0
Thursday 20 Oct 2011 02:40

رحمن ملک کی غیر حقیقی منطق

رحمن ملک کی غیر حقیقی منطق
 تحریر:تصور حسین شہزاد
 امریکی دباؤ اور ملکی صورتحال کے پیش نظر موجودہ حکمران آج کل گوں مگوں کی کیفیت سے دوچار ہیں۔ انہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ امریکہ کو کس طرح ’’ہینڈل‘‘ کریں اور نواز شریف کی ’’گو زرداری گو تحریک‘‘ سے کس طرح نمٹیں۔ دوسری جانب اتحادیوں کو سنبھالنا بھی حکومت کے لئے جوئے شیر لانے کے مترادف بن چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان کے موقف کے برعکس حکومت اپنا الگ ہی ڈھول پیٹ رہی ہے۔ طالبان نے واضح انداز میں کہہ دیا ہے کہ پاکستان پر امریکی جارحیت کی صورت میں اندھا فیصلہ نہیں کریں گے بلکہ سوچ سمجھ کر قدم اٹھایا جائے گا، جبکہ حکومت کہتی ہے کہ طالبان مذاکرات کے لئے آمادہ ہیں۔
وزیر داخلہ رحمن ملک کا کہنا ہے کہ انہیں عسکریت پسندوں کی طرف سے سیز فائر کی پیش کش ہوئی ہے اور عسکریت پسند حکومت سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ رحمن ملک کے مطابق امن کو ایک بار موقع دے کر کسی بھی دہشتگردی کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے اور یہ بہترین راستہ ہے۔ دوسری طرف وزیر داخلہ نے خود اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ تحریک طالبان اور القاعدہ کی طرف سے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو اغوا کرنے کی کوشش کو ناکام بنا دیا گیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ پنجاب کے مقتول گورنر سلمان تاثیر کے دو ماہ قبل اغوا ہونے والے صاحبزادے شہباز تاثیر زندہ ہیں اور انہیں پاک افغان سرحد کے قریب رکھا گیا ہے۔ پاکستان کے شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کے اعلٰی ترین ریاستی ذمہ دار کی طرف سے مذکورہ بیانات دہشتگردی کیخلاف پاکستان کی اسی گو مگو کی پالیسی کا تسلسل ہیں جس کے نتیجے میں پاکستان کے 35 ہزار قیمتی شہری جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، حکومت کے اپنے دعوے کے مطابق پاکستان کو 68 ارب ڈالر کا معاشی نقصان اٹھانا پڑا اور پاکستان ہزاروں مربع کلومیٹر رقبے پر اپنی ریاستی عملداری کھو بیٹھا ہے۔
’’ امن کو موقع‘‘ دینے کے حوالے سے رحمن ملک کا تازہ ارشاد دراصل ستمبر کے آخری ہفتے میں کل جماعتی کانفرنس کے اعلامیے سے برآمد ہونے والا وہ منتر ہے جس پر ان حلقوں کے استثنٰی کے ساتھ جو القاعدہ اور طالبان کے فکری اور سیاسی نصب العین سے کھلی یا درپردہ ہمدردی رکھتے ہیں، اندرون ملک اور بیرون ملک کوئی بھی سنجیدگی سے کان دھرنے کو تیار نہیں۔ 2005ء میں طالبان کے سابق کمانڈر نیک محمد سے ہونے والے معاہدے کے بعد سے ستمبر 2006ء میں معاہدہ وزیرستان اور پھر فروری 2009ء میں معاہدہ سوات تک اس قسم کے ہر امن معاہدے کے نتیجے میں عسکریت پسند عناصر کی قوت میں اضافہ ہوا ہے اور پاکستانی ریاست کی عملداری کمزور ہوئی ہے۔
 ستم ظریفی یہ ہے کہ ’’اچھے اور برے طالبان‘‘ کی خود ساختہ تفریق ہو یا اپنے لوگوں سے بات چیت کا صدری نسخہ، ریاستی مؤقف کے حق میں مختلف حلقوں سے ایک ہی طرح کی آوازیں برآمد ہونے لگتی ہیں۔ بے معنی عذر خواہیوں کی اس مشق کا نتیجہ ہے کہ پاکستان بیرونی دنیا میں اپنی ساکھ کھو بیٹھا ہے اور اندرون ملک عوام نے کم و بیش تسلیم کر لیا ہے کہ ریاست دہشتگردوں کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتی یا کسی وجہ سے اس کا ارادہ نہیں رکھتی کیوں کہ دہشتگرد پہلے خود اعلان کرتے ہیں کہ وہ فلاں عمارت یا شخصیت کو ٹارگٹ کرنے والے ہیں اور پھر ایسا ہو بھی جاتا ہے اور حکمران محض اخباری بیانات دے کر خود کو اپنی ذمہ داری سے عہدہ براء سمجھ لیتے ہیں اور رحمن ملک نے تو گزشتہ روز کوئٹہ میں یہاں تک کہہ دیا کہ حالات جیسے بھی ہوں بدامنی جتنی بھی ہو ہم اقتدار نہیں چھوڑیں گے۔
رحمن ملک کے اپنے سابقہ بیانات کی روشنی میں طالبان، ان کی رہنما بے نظیر بھٹو کی شہادت میں ملوث تھے اور اب بلاول بھٹو زرداری بھی ان کے مذموم ارادوں سے محفوظ نہیں۔ ایسے میں رحمن ملک کس فکری یا سیاسی بنیاد پر دہشتگردوں کے ساتھ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔ وزیر داخلہ فرماتے ہیں کہ ’’امن کو موقع‘‘ دینے سے دہشتگردی ختم کی جا سکتی ہے۔ وزیر داخلہ کا ’’علم‘‘ مسلمہ ہے لیکن وہ دو بنیادی نکات سے صرف نظر کر رہے ہیں۔ دہشتگردوں سے مذاکرات کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ ریاست بالادست حیثیت میں مذاکرات کی میز پر بیٹھے۔ یہاں ریاست کی بے بسی کا یہ عالم ہے کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کے دارالحکومت لاہور سے اغوا ہونے والے شہری کے بارے میں رحمن ملک ’’پاک افغان سرحد‘‘ کی وہ مبہم اصطلاح استعمال کر رہے ہیں، جو چند برس پہلے تک صرف ایسے بین الاقوامی حلقوں میں استعمال کی جاتی تھی جو پاکستان کے ان علاقوں کی طرف جن پر پاکستانی ریاست اپنی عملداری کھو بیٹھی ہے، براہ راست اشارہ کرنے کی بجائے پاکستان کی تالیف قلب کے لیے سفارتی زبان استعمال کرنا چاہتے تھے۔ 
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ دہشتگردوں کے ساتھ مذاکرات اس صورت میں کامیاب ہوتے ہیں اگر ان کا مطالبہ کسی ریاست کے آئینی دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنے سیاسی اور معاشی مفادات کا تحفظ ہو۔ یہاں یہ امر بالکل واضح ہے کہ طالبان پاکستان پر قبضہ کر کے اور اس کے آئینی بندوبست کو نیست و نابود کرکے قوت کے بل پر یہاں کے شہریوں پر اپنا سیاسی اور معاشرتی نقطہ نظر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ کل جماعتی کانفرنس کی طرف سے عسکریت پسندوں کے لیے واضح طور پر نرم گوشہ ظاہر کیے جانے کے باوجود نام نہاد طالبان کی طرف سے حکومت پاکستان سے تعاون کا کوئی اشارہ نہیں ملا۔
اگرچہ امن و امان کا شعبہ صوبائی دائرہ کار میں آتا ہے اور دہشتگردوں کے خلاف پنجاب کی صوبائی حکومت کی کارکردگی کا اندازہ اس خبر سے کیا جاسکتا ہے کہ دہشتگردی کے الزام میں گرفتار ہونے والے 75 فیصد افراد کو رہا کیا جا چکا ہے۔ عملی طور پر کسی دہشتگرد کو سزا دینا ممکن نہیں رہا۔ تاہم دہشتگردی کا مسئلہ محض امن و امان کا ایسا معاملہ نہیں جسے صوبائی حکومتوں کی صوابدید پر چھوڑا جا سکے۔ اس مسئلے کے گہرے آئینی، سیاسی، خارجی اور دفاعی پہلو ہیں، جن پر پالیسی مرتب کرنا وفاقی حکومت کے دائرہ کار میں آتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ وفاقی حکومت اور ریاستی اداروں کی طرف سے دہشتگردی کے بارے میں واضح پالیسی کی عدم موجودگی میں پولیس اور قانون کا نفاذ کرنے والے دوسرے ادارے مفلوج ہو کر رہ گئے ہیں۔ ایسے میں رحمن ملک کے بیانات ایک سیاسی مؤقف تو ہو سکتے ہیں، لیکن عملی طور پر ان کی حکمت عملی کے مؤثر ہونے کی کوئی حقیقت پسندانہ امید نہیں رکھی جا سکتی۔
خبر کا کوڈ : 107743
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش