0
Friday 4 Sep 2009 07:38

عرب ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی اسرائیلی کوششیں

عرب ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی اسرائیلی کوششیں

 تحریر: ڈاکٹر مصطفی یوسف اللداوی، فلسطینی محقق۔
اسرائیلی، عرب اور اسلامی ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کرنے کی کسی کوشش سے باز نہیں آتے اور مسلمانوں اور اعراب کے ساتھ تعلقات پیدا کرنے کی ہر فرصت سے استفادہ کرتے ہیں۔ اس حوالے سے ہم دیکھتے ہیں کہ اسرائیل ہر بین الاقوامی مناسبت اور موقعیت میں شریک ہوتا ہے اور اسلامی اور عرب ممالک میں سفر کرنے کا خواہشمند ہوتا ہے۔ وہ جان بوجھ کر اپنے ان مقاصد کے حصول کیلئے عرب اور اسلامی ممالک کے لوگوں اور وہاں کے بازاروں میں چلتے پھرتے ہیں اور ان کے ساتھ مختلف معاملات پر بات چیت کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ افراد خاص یہودی چاپلوسی کرنے کے خواہشمند ہوتے ہیں۔ وہ لوگوں کا ہنس کر استقبال کرتے ہیں اور انکے ساتھ تصویریں تک بنواتے ہیں۔ ان میں سے بعض افراد جوتے اتارنے کے بعد مسلمانوں کی مساجد میں داخل ہونے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ کچھ ایسے افراد بھی ہیں جو عربی میں سلام کرنے کی پریکٹس کرتے ہیں اور کہتے ہیں: سلام علیکم۔
شاید بہت سے عرب اور مسلمان شہریوں کو یہ معلوم نہ ہو کہ وہی لوگ جو اس اجنبی زبان میں بات کر رہے ہیں اسرائیلی ہیں اور مقبوضہ سرزمین سے آئے ہیں اور یہ کہ ان میں سے اکثر افراد کے ہاتھ دو عرب قوموں یعنی فلسطینیوں اور لبنانیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ ان تنومند اور چوڑے چکلے جوانوں میں سے زیادہ تعداد انہیں کی ہے جنہوں نے حال ہی میں اپنا فوجی اڈہ، ٹینکس اور جنگی طیاروں کو چھوڑا ہے اور کرانہ باختری، غزہ کی پٹی اور لبنان میں فلسطینی شہریوں کے قتل عام کا جشن منانے کے بعد استراحت کرنے اور تھکاوٹ دور کرنے کیلئے عرب ممالک میں چھٹیاں گذارنے آئے ہوئے ہیں۔ ان میں سے بہت سے افراد نے شاید اپنے ہاتھوں سے فلسطینی عوام کو قتل کیا ہے یا انہیں گرفتار کیا ہے اور مختلف قسم کے شکنجے اور ٹارچر دینے کے بعد اپنی تھکن اور بوریت کو دور کرنے کی غرض سے عرب ممالک میں آنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ شاید ہمارے بعض عرب اور مسلمان ممالک کی گلیوں میں ٹہلنے والے بعض اسرائیلیوں کی شکل اور حلیہ، پرامن، شدت پسندی کا مخالف اور ظلم و استبداد سے بیزار شخص کی طرح دکھائی دے اور وہ صلح و صفائی کی طرف دعوت کر رہے ہوں اور ایسا ظاہر کرنے کی کوشش میں مصروف ہوں کہ گویا انہوں نے اب تک کسی بوڑھے کو قتل نہیں کیا یا کسی بچے کو اپنی گاڑی کے نیچے نہیں کچلا یا یہ کہ فلسطینیوں کو اپنی سرزمین سے نکال باہر کرنے کے بعد کسی کے گھر پر قبضہ نہیں کیا، یا یہ کہ اپنی سابقہ حکومت کی فلسطینیوں کے قتل عام اور انہیں اپنے آبائی گھروں سے نکال باہر کرنے کی پالیسیوں کی مذمت کرتے ہیں۔ اسی طرح یہ ظاہر کرنے کی کوشش میں مصروف ہوں کہ وہ افراد جو فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کرتے ہیں اور ان کا قتل عام کرتے ہیں ایسے اغیار اور بیگانے افراد ہیں جو کسی اور دنیا یا کہکشان سے آئے ہیں اور وہ خود مظلوم اور بے گناہ ہیں اور کسی بھی الزام سے بری ہیں۔ اور یہ کہ مسلمان اور عرب قوموں کو انکی باتوں پر توجہ دینی چاہیئے اور انکے پاس موجود اسلحہ کو نظرانداز کر دینا چاہیئے۔ اور یہ کہ ایسے افراد جو بلڈوزر پر سوار ہو کر فلسطینیوں کے گھروں کو نابود کرتے ہیں اور انکی طرف فائرنگ کرتے ہیں وہ اسرائیلی نہیں ہیں بلکہ کچھ اجنبی اور قابض افراد ہیں جنہوں نے فلسطینی سرزمین پر قبضہ جمائے رکھا ہے۔ اسرائیلیوں کے کام بھی عجیب ہیں، ہمارے قتل عام سے دریغ نہیں کرتے، ہمیں تکلیف اور اذیت پہنچانے میں کوئی کمی نہیں چھوڑتے، ہمارے اعتقادات اور مستقبل کے بارے میں سازشیں کرتے ہیں، ہمارے اوپر شدید ترین اور بست ترین ظلم اور قتل اور بدمعاشی کو روا رکھتے ہیں، اور پھر ہم سے توقع رکھتے ہیں کہ ہم ان کے سامنے مسکراہٹ ور خوشروئی سے پیش آئیں، انہیں خوش آمدید کہیں، اور اپنے شہر کی گلیوں اور بازاروں میں انکے ٹہلنے پر خوشی کا اظہار کریں، اور تمام مشکلات کو بھول جائیں، اپنے حافظے کو ختم کر دیں، اپنے آباء و اجداد کی میراث سے صرف نظر کر دیں، انکی باتوں پر یقین کریں، اپنی قوم کو روز بروز پیش آنے والی دشواریوں اور مشکلات، بہنے والے خون، چھننے والی سرزمینیں، مقدسات کی توہین، ہر طرف سے اپنا محاصرہ اور روز بروز مقتولین کی تعداد میں اضافہ کو بھول جائیں۔ وہ ان تمام تلخ حقائق کے باوجود اپنی نسبت ہمارے اندر پائے جانے والے غصے اور غضب سے حیران اور متعجب ہوتے ہیں اور ہماری تحریک کی مذمت کرتے ہیں اور فلسطینی قوم کی ہماری حمایت سے اظہار ناراضگی کرتے ہیں اور ہمیں فلسطین میں اپنے عزیزوں کی مدد کرنے سے روکتے ہیں۔ کیا یہ عجیب و غریب نہیں ہے کہ اسرائیلی خود کو ان تمام الزامات سے بری کرنے اور عرب اور مسلمانوں کے سامنے ایک اچھا تاثر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟۔ لیکن وہ بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ انکا ظاہر انتہائی گندا اور پست ہے، اور اپنے ظاہر کو اچھا پیش کرنے کی انکی تمام تر کوششیں بے فائدہ ہیں اور ناکامی کا شکار ہیں۔ وہ کبھی بھی ان الزامات سے بری نہیں ہو سکتے مگر یہ کہ حق کو اسکے صاحب کی طرف لوٹا دیں، مقبوضہ سرزمینوں سے باہر نکل جائیں، فلسطینیوں کو اپنی حکومت بنانے اور اپنی سرنوشت پر حاکم ہونے کی اجازت دیں۔ لیکن سب سے زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ کچھ عرب اور مسلمان ان قاتل افراد کو اپنی سرزمین پر خوش آمدید کہتے ہیں اور انہیں وہاں پر گھومنے پھرنے اور خرید و فروخت کی اجازت دیتے ہیں، انہیں اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ جو جرم و جنایت انہوں نے انجام دی ہے اسکو بھول جائیں، اور ایسا ظاہر کریں کہ گویا یہ افراد جو دینی، ظاہری اور زبان کے اعتبار سے اجنبی ہیں ہماری قوم اور سرزمین کا ایک طبیعی حصہ ہیں، اور ان افراد سے مقابلہ کرنے والے ہر شخص کا مقابلہ کریں گے، اور ہر اس شخص کو جو ان کی طرف سے اپنے حقوق کے غصب ہونے کے خلاف مزاحمت کرے سزا دیں گے۔ اس سے زیادہ سنگین اور خطرناک مسئلہ یہ ہے کہ کچھ ذرائع ابلاغ قابض اسرائیلی فوجی ترجمان یا اس کینہ توز رژیم کے وزیر خارجہ کو یہ اجازت دیتے ہیں کہ وہ عربی اور اسلامی میڈیا پر ظاہر ہو اور حقائق کو تحریف کرتے ہوئے اسلامی مزاحمت پر الزام لگائے اور فلسطینی قوم پر مختلف تہمتیں لگانے کے بعد یہ دعوی کرے کہ وہ قتل و غارت کی مستحق ہے، اور مقبوضہ سرزمین پر رہنے والے اسرائیلی عوام بے گناہ ہیں اور ان محدود افراد کے علاوہ جو ہمارے میڈیا پر ظاہر ہوئے ہیں انکا دفاع کرنے والا کوئی نہیں ہے، اسلامی مزاحمت پر الزام تراشی کرتے ہوئے خود اور اپنی قابض فوج کو ہر الزام سے بری ظاہر کریں اور ایسے ظاہر کریں کہ گویا وہ ہر وقت ان دہشت گردوں سے دفاع کی حالت میں ہیں جو اسرائیلی حکومت کو نابود کرنا چاہتے ہیں۔ وہ مجرم کو مظلوم کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اپنے جدید ترین فوجی ہتھیاروں کو اپنے دفاع کیلئے مختصر اور سادہ وسائل کا نام دیتے ہیں۔ اسرائیلی اپنے اور اپنی حکومت کے مستقبل کے بارے میں پریشان ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ مستقبل میں عربوں کے خلاف ہر قسم کی جنگ اس لڑائی کو محدود نہیں کر سکتی۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ عربوں اور فلسطینیوں کو اپنی سرزمین، وطن اور جائز حقوق سے دستبردار نہیں کر سکتے۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ زور اور بدمعاشی اسرائیلی حکومت کو بین الاقوامی سطح پر ایک طاقتور حکومت نہیں بنا سکتا۔ بلکہ طاقت کا بے اندازہ استعمال اسرائیل کو روز بروز گوشہ نشین اور کمزور کرتا جائے گا اور ان کیلئے مشکلات اور مشقتوں میں اضافے کا سبب بنے گا۔ اسی طرح لڑائی کی مدت لمبی ہونے کا باعث بھی بنے گا۔ لہذا وہ عرب ممالک کے ساتھ پرامن طریقے سے تعلقات قائم کرنے کے خواہاں ہیں اور ان ممالک سے مذاکرات کی خواہش رکھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ عرب ممالک کی طرف سے انہیں اپنا پڑوسی ملک تسلیم کرنے کا حقیقی راستہ ہے۔ ان کا خیال ہے کہ یہ طریقہ ممالک اور نسلوں کی مدد کرے گا کہ وہ اسرائیل کے بارے میں ایک ظلم و ستم اور شدت پسندی والا تصور ختم کر دیں اور مذاکرات اور امن و امان والا تصور ان کے ذہن میں اجاگر ہو۔ لہذا ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ اسرائیل کی اس قسم کی حرکتوں اور طریقوں سے مطلع ہوں۔ وہ طریقے جن کے حوالے سے بہت سے اسرائیل کے حامی ماہرین سرگرم ہیں۔ لیکن اسرائیل کے بارے میں ہمارا وہی پرانا نظریہ درست ہے۔ وہ نظریہ جو یہ کہتا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ صلح اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہے اور حقیقی صلح نہیں ہے۔ ہمیں اس وقت کی طرف لوٹ جانا چاہیئے جب یہ کہا جاتا تھا کہ قابض اسرائیلی کی طرف دیکھنا بھی گناہ ہے، اور اسکے ساتھ بات کرنا بھی خیانت ہے، اور اسکے ساتھ بیٹھنا غداری اور جنگ ہے، اسکا استقبال انتہائی برا او قبیح فعل ہے۔ یہ وہی مفاہیم ہیں جنہوں نے ہماری اقدار کو حفظ کیا ہے اور ہمارے عقیدے کو استوار بنایا ہے۔

خبر کا کوڈ : 10795
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش