0
Saturday 19 Nov 2011 16:41

امریکہ کی ایک اور سازش

امریکہ کی ایک اور سازش
تصورحسین شہزاد
امریکہ میں ہونے والی ایک خطرناک سازش کی پاداش میں اس وقت پاکستان میں سیاسی بحران آیا ہوا ہے، ایک طرف حکومت پریشان ہے تو دوسری طرف فوجی حلقوں میں بھی چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں جب کہ اپوزیشن جماعتوں نے بھی اس معاملے کو آڑے ہاتھوں لیا ہے اور اس پر بڑھ چڑھ کر بیان بازی ہو رہی ہے۔ ہر جماعت کی کوشش ہے کہ اس ایشو کی آڑ میں حکومت کو غدار قرار دلوا کر چلتا کرئے اور خود اقتدار کے ایوان میں براجمان ہو جائے۔ امریکہ کا وائیٹ ہاؤس ایسی جگہ ہے جہاں کالا دھندا ہوتا ہے، یعنی دنیا بھر میں پیدا ہونے والے مسائل کی بنیاد اور منصوبہ بندی یہاں تیار کی جاتی ہے۔
صدر مملکت آصف علی زرداری نے پیپلز پارٹی کی کور کمیٹی کے ایک اجلاس میں پاکستان کے امریکا میں سفیر حسین حقانی کی طرف سے مبینہ طور پر امریکا کے سابق جوائنٹ آف سٹاف ایڈمرل مائیک مولن کو مئی میں ایک یادداشت بھیجنے کے معاملے پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت اس معاملے کی تحقیق کرے گی۔ کمیٹی نے اس معاملے کو باعث تشویش قرار دیتے ہوئے سیاسی طور پر صورت حال کا مقابلہ کرنے کا عزم ظاہر کیا۔ 10 اکتوبر 2011ء کو برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز میں شائع ہونے والے پاکستانی نژاد امریکی اعجاز منصور کے ایک کالم سے شروع ہونے والا تنازع پاکستان میں ایک بڑے سیاسی بحران کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ اس کالم میں کہا گیا تھا کہ ایک اہم پاکستانی سفارت کار نے مذکورہ کالم نگار سے رابطہ کرکے انہیں ایڈمرل مائیک مولن کو ایک یادداشت پہنچانے کے لیے کہا تھا۔ اب اس مبینہ یادداشت کا متن مختلف اخبارات میں شائع ہو چکا ہے۔ علاوہ ازیں اعجاز منصور نے فنانشل ٹائمز ہی میں ایک اور کالم کے ذریعے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ گزشتہ کالم میں جس اعلیٰ سفارت کار کا ذکر ہوا تھا وہ امریکا میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی ہیں اور اعجاز منصور نے اس ضمن میں حسین حقانی کے ساتھ موبائل فون اور ای میل کے ذریعے ہونے والی مبینہ گفت و شنید کا متن بھی شائع کیا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستانی اخبارات میں نامعلوم سرکاری اہلکاروں اور اعجاز منصور کے درمیان رابطوں کی لفظ بہ لفظ کارروائی بھی شائع ہوئی ہے۔ تاہم ذرائع ابلاغ نے یہ وضاحت کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ اس اہم ترین معاملے پر انہیں ایسی معلومات کہاں سے موصول ہو رہی ہیں۔ نیز یہ کہ مذکورہ ذرائع صرف مخصوص اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلز ہی کو یہ اطلاعات کیوں فراہم کررہے ہیں۔ حیران کن طور پر ایڈمرل مائیک مولن کے ترجمان نے ایک بیان میں اس قسم کی کوئی یادداشت موصول ہونے کی تردید کی اور پھر چند روز کے وقفے کے بعد پرچہ لگا کہ ایڈمرل صاحب نے اپنی یادداشت پر زور دیا ہے اور اپنے عملے سے دریافت کرنے کے بعد بتایا ہے کہ انہیں واقعی اس قسم کی یادداشت موصول ہوئی تھی لیکن انہوں نے اسے غیر معتبر سمجھتے ہوئے اس پر توجہ نہیں دی۔ اگر ایڈمرل مولن کی یادداشت اب درست کام کررہی ہے تو انہیں یہ بھی یاد ہونا چاہیے کہ اعجاز منصور کے مطابق ان کا اس ضمن میں مائیک مولن سے رابطہ ہوا تھا اور بقول اعجاز منصور کے مائیک مولن پاکستانی حکومت کی طرف سے کچھ یقین دہانیاں چاہتے تھے۔ ہفتۂ رواں میں فوج کے سربراہ اشفاق پرویز کیانی نے دو روز کے اندر صدر مملکت سے دو مرتبہ ملاقات کی۔ اطلاعات کے مطابق یہ ملاقاتیں اسی مبینہ یادداشت کے ضمن میں عسکری حلقوں کی تشویش سے متعلق تھیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کے تناظر میں ہم ایک بڑے سیاسی اور جمہوری بحران کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ پاکستان میں جمہوریت کو ایک بار پھر خطرے میں پا کر روایتی خون آشام درندے اور گدھ اقتدار کی بو سونگھ رہے ہیں۔ مخصوص صحافیوں کے لب و لہجے میں کرارا پن پیدا ہوگیا ہے اور مخصوص سیاسی چہرے شیروانیوں سے گرد جھاڑنے لگے ہیں۔ تاہم اس معاملے میں گونا گوں سوالات کا جواب ابھی تک سامنے نہیں آسکا۔
صدر زرداری کو بذات خود اور سفیر حسین حقانی کو اعلیٰ ترین امریکی ایوانوں تک رسائی حاصل ہے۔ انہیں اس قدر نازک معاملے میں ایک ایسے شخص کو وسیلہ بنانے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی جس کی شہرت مسلمہ طور پر داغدار ہے۔ کیا صدر مملکت اور حسین حقانی اس قدر نوآموز ہیں کہ انہیں یہ بھی علم نہیں کہ اس قسم کے معاملات یادداشتوں کی صورت میں ریکارڈ پر نہیں لائے جاتے۔ ایک سوال تو یہ بھی ہے کہ پاکستانی فوج کی طرف سے مبینہ مہم جوئی کی صورت میں مائیک مولن جمہوری حکومت کی کیا مدد کرسکتے تھے۔ نیز یہ کہ جمہوری حکومت نے امریکا میں سیاسی انتظامیہ کی بجائے عسکری ہیئت مقتدرہ سے رابطے کی ضرورت کیوں محسوس کی۔
اعجاز منصور کے مطابق مبینہ یادداشت 10 مئی کو مائیک مولن کے حوالے کی گئی تھی اور اس کے لیے مذکورہ سفارت کار نے دو روز قبل یعنی 8 مئی کو ان سے رابطہ کیا تھا۔ پاکستان میں باخبر حلقوں کو اچھی طرح یاد ہے کہ 2 مئی کو اسامہ بن لادن کی ہلاکت کی خبر آنے کے بعد کم از کم چار روز تک سیاسی اور عسکری حلقے اس ناگہانی افتاد کے نتیجے میں کم و بیش مفلوج تھے۔ اس وقت تنقید کا نشانہ پاکستان کی فوج تھی۔ تمام متعلقہ حلقے اچھی طرح جانتے ہیں کہ خارجہ پالیسی، دفاعی پالیسی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سیاسی قیادت کے اختیارات کا دائرہ کس قدر محدود ہے۔ چنانچہ منطقی طور پر ایبٹ آباد میں سیکورٹی کی کوتاہی پر فوجی قیادت کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ ایسے میں یہ امر قطعی طور پر ناقابل فہم ہے کہ مئی کے مذکورہ ہفتے میں جمہوری حکومت کو کسی مہم جوئی سے خطرہ لاحق تھا۔
حیران کن طور پر ذرائع ابلاغ یہ سوال نہیں اٹھا رہے کہ اگر مئی کے مہینے میں اعجاز منصور پاکستانی حکومت کے اعلیٰ ترین حلقوں میں اس قدر قابل اعتماد سمجھے جا رہے تھے تو اکتوبر کے مہینے میں اعجاز منصور کو ایسے نازک معاملے کا انکشاف کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ امریکی انتظامیہ اپنی خارجہ پالیسی اور بین الاقوامی حکمت عملی پر اخفا کے دبیز پردے ڈالنے کے لیے جانی جاتی ہے۔ پاکستان میں یہ تاثر عام ہے کہ صدر زرداری امریکا کے حامی ہیں۔ امریکی فوج کے اعلیٰ ترین عہدیدار سے یہ امر مخفی نہیں ہوسکتا کہ اگر اس طرح کوئی یادداشت وجود رکھتی ہے تو اسے تسلیم کرنے سے پاکستان کی ناتواں جمہوریت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ افغانستان سے لے کر عراق تک متعدد اہم معاملات پر مشکوک خاموشی اختیار کرنے والی امریکی انتظامیہ کی طرف سے ایسے اعلیٰ اخلاقی معیار کا مظاہرہ تعجب انگیز ہے کہ مائیک مولن کے حافظے پر بالآخر اس قسم کی یادداشت موصول ہونے کے آثار واضح ہوگئے ہیں اور انہوں نے اپنے ترجمان کے ذریعے اس کا اقرار بھی کر لیا ہے۔ کیا اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا بہت دور کی کوڑی لانا ہوگا کہ امریکی انتظامیہ کی پاکستان کے بارے میں ترجیحات ایک مرتبہ پھر جمہوریت پسندی کی بجائے عملیت پسندی کے ذریعے اپنے مفادات پورے کرنے کی جانب بڑھ رہی ہیں۔ 

خبر کا کوڈ : 115289
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش