسلے میں کوئی اقدام کریں۔
دوسری طرف ایران کے روحانی پیشوا سید علی خامنہ ای نے واشنگٹن میں متعین سعودی سفیر کو دو ایرانیوں کی جانب سے قتل کرنے کی مبینہ سازش سے متعلق امریکی الزامات کو بے معنی اور مضحکہ خیز قرار دیا ہے۔ ایران کے سرکاری ٹی وی کے مطابق سپریم لیڈر نے ملک کے مغربی صوبے کرمان شاہ میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”امریکا میں مقیم بعض ایرانیوں کے خلاف ایک بے مقصد اور غیر سنجیدہ الزام عائد کیا جا رہا ہے اور اسے اسلامی جمہوریہ کو دہشتگردی کی حمایت کرنے والا ملک ثابت کرنے کے لیے ایک عذر کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے لیکن یہ سازش کامیاب نہیں ہو گی۔“
ایرانی صدر ڈاکٹر محمود احمدی نژاد نے اس مسئلہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران تہذیب وثقافت سے بھرپور ملک ہے اور ایک ایسے ملک کو دہشت گرد کارروائیوں کی ضرورت نہیں۔ ڈاکٹر محمود احمدی نژاد نے بتایا کہ مغربی ممالک ایران پر ایک دہشتگرد ملک ہونے کا الزام لگاتے ہیں جبکہ دہشتگردی ایسے ممالک کا عمل ہے جن کی کوئی تہذیب و ثقافت نہیں ہوتی۔ محمود احمدی نژاد نے بتایا کہ امریکا ہمارے خلاف ہر دن کوئی نہ کوئی نیا پروپیگنڈا تیار کرتا ہے، ایک دن ہم پر جنگ مسلط کی جاتی ہے، دوسرے دن ہمارے خلاف معاشی پابندیاں لگائی جاتی ہیں اور پھر سیاسی دباﺅ ڈالا جاتا ہے۔
مزید برآں ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان رامین مہمان پرست کا ایک بیان ایران کے ایک ٹی وی چینل پریس نے نقل کیا ہے جس میں انھوں نے کہا کہ امریکی الزامات بے بنیاد اور غلط ہیں۔ انھوں نے کہا یہ ایک کامیڈی شو ہے جو امریکا نے گھڑا ہے۔
امریکی ایماء پر سعودی عرب نے بھی اقدامات شروع کر دیئے ہیں۔ اُس نے واشنگٹن میں متعین اپنے سفیر کو قتل کرنے کی مبینہ سازش کا کیس اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو رپورٹ کر دیا ہے۔ سعودی عرب کے ملکیتی اخبار الشرق الاوسط نے اپنی ایک اشاعت میں بتایا ہے کہ اقوام متحدہ میں سعودی عرب کے مستقل مشن نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری بان کی مون سے درخواست کی ہے کہ وہ سلامتی کونسل کو اس کے بقول سنگین سازش کے بارے میں مطلع کر دیں۔
الزام کی تفصیل کے مطابق واشنگٹن میں متعین سعودی سفیر عادل الجبیر کو ایک ریستوران میں بم دھماکے میں قتل کرنے کے لیے دو ایرانیوں کو شریک سازش قرار دیا گیا ہے۔ ان کے نام منصور ارباب سیار اور غلام شکوری بتائے گئے ہیں۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ان کے پاس اس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ ایرانی حکام نے اس سازش کو عملی جامہ پہنانے کا حکم دیا تھا لیکن انھوں نے یہ بھی اعتراف کیا ہے کہ سازش کا حکم دینے والے لیڈر کے بارے میں وہ کچھ نہیں جانتے۔ امریکی محکمہ انصاف اور وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی کا کہنا ہے کہ اس سازش کا سراغ القدس فورس سے تعلق رکھنے والے حکام سے جا کر ملتا ہے۔ واضح رہے کہ القدس سپاہ پاسدان انقلاب اسلامی کا ایک حصہ ہے۔
امریکہ نے جس طرح کا الزام لگایا ہے انٹیلی جنس سروس کے بہت سے عالمی ماہرین اسے ایک نامعقول اور ناقابل یقین الزام قرار دے رہے ہیں۔ انٹر پریس سروس کی ایک رپورٹ کے مطابق باربارا اسلاوین کا کہنا ہے کہ امریکہ نے سعودی عرب کے سفیر کو قتل کرنے کے بارے میں جس طرح کا الزام لگایا ہے وہ غیر فطری معلوم ہوتا ہے۔ سی آئی اے کے ایک سابق اہلکار بروس ریڈل نے آئی پی ایس کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ یہ کہانی مشکوک ہے۔
بعض امریکی ماہرین کی رائے ہے کہ یہ سازش احمقانہ معلوم ہوتی ہے اور ”قدس بریگیڈ“ کی کارروائیوں سے کسی قسم کی شباہت نہیں رکھتی۔ ایک اور دانشور ”کانٹ کاٹزمن“ جس نے سپاہ پاسدان کے بارے میں ایک کتاب بھی لکھی ہے اور کانگریس کی ایک تحقیقاتی کمیٹی میں ایک ماہر کی حیثیت رکھتے ہیں کا کہنا ہے کہ یہ کام ہرگز منطقی دکھائی نہیں دیتا۔ انھوں نے کہا کہ ایران اس کام کے لیے غیر مسلمان گروہوں یا ناقابل اعتماد افراد یا اتنی نچلی سطح کے افراد سے کام نہیں لے سکتا تھا۔ علاوہ ازیں ایران واشنگٹن میں عمارات کو دھماکے سے نہیں اڑا سکتا جبکہ ایسا کرنے سے امریکا اس کے اوپر حملہ کر سکتا ہے۔
امریکہ نے جن افراد کو اس مبینہ سازش میں شریک قرار دیا ہے ان کے ماضی اور حال پر ایک نظر ڈالنے سے بہت سی حقیقتیں منکشف ہو جاتی ہیں۔ ان میں سے ارباب سیار کے بارے میں اس کے ایک امریکی ایرانی دوست سیان کا کہنا ہے کہ ارباب سیار کو آٹھ ماہ پہلے امریکا کی شہریت ملی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ایسے شخص کو بہکایا جا سکے جو اتنے لمبے عرصے تک امریکیوں کی زیر نگرانی رہا ہو۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق ارباب سیار ٹیکساس کے علاقے میں جیک کے نام سے جانا جاتا ہے کیونکہ اسے جیک ڈینیل وسکی (ایک شراب) بہت مرغوب ہے۔ اس کا ایک دوست بینجمن بی غمیان اس کے بارے میں کہتا ہے کہ وہ بہت بھلکڑ ہے، وہ جب بھی میرے پاس آیا اپنی کوئی نہ کوئی چیز بھول آیا۔ کبھی اس کے پاس موبائل نہ ہوتا تو کبھی کار کی چابیاں۔
دوسرا شخص غلام شکوری جسے شریک سازش قرار دیا گیا ہے وہ اسی ارباب سیار کا کزن ہے۔ ان دونوں کے بارے میں ایک امریکی صحافی ”جون“ کا کہنا ہے کہ یہ دونوں کسی ایرانی منشیات کے گروہ کے ممبر تو ہو سکتے تھے، مذکورہ سازش کا حصہ نہیں ہو سکتے۔ لیکن جو تفصیلات ارباب سیار کے بارے میں تاحال پتہ چلی ہیں کو مد نظر رکھتے ہوئے اس بات کا یقین بھی نہیں کیا جا سکتا کہ وہ کسی بین الاقوامی ڈرگ نیٹ ورک کا حصہ ہوں۔ ان دونوں کے اس تعارف کے بعد ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان رامین مہمان پرست کی یہ بات درست معلوم ہوتی ہے کہ یہ ایک کامیڈی شو ہے، جو امریکا نے گھڑا ہے۔
امریکہ قبل ازیں ایسے بڑے بڑے جھوٹ بول چکا ہے کہ جن کے سہارے اس نے بڑے بڑے فوجی اور سیاسی مقاصد حاصل کیے ہیں۔ ان میں ایک عظیم الشان جھوٹ آج دنیا کے تقریباً تمام باخبر افراد کے علم میں ہے اور وہ ہے عراق میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی کا جھوٹ، جس کا سہارا لے کر امریکہ اور برطانیہ نے عراق پر چڑھائی کر دی اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ اس فوجی یلغار کے نتیجے میں تقریباً ایک ملین انسان قتل ہوئے، لیکن امریکہ کی پیشانی پر عرق ندامت کا ایک قطرہ آج تک نمودار نہیں ہوا۔ 
اس کا دوسرا بڑا جھوٹ رفیق حریری کے قتل میں شام کے ملوث ہونے کا الزام ہے۔ اس کے بارے میں اتنا شور مچایا گیا اور اتنا دباﺅ شام پر ڈالا گیا کہ وہ لبنان سے اپنی فوجیں نکالنے پر مجبور ہوا، اگرچہ بعد میں خود رفیق حریری کے بیٹے نے جو پہلے اس الزام میں شریک رہے تھے، شام سے معافی مانگ لی۔ اس جھوٹ کا ایک بنیادی مقصد لبنان میں حزب اللہ کو کمزور کر کے اسے اسرائیل کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا تھا۔ 2005ء میں یہ الزام لگایا گیا جس کے بعد شام نے اپنی فوجیں لبنان سے واپس بلائیں اور 2006ء میں اسرائیل نے ایک عذر لنگ تراش کر لبنان پر حملہ کر دیا، جس کا بنیادی مقصد حزب اللہ کا خاتمہ تھا، لیکن ادھر شیطان مکر کرتا ہے اور ادھر اللہ تدبیر کرتا ہے اور اللہ کی تدبیر آخر کار غالب آ کے رہتی ہے۔ اسرائیل کو اس جنگ میں جیسی عبرتناک شکست ہوئی اس کی مثال اسرائیل کی تاریخ میں کم از کم دکھائی نہیں دیتی۔
امریکہ ایک عرصے سے ایران کے خلاف طرح طرح کی سازشیں کرتا چلا آ رہا ہے۔ مختلف حیلوں بہانوں سے امریکا اور اس کے حواریوں نے ایران کا فوجی اور سیاسی محاصرہ کر رکھا ہے، لیکن ایرانی اس کے سامنے سر جھکانے کے لیے آمادہ نہیں۔ دوسری طرف سعودی عرب نے اس خطے میں تمام تر امریکی مفادات کے حصول میں بہت بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ شام کا مسئلہ ہو یا فلسطین کا معاملہ، تیونس میں عوامی تحریک ہو یا مصر میں بیداری، بحرین میں عوام کے جمہوری حقوق کی جدوجہد ہو یا یمن کے لوگوں کی آمریت کے خلاف بغاوت، ہر جگہ سعودی عرب نے وہی کچھ کیا ہے، جو امریکی مفادات کا تقاضا تھا۔
آج خطے میں عوامی بیداری نے جو رخ اختیار کر لیا ہے وہ سعودی عرب کی خاندانی بادشاہت کے لیے ایک خطرے کی گھنٹی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس ساری بیداری کے پیچھے امریکہ اور سعودی عرب کو ایران کا اسلامی انقلاب دکھائی دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں کو اپنا مفاد اسی میں معلوم ہوتا ہے کہ کسی طرح سے ایران میں حکومت کی تبدیلی کو یقینی بنایا جائے، چاہے اس مقصد کے لیے فوجی جارحیت کا سہارا ہی کیوں نہ لینا پڑے۔
البتہ یہ سوال اپنی جگہ پر اہم ہے کہ کیا امریکہ اور اس کے ساتھی اس میں کامیاب ہو سکتے ہیں یا نہیں۔ جو قوم متحد ہو کر اپنے حقوق کے دفاع کے لیے ہر طرح کی قربانی کا عزم رکھتی ہو، اسے امریکہ اور اس کے ساتھی ہرگز پچھاڑ نہیں سکتے۔ دوسری طرف خود امریکہ کے اندر استعماری استبداد اور ظلم کے خلاف جس طرح کی عوامی تحریک برپا ہے اس کے پیش نظر اب اسے اپنی ترجیحات تبدیل کرنا پڑیں گی۔ ایسا اس لیے بھی اعتماد سے کہا جاسکتا ہے کہ وال اسٹریٹ قبضہ کی تحریک آج ظالمانہ سرمایہ داری نظام کے خلاف ایک عالمی تحریک کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ کروڑوں انسان اس سے وابستگی کا اظہار سڑکوں پر آ کے کر چکے ہیں۔ دنیا کے سینکڑوں شہروں میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ ایسے میں امریکا کو شاید اپنے بہت سارے منصوبوں کے سانپ اپنی پٹاری سے نکالنے کا بھی موقع نہ مل سکے۔
خبر کا کوڈ : 107378
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش