0
Friday 4 Nov 2011 22:26

افغانستان اور عراق میں امریکی ہزیمیت کے اصلی اسباب

افغانستان اور عراق میں امریکی ہزیمیت کے اصلی اسباب
 تحریر:جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم

امریکی عسکری و سیاسی معاملات کے ایک ماہر نے کہا تھا کہ شمالی ویت نام پر حملہ کرنے کا فیصلہ کرتے وقت امریکہ نے تاریخ کے اسباق کو سامنے نہیں رکھا۔ دانشور کے مطابق امریکی سیاسی قیادت اُس وقت یہ بھول گئی کہ ماضی میں جاپان، چین اور فرانس جیسی بڑی طاقتیں ہزاروں سال کی کاوشوں کے باوجود بھی انڈو چائنہ پر اپنا مستقل تسلط قائم نہ کر سکیں۔ ویت نام میں امریکی ہزیمیت کی دوسری بڑی وجہ یہ تھی کہ امریکی قیادت نے امریکی قوم کو اس جنگ کے لئے ذہنی طور پر تیار بھی نہ کیا۔ یہ نہ جانتے ہوئے کہ National Will کی عدم موجودگی میں، صرف ہتھیاروں کے بل بوتے پر میدان میں کود پڑنے والی طاقتوں کیلئے شکست نوشتہ دیوار بن جاتی ہے۔ 

نامور دانشور Santayana نے کہا تھا:
Those who can not remember the past, are condemned to repeat it
یعنی جو قوتیں ماضی کی غلطیوں سے سبق حاصل نہیں کرتیں، وہ ان غلطیوں کو پھر دہراتی ہیں۔ اسی طرح مشہور امریکی مفکر اور امریکہ کے سابق وزیر خارجہ ہنری کسنجر کا بھی کہنا ہے کہ ’’ویت نام اب بھی امریکی قوم کے ذہنوں پر سوار ہے۔ اس سانحے نے امریکی Judgement، امریکی Credibility اور امریکی طاقت کو نہ صرف امریکی عوام بلکہ بین الاقوامی برادری کے ذہنوں میں بھی ایک سوالیہ نشان بنا دیا ہے۔ جس سے امریکہ میں ایک زہریلا اور نقصان دہ مباحثہ شروع ہو گیا ہے‘‘
ویت نام 1407ء سے 1427ء تک چین کی یلغار کے خلاف صف آرا رہا، پھر جب یہ ملک فرانس کی کالونی بن گیا تو ویت نامیوں نے تاریخ کی ایک مشہور جنگ Dien Bein Phu میں فرانسیوں کو 7 مئی 1954ء کو شکست دی تو پھر امریکی ویت نام پر چڑھ دوڑے اور ویت نام پر دوسری جنگ عظیم سے بھی زیادہ تقریباً 78 لاکھ ٹن وزنی گولے گرا کر اُن کی سڑکیں، پل اور ڈیم تباہ کر دئیے، لیکن ویت نامیوں کے حوصلے اور Will to Fight کو نہ توڑ سکے۔ 

امریکی جنرل Curtis Lemay نے اپنی فضائیہ کو حکم دیا کہ شمالی ویت نام پر زبردست بمباری کر کے اس ملک کو پتھر کے زمانے میں دھکیل دیا جائے۔ لٰہذا تین بڑے شہر اور انتیس صوبائی دارالحکومت خاک میں ملا دئیے گئے۔ لیکن امریکیوں کو یہ نہ سمجھ آئی کہ ہوائی حملوں سے سڑکیں، پل، ڈیم، صنعتیں اور شہر تو تباہ کئے جا سکتے ہیں لیکن غیور اور زندہ قوموں کی جرات، بہادری اور حب الوطنی کے جذبوں کو مسمار نہیں کیا جا سکتا۔ شکست کے بعد امریکہ جنرل Westmoreland نے کہا۔ ’’Inability to understand the enemy was the basic error‘‘
یعنی ہم سے سب سے بڑی غلطی یہ سرزد ہوئی کہ جنگ شروع کرنے سے پہلے ہم اپنے دشمن کو نہ سمجھ پائے۔
 
قارئین، تقریباً پچاس سال گزرنے کے بعد امریکہ نے افغانستان اور عراق پر حملے کر کے پھر وہی غلطی دہرائی ہے اور میک کرسٹل جیسے بعض امریکی جنرل تو اب خود کہہ رہے ہیں کہ جنگ شروع کرنے سے پہلے ہم نے افغانستان کی تاریخ پڑھی اور نہ افغان قوم کی قوت مدافعت کا صحیح اندازہ لگایا۔ اب امریکہ ایک ایسے جال میں پھنسا ہوا ہے کہ جس سے جان چھڑانی بھی مشکل ہو گئی ہے۔ اس ہزیمیت کی سیاسی و عسکری وجوہات کچھ یوں ہیں۔
 
(1) 9/11 کا واقعہ دراصل امریکہ کی مشرق وسطٰی سے متعلق غلط خارجہ پالیسی کی وجہ سے رونما ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی سول ایئر لائنز کو ہائی جیک کرنے والے تمام انیس افراد کا تعلق مشرق وسطٰی سے تھا۔ اس لئے یہ ایک سیاسی مسئلہ تھا جس کو سیاسی طور پر حل کرنے کی بجائے امریکہ نے توپ کی بیرل کا سہارہ لیا اور لاکھوں لوگوں کو قتل کر کے مسلم دنیا کی حقارت بھی مول لی۔
(2) عراق اور افغانستان کے میدانِ جنگ امریکہ سے کئی ہزار میل دور ہیں۔ اس لئے یہاں گولہ بارود، راشن اور اسلحہ پہنچانا اور یہاں سے زخمیوں اور مردہ سپاہیوں کی لاشوں کو واپس دنیا کے دوسرے سرے پر واقع براعظم امریکہ لے جانا، ایک بہت ہی ڈراونا خواب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے جنوبی ایشیاء اور مشرق وسطٰی کے خطوں میں سیاسی، عسکری اور معاشی لحاظ سے بہت نقصان اُٹھایا۔ (3) امریکی آرمڈ فورسز جنرل کے مطابق عراقی فوج کو شکست دینے اور عراقی عوام کو تحفظ دینے کیلئے تقریباً چار لاکھ ستر ہزار فوجی درکار تھے۔ لیکن امریکی جرنلز خصوصاً Post Iraq War کی صحیح صورتحال کا بالکل اندازہ نہ لگا سکے اور طاقت کے نشے میں چور تھوڑی سی فوج لیکر میدان جنگ میں کود پڑے۔ فوجی قیادت نے سیاسی قیادت کو یہ نہیں بتایا کہ عراق اور افغانستان میں اصلی جنگ صدام حسین اور ملا عمر کے ہٹ جانے کے بعد شروع ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ عسکری فہم بنا۔
(4) امریکی آفیسر Paul Yinling نے لکھا کہ امریکی جرنیلوں نے امریکی قیادت کو اندھیرے میں رکھا اور جنگ کی صحیح صورتحال نہیں بتائی۔ اُن کے مطابق جولائی 2006ء کے ایک دن میں امریکی فوجیوں کی اپنی سیاسی قیادت کو بھیجی گئی ایک رپورٹ کے مطابق صرف جھڑپیں ہوئیں، لیکن بعد میں پتہ چلا کہ یہ امریکی جرنیلوں کی غلط بیانی تھی۔ اُس ایک دن میں در اصل گیارہ سو جھڑپیں ہوئی تھیں۔
 
(5) افغانستان کے حالات بھی اس سے مختلف نہیں۔ امریکی فوجی قیادت اس میدان جنگ میں بھی مکمل ناکام ہو چکی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ فوجی قیادت نے مزاہمتی فورسز کی طاقت، حوصلے اور قوتِ ارادی کے بہت غلط اندازے لگائے۔
(6) امریکہ نے کرزئی کی حکومت اور اپنے عسکری دستوں کی قوت کا غلط اندازہ لگایا، اور پاکستان کو ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھا اور ہندوستان اور شمالی اتحاد کے ہاتھ میں کابل کی جابیاں پکڑا دیں۔
(7) افغانستان میں سول آبادی پر بے دریغ حملے، افغانی فوج میں اسی فیصد شمالی اتحادیوں کی شمولیت، کرزئی اور اس کے بھائی اور وار لارڈز کو کرپشن کی کھلی چھٹی، امریکہ کے مقاصد کے حصول میں رکاوٹ بنے۔
(8) پاکستان پر ڈرون حملے، پاکستان کے اندر پراکسی جنگ کی حوصلہ افزائی، پاکستانی افواج کے خلاف غلط الزامات، ہندوستان کی افغانستان میں موجودگی کی حوصلہ افزائی اور پاکستان کے بے تحاشہ جانی و مالی نقصانات بھی امریکی شکست کا سبب بنے۔
 
قارئین، حیرانگی کی بات یہ ہے کہ امریکہ جنگ ہارنے کے بعد بھی اب یہ چاہتا ہے کہ کرزئی صدر رہے، امریکہ کا عطا کیا ہوا آئین افغانستان میں لاگو رہے، شمالی اتحاد والے اہم عہدوں پر قابض رہیں، ہندوستان کے جاسوس بھی افغانستان میں موجود رہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ شکست خوردہ امریکہ کی افواج شمالی افغانستان کے اہم عسکری اڈوں کو خالی نہ کریں۔ یہ عجیب و غریب مطالبات ہیں جو ایک فاتح ملک تو اپنے زور بازو سے لاگو کرسکتا ہے، لیکن ایک شکست خوردہ سلطنت جس کا اپنا بازو ٹوٹا ہوا ہو وہ ان شرائط کو نہیں منوا سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان اب یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ اتحادی افغانستان سے نکل جائیں، افغان جنگ میں شہید ہونے والوں کے لواحقین اور زخمیوں کو معاوضہ ادا کیا جائے، نیٹو فوجیوں کے خلاف جنگی جرائم سرزد کرنے کے مقدمات درج ہوں، افغانستان میں ہونے والی تباہی کا بین الاقوامی ادارے معاوضہ ادا کریں اور غیر جانبدار بین الاقوامی فوج ملک میں انتخابات کروائے۔
 
ان دونوں کے نقطہ نظر میں بہت فرق ہے۔ اس لئے یہ مسئلہ ترکی بین الاقوامی کانفرنسوں میں اس وقت تک حل نہیں ہو سکتا، جب تک امریکی اس حقیقت کو تسلیم نہ کریں کہ وہ عسکری فتح کسی صورت میں بھی حاصل نہیں کر سکتے۔ اس لئے یہ انتہائی ضروری ہے کہ امریکی سیاسی اور عسکری قیادت اپنی سوچ میں بنیادی تبدیلیاں لا کر اس کو زمینی حقائق کے مطابق کر لے۔
امریکہ کے ایک سابق نائب وزیر خزانہ اور وال اسٹریٹ جرنل کے سابق ایسوسی ایٹ ایڈیٹر ڈاکٹر پال کریگ رابرٹس کے 30 ستمبر 2011ء کو لکھے گئے ایک آرٹیکل کے اس فقرے پر اپنے کالم کو ختم کرنے کی اجازت چاہتا ہوں۔
’’Washington,s attacks on (six) muslim countries in past decade consititue naked aggression and impact primarily civilian populations and infrastruture and thereby constitue war crimes under law. Nazi,s were executed precisely for what Washington is doing today‘‘
’’ یعنی پچھلے دس سالوں میں واشنگٹن کے چھ مسلمان ملکوں پر حملے، جس میں عام آبادی اور تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا، ایک ننگی جارحیت تھی۔ جو جنگی جرائم کے زمرے میں آتی ہے۔ ماضی میں (دوسری جنگ عظیم کے بعد ) نازی جرمن کو سزا بالکل انہی جرائم کی وجہ سے دی گئی جو آج واشنگٹن سے سرزد ہو رہے ہیں‘‘
خبر کا کوڈ : 111703
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش