0
Thursday 27 Oct 2011 17:57

پاک ایران گیس منصوبے پر امریکی تشویش!

پاک ایران گیس منصوبے پر امریکی تشویش!
تحریر:طاہر یاسین طاہر
آزاد ممالک اپنے قومی وقار اور مفادات کو مدنظر رکھ کر اپنی خارجہ پالیسی تشکیل دیتے ہیں۔ دنیا میں طاقت کا توازن بگاڑ کر امریکہ نے طاقت کی لاٹھی اپنے ہاتھ میں لے لی۔ اب وہ ساری دنیا کو اپنی مرضی کے مطابق ہانکنا چاہتا ہے۔ جو ممالک اپنی خود مختاری، قومی وقار اور اپنے عوام کا خیال کرتے ہیں، شیطان بزرگ ان سے طرح طرح کی شیطانیاں کرنے لگتا ہے۔ نہ تو اسے ونیز ویلا کا ہوگو شاویز ایک آنکھ بھاتا ہے اور نہ ہی ایران کا جری صدر۔
عالمی منظرنامے پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار جانتے ہیں کہ پاکستان کو داخلی اور خارجی سطح پر مشکلات کا شکار کرنے میں امریکہ کا کردار بڑا واضح ہے۔ جس خطہ ارضی پر پاکستان موجود ہے یہاں پوری دنیا اپنے مفادات رکھتی ہے۔ امریکہ کی جانب سے شروع کی جانے والی دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان اس کا فرنٹ لائن اتحادی ہے، لیکن اگر پاکستان کی ماضی کی تابعداری کو فراموش کر کے صرف اس جنگ میں ہی دی جانے والی مالی و جانی قربانیوں سے انصاف کیا جائے تو امریکہ اپنے دوست اتحادی کی مشکلات کم کرنے کےلئے آگے بڑھ سکتا ہے۔ مگر سامراجی نظام کے سرخیل کی فطرت ہے کہ اس نے دوستوں کے لئے ہمیشہ منافقانہ بے رحمی کا مظاہرہ کیا۔ پاکستان توانائی کے شدید بحران کا شکار ہے۔ پنجاب میں مسلسل تین دن گیس کی لوڈشیڈنگ کے باعث ہزاروں کارخانے بند اور لاکھوں مزدور بیروزگار ہوئے، جبکہ حکومت آمدہ موسم سرما میں ایندھن کے شدید بحران کا پہلے سے ہی کہہ رہی ہے۔ اس طرح بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے لئے حکومت نے اپنی ملکی پیداواری صلاحیت کے مطابق بجلی حاصل کرنے کے بجائے رینٹل پاور ہاﺅس حاصل کرنے پر زور دیا اور یہ ایک ایسا منصوبہ تھا جس کے ابتدائی مراحل ہی کرپشن کی نذر ہو گئے۔
ہمیں اس امر میں کلام نہیں کہ موجودہ حکومت نے اپنا بیشتر وقت قوم سے وعدے کرتے گزار دیا اور جو وقت رہ گیا ہے وہ بھی یونہی گزار دیا جائے گا۔ 
حکمران اگر عالمی مفادات کے تحفظ کی بجائے ملکی مفادات کا تحفظ کریں تو پھر انہیں اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ کے لئے بھی بیرونی طاقتوں کی طرف نہ دیکھنا پڑے۔ مگر منظر نامہ یہ ہے کہ عوامی سطح پر یہ تاثر گہرا ہوتا چلا جا رہا ہے کہ حکمران طبقہ قومی مفادات کی بجائے امریکی مفادات کے تحفظ پر لگا ہوا ہے جس کی وجہ سے عام آدمی کی زندگی میں مشکلات کے درد ناک باب کا اضافہ ہوا ہے۔ صنعتیں تباہ اور مزدور بے روز گار ہو رہے ہیں، مگر حکومت توانائی کے بحران پر قابو پانے کے انوکھے طریقے دریافت کر رہی ہے۔ گاہے گھڑیوں کو ایک گھنٹہ آگے کر کے توانائی کے بحران کو قابو کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو کبھی ہفتہ وار دو چھٹیاں کر کے معاملے سے جان چھڑانے کی پالیسی اختیار کی جاتی ہے۔
روز نیا المیہ، روز نیا وعدہ، خارجہ پالیسی بہت سی عالمی طاقتوں کے مفادات کو مد نظر رکھ کر چلائی جا رہی ہے۔ ہم یہ نہیں چاہتے کہ ہم بڑی طاقتوں سے بگاڑ کر اپنے لیے مزید مشکلات پیدا کریں بلکہ ہمارے خواہش ہے کہ تعلقات باہمی برابری کی سطح پر ہونے ضروری ہیں۔ گزشتہ ہفتے امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن پاکستان کے دورے پر آئی ہوئی تھیں۔ انہوں نے حقانی نیٹ ورک کے خلاف پاکستان کو کارروائی پر اکسانے کے ساتھ ساتھ اپنا اصل مدعا بھی بغیر کسی لگی لپٹی کے بیان کر دیا۔ امریکی خاتون کہنے لگی کہ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر امریکہ کو تحفظات ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جن ملکوں کی سرحدیں ایران سے ملتی ہیں ان سب کے لئے وہ ایک مشکل بلکہ خطرناک ہمسایہ ہے اور اسکی داخلی سیاسی و اقتصادی صورتحال کے بارے میں بھی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی۔ ان ہی امریکی تحفظات کے پیش نظر وفاقی وزیر پیٹرولیم ڈاکٹر عاصم حسین نے کہا ہے کہ پاک، ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر عالمی حالات دیکھتے ہوئے ہی پیشرفت کریں گے۔ منصوبے پر کام جاری ہے، مگر ہمیں منصوبے پر عالمی ہم آہنگی کو دیکھ کر ہی چلنا ہو گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ایران نے پاکستان کو بجلی کے بحران پر قابو پانے کے لئے 10 ہزار میگا واٹ بجلی فراہم کرنے کی پیشکش کی ہے۔ جس کی درآمد کے لئے ٹرانسمیشن لائن بچھانے کا منصوبہ بھی زیر غور ہے۔
پیٹرولیم کے وفاقی وزیر کا بیان بہت سی چیزوں کو واضح کرتا نظر آتا ہے۔ امریکہ پاک، ایران، بھارت، گیس پائپ لائن منصوبے سے بھارت کو پہلے ہی الگ کر چکا ہے۔ اس حوالے سے امریکہ نے بھارت کے ساتھ توانائی کی ضروریات پورے کرنے کے لئے سول جوہری ٹیکنالوجی معاہدہ بھی کیا ہے۔ منصوبے سے بھارت کی علیحدگی کے بعد پاکستان اور ایران نے باہمی معاہدہ کیا اور مجوزہ منصوبے کے تحت پاکستان ایران سے یومیہ 2 کروڑ مکعب میٹر گیس درآمد کرے گا جبکہ اس منصوبے کی تکمیل پر ساڑھے سات ارب ڈالر لاگت آئے گی، منصوبے میں گیس کی ترسیل کے لئے 2 ہزار 775 کلو میٹر طویل پائپ لائن بچائی جائے گی اور اگر یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچ جاتا ہے تو اس پائپ لائن کے ذریعے 2016ء میں گیس کی رسد شروع ہو جائے گی۔
 صورتحال یہ ہے کہ معاہدے کے تحت گیس پائپ لائن منصوبہ اگر 31 دسمبر 2014ء تک آپریشنل نہ ہوا تو تاخیر کے ذمہ دار ملک کو 20 کروڑ ڈالر ماہانہ جرمانہ ادا کرنا ہو گا۔ یہ امر بڑا دلچسپ ہے کہ ایرانی وزیر خارجہ علی اکبر صالح اپنے دورہ پاکستان میں واضح کر چکے ہیں کہ ایرانی حدود میں پائپ لائن بچھانے کا کام آئندہ سال کے وسط تک مکمل ہو جائے گا بلکہ انہوں نے تو پاکستانی علاقے میں بھی گیس پائپ لائن بچھانے کا عندیہ دیا تھا۔ پاکستان کی عالمی مجبوریوں کے باعث یہ منصوبہ پاکستان کی طرف سے پہلے ہی تاخیر کا شکار ہوتا نظر آرہا ہے۔ جس کا خمیازہ پاکستان جرمانہ کی ادائیگی کی صورت میں بھگتے گا۔
توانائی بحران پر قابو پانے کے لئے قارقستان سے گیس کی خریداری کے ایک منصوبے پر بھی کام کیا گیا لیکن مجوزہ منصوبے پر عمل درآمد افغانستان میں امن کے ساتھ ہی مشروط ہے۔ اس پس منظر سے جو تصویر ابھرتی ہے وہ کوئی ایسی دلکش نہیں۔ ایک طرف ملک میں توانائی کا شدید بحران اور اس بحران پر قابو پانے کے لئے برادر اسلامی ملک ایران کی طرف سے ہمدردانہ پیشکش، تو دوسری طرف امریکی تحفظات ،پاکستان کو ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ امریکی سفارت خانے کے اہلکاروں کی بلوچستان میں آنیاں جانیاں پاک ایران گیس پائپ لائن کے لئے کوئی نیک شگون نہیں۔ عالمی طاقت نہ صرف پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر تحفظات رکھتی ہے بلکہ بجلی کے حصول کے لئے بھی کہا جا رہا ہے کہ بھارت کی طرف دیکھو۔ حکمرانوں کے پاس ایک ہی راستہ بچتا نظر آتا ہے۔ عوامی و قومی مفادات یا پھر عالمی طاقتوں کے مفادات کا تحفظ۔
کیا امریکہ پاکستان کی توانائی کی ضروریات پوری کرے گا؟ قطعاً نہیں، انسانی حقوق کا رونا رونے والوں کو پاکستانی عوام کی مشکلات کا احساس نہیں، مگر ان کی نظر میں ایران کا پرامن ایٹمی پروگرام زیادہ کھٹک رہا ہے۔ پاکستان چاہتا ہے کہ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ جلد پایہ تکمیل تک پہنچے، مگر امریکی دھمکیاں اس منصوبے کی تکمیل کی آڑ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ جمہوری حکومت کی اولین ترجیح اپنے ملکی مفادات اور عوام کو سہولیات کی فراہمی ہی ہونی چاہئے۔ اس منصوبے پر مزید تاخیر کسی بھی طرح پاکستان کے مفاد میں نہیں۔
خبر کا کوڈ : 109728
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش