QR CodeQR Code

اسرائیل سے تعلقات کیلئے بے بنیاد دلائل

15 Sep 2009 09:22

حال ہی میں پاکستانی لیڈروں نے علی الاعلان اسرائیلی لیڈروں سے ملاقات کا اعتراف کر لیا اور اب اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں۰۰۰۰۰۰۰۰


تحریر: حجۃ الاسلام والمسلمین سید علی مرتضی زیدی
حال ہی میں پاکستانی لیڈروں نے علی الاعلان اسرائیلی لیڈروں سے ملاقات کا اعتراف کر لیا اور اب اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں ہونے لگی ہیں۔ البتہ اس مرحلہ کیلئے برسوں سے تیاری کی جا رہی تھی اور عوام کے ذہنوں میں آہستہ آہستہ ڈالا جا رہا تھا اور لیڈروں کی حد میں افراد تیار ہو رہے تھے۔ آج کل عوامی سطح پر بیانات کے ذریعے اس حوالے سے دلائل دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ آئیے ان دلائل کا جائزہ لیتے ہیں:
سرکاری بیانات میں اسرائیل کے ماضی، اس کی تشکیل کی تاریخ اور مسلمانوں کے خلاف اس کی کاروائیوں اور سازشوں کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے چند دلائل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
پہلی دلیل:
شاید یہ اس معاملے کی سب سے پست پہلو ہے کہ اس معاملے میں حکومت اپنے بیانات میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرت کا حوالہ دیتی ہے۔ کہا گیا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بھی اپنی زندگی میں یہودیوں کے ساتھ معاہدہ کیا تھا اور بقول حکومت کے، غیر مسلمانوں سے گفتگو کیلئے دروازے کھلے رکھے تھے لہذا ہم بھی اسراَئیل اور یہودیوں کے ساتھ تعلقات رکھ سکتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ اچانک ہمارے سیکولر اور لبرل حکمرانوں کو اللہ کے نبی کی یاد کیسے آ گئی؟ جب آپ میڈیا پر فحاشی کا بازار گرم کرتے ہیں تو اس وقت اللہ کا نبی کیوں یاد نہیں آتا؟ جب اپنی ذاتی کرسی کو بچانے کیلئے اور کفار کی آشیرباد حاصل کرنے کیلئے مسلمانوں کا قتل عام کرتے ہیں تب روضہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف کیوں نہیں دیکھتے؟ جب آپ اپنی ذاتی مصلحتوں کی خاطر طالبان بناتے ہیں اور پھر انہی مصلحتوں کیلئے ان کا خاتمہ کرتے ہیں اور یوں دین کو اپنے اقتدار کی سیڑھی بناتے ہیں، اس وقت اللہ کا دین کیوں یاد نہیں آتا؟ اب اچانک اسرائیل کو تسلیم کرتے وقت آپ کو اللہ کے دین کی یاد آتی ہے؟ اور حتی اگر یہ یاد بھی پرخلوص ہوتی تو آپ کے کام آتی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اگر غیر مسلمانوں کے ساتھ گفتگو کے دروازے کھلے رکھے تھے تو یہ اقتصادی معاملات اور کرسی اور اقتدار کیلئے تھے یا دین کی دعوت کیلئے تھے؟ اگر آپ بھی دین کی دعوت کیلئے دروازہ کھلا رکھنا چاہتے ہیں تو اس پر کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟ ہم تو خود اسلام کی تبلیغ کیلئے عیسائیوں اور یہودیوں سے گفتگو کرنے اور ان کی علمی محافل سے روابط چاہتے ہیں لیکن اس کا اسرائیل اور امریکہ میں مقیم صیہونیوں کی تنظیم سے کیا تعلق ہے؟ اور ذرا بتائیے کہ کیا سربراہ مملکت اپنی تقریر میں انہیں دین کی دعوت دینے جا رہے تھے یا مسلمانوں کا خون بہا کر ان کی شاباش لینے جا رہے تھے؟ ساتھ ہی کہا گیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے ساتھ میثاق مدینہ کیا تھا؟ یہ بھی عجیب ستم ظریفی ہے کہ میثاق مدینہ تو یاد رہا لیکن بدر و حنین اور خیبر بھلا بیٹھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس معاہدے میں لکھوایا تھا کہ اللہ کے نبی کا حکم تمام متنازعہ معاملات میں بلا اختلاف تسلیم کیا جائے گا۔ آپ بھی جائیے اور یہ بنیاد طے کر کے آئیے۔ اور اب جبکہ آپ کی تاریخی معلومات آپ کو میثاق مدینہ تک لے ہی آئی ہیں تو اسکے بعد کے 5 سال اور یاد کر لیجئے۔ 3 یہودی قبیلے تھے جنہوں نے اس معاہدے پر دستخط کئے تھے اور پھر تینوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ غداری کی لہذا تینوں کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سزا دی اور مدینہ سے نکال دیا۔ پھر نہ کبھی تعلقات رکھے اور نہ ہی ان سے معاہدہ کیا۔ اگر آپ کے اندر اتنی طاقت ہو کہ معاہدے کی خلاف ورزی کی صورت میں آپ بھی معاہدہ توڑنے والے کو سزا دے سکیں تو آپ بھی معاہدہ کر لیجئے۔ اور اگر اسرائیل کے معاہدوں کے ریکارڈ کو دیکھا جائے تو معاملہ یہ ہے کہ اسرائیل معاہدے کرنے اور توڑنے کے معاملے میں [فلسطینیوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ دلیل ہے]، دنیا کی رائے کی خلاف ورزی کرنے میں، چاہے وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ہی کی طرف سے کیوں نہ آئی ہو، اور ساری دنیا کی آواز کو ٹھکرانے کے معاملے میں چاہے وہ دنیا کے 200 ممالک کی طرف سے اٹھائی گئی ہو، ان تمام خلاف ورزیوں میں یہ ملک سرفہرست ہے۔ اب آپ کس امید سے وہاں جائیں گے؟ پھر اصل معاملہ یہ ہے کہ آپ کی حیثیت ہی کیا ہے۔ کل چند صیہونی سرمایہ کار آپ کے ملک میں آ کر آپ کے پورے ملک کو خریدنا چاہیں تو یہ ان کیلئے کوئی بڑی بات نہ ہو گی۔ اب آپ بتائیے کہ ایسی صورت میں آپ کیلئے اپنی آزادی کے تحفظ کیلئے کیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ حکمران تو ان کے ہاتھوں ملک بیچ کر سوئٹزرلینڈ یا ہوائی چلے جائیں گے اور یہ ملک اور اس کے عوام ہوں گے جو ایک اور فلسطین کی داستان بنے ہوں گے۔
دوسری دلیل:
حکمرانوں کی طرف سے سننے میں آ رہا ہے کہ پاکستان مشرق وسطی کے مسئلے کے حل میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے اور اسی سلسلے میں ہم اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں۔ نہیں معلوم ان کے مشاور انہیں کیا پٹیاں پڑھاتے ہیں اور ایسے موقع پر ان کی سوچ میں کیا آ رہا ہوتا ہے؟ کسے بے وقوف بناتے ہیں اور کیا سوچ کر یہ کام کرتے ہیں؟ کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ؟ ثالثی وہ کرواتا ہے جس کا متحارب دھڑوں پر کوئی اثر و رسوخ ہو۔ اگر ثالث میں کوئی طاقت ہی نہ ہو تو طرفین اس کی بات قبول ہی کیوں کریں گے؟ اور اگر قبول کر بھی لیں اور کوئی ایک طرف معاہدے کی خلاف ورزی کرے تو اسے معاہدے کا پابند کیسے بنایا جائے گا؟ اسی قانون کے تحت اقوام متحدہ یا امریکہ جیسی کوئی طاقت دنیا کے مختلف مسائل میں ثالثی کا کردار ادا کرتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا تعلقات کی بحالی کے بعد پاکستان کا اسرائیل پر اثر و رسوخ ہو گا کہ پاکستان اسرائیل کو کسی کام پر مجبور کر سکے؟ صہیونی طاقتیں پاکستان امریکہ جیسے ملک کو اپنے اشاروں پر چلا رہی ہیں۔ متعدد حوالوں سے امریکہ کے مطالبات کو رد کر دیتی ہیں، ان حالات میں پاکستان کی حیثیت کیا ہو گی؟ اگر پاکستان کسی عالمی حیثیت کا مالک ہے تو حکمرانوں کو چاہیئے کہ ہندوستان کے ساتھ کشمیر کے مسائل ہی حل کر لیں۔ ہاں الٹا ممکن ہے، یعنی عین ممکن ہے کہ تعلقات کی بحالی کے نتیجے میں یہودیوں کا پاکستان میں اثر و رسوخ اتنا بڑھ جائے کہ وہ پاکستان کو ہندوستان کے آگے کشمیر کے معاملے میں دبا پائیں۔
تیسری دلیل:
ایک اور دلیل جو حکومت کی طرف سے پیش کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ انڈیا اور اسرائیل کے بڑھتے ہوئے تعلقات کے معاملے میں ضروری ہے کہ پاکستان کے اسرائیل سے تعلقات ہوں تاکہ دشمن بلاک کی تشکیل کے مقابلے میں طاقت کا استعمال باقی رہے۔ پہلی بات تو یہ کہ انڈیا کے مقابلے میں پاکستان کے کسی بھی غیر مسلم ملک سے تعلقات اس کیلئے مفید ثابت نہیں ہو سکے ہیں۔ 1965ء اور 1971ء کی جنگوں کے نتائج آپ کے سامنے ہیں اور دونوں جنگوں میں جو کچھ امریکہ نے ہمارے ساتھ کیا، اس کی صورتحال بہت واضح ہے۔ اب تو معاملہ اسرائیل کا ہے جو ویسے ہی مسلمان ممالک کیلئے جو جذبات رکھتا ہے وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ انڈیا کے ساتھ کسی مقابلے کی صورت میں اسرائیل کی حمایت محض انڈیا کے ساتھ ہو گی جس کی کئی نظریاتی اور اقتصادی وجوہات ہیں۔ اقتصادی لحاظ سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اسرائیل کسی صورت میں ایک ارب کی انڈیا جیسی مارکیٹ کو چھوڑ کر پاکستان کا ساتھ دینا پسند نہیں کرے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل سے تعلقات کے زمرے میں اس دلیل کو بتانا محض بھارت مخالف عوامی جذبات کو استعمال کرنا ہے۔ یہی حکومت کا تضاد ہے کہ ایک طرف سے حکومت کشمیر کے معاملے کو حل کر کے انڈیا کے ساتھ تجارتی اور سیاسی تعلقات بڑھانے کی بات کر رہی ہے تو دوسری طرف اسی انڈیا کے خلاف اسرائیل سے تعلقات کی بات کی جا رہی ہے۔ اور اگر حکومت کا موقف یہ ہے کہ اسرائیل سے تعلقات بڑھا کر اقتصادی میدان میں انڈیا کا مقابلہ کیا جائے تو یہ محض خام خیالی کے علاوہ کچھ نہیں۔ اقتصادی میدان میں دونوں ممالک کے مختصر موازنے سے یہ بات واضح ہے ک ہانڈیا کے ساتھ پاکستان کا کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے اور اگر مقابلہ ہو بھی تو محض چند ارب ڈالر قرضے یا امداد حاصل کر کے اس مقابلے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ قابل ذکر ہے ک ہانڈیا کے بیرونی کرنسی کے ذخائر کی مقدار تقریباً 160 ارب ڈالر ہے جبکہ یہی مقدار پاکستان میں بمشکل 113 ارب ڈالر ہے۔ یہ بھی مورد نظر رہنا چاہیئے کہ اگر اسرائیل یا یہودی پاکستان کو چند ارب ڈالر دے بھی دیں تو اس کے بدلے میں جو کچھ چاہیں گے اس کے مقابلے میں انڈیا کا تنہا مقابلہ زیادہ بہتر ہو گا۔ یعنی کچھ سختی کے ساتھ آزادی برقرار رکھنا اس سے بہتر ہے کہ انڈیا سے بچنے کیلئے ہم اپنے آپ کو یہودیوں کے ہاتھوں بیچ ڈالیں۔
چوتھی دلیل:
حکمرانوں کی طرف سے ایک اور دلیل یہ بھی دی گئی ہے کہ عالمی برادری میں پاکستان کو ایک بنیاد پرست ملک سمجھا جاتا ہے اور اس کی وجہ سے یہاں عالمی سرمایہ کار سرمایہ کاری کرنے سے کتراتے ہیں۔ اب اس امیج کو بہتر بنانے کیلئے ضوری ہے کہ پاکستان کوئی ایسا قدم اٹھائے جس سے بنیاد پرست ہونے کا الزام ہمیشہ کیلئے ختم ہو جائے اور اس کا آسان حل اسرائیل سے تعلقات ہے۔ اس کے جواب میں سب سے پہلے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ پاکستان کا امیج خراب کیسے ہوا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ آج اگر پاکستان کو دنیا بھر میں بنیاد پرست دیکھا جا رہا ہے، بقول حکومت کے امیج خراب ہے تو اس خراب امیج کی وجہ بھی امریکہ ہی ہے۔ کیا امریکہ بھول گیا کہ اسی نے مجاہدین کو پیسہ دے کر روس کے خلاف جنگ کروائی تھی۔ یہ امریکہ ہی تھا جس کی ایجنسیوں نے ساری جنگ لڑِ اور اس جنگ کی خاطر مدارس کھلے جن میں نام نہاد مجاہد تربیت پائے جنہیں آج دہشت گرد کہا جا رہا ہے۔ پھر یہ امریکہ کی ایما پر پاکستانی ایجنسیاں تھیں جنہوں نے طالبان کو ایجاد کیا اور ان کی سرپرستی کی۔ اگر امیج برا ہے تو یہ بھی امریکہ کی دین تھی تو اب اس امیج کو بھی امریکہ ہی صحیح کرے۔ اور اگر داخلی طور پر اس برے امیج کا کوئی ذمہ دار تو وہ ایسے سیاسی اور عسکری عناصر ہیں جنہوں نے اسلام کے نام پر لوگوں کو بے وقوف بنا کر ان سے اپنے سیاسی مفادات کو حاص کیا اور اب مصلحتیں بدل گئیں تو نیا کھیل شروع کر دیا۔ اس معاملے کی اصل حقیقت یہ ہے کہ امیج کا کوئی معاملہ نہیں بلکہ سارا معاملہ سیاسی مصلحتوں کا ہے۔ کل یہ بنیاد پرست امیج امریکہ کی ضرورت تھی تو اس نے بنائی، اب ضرورت نہیں تو ختم کرنا چاہتا ہے لیکن چاہتا ہے کہ قیمت بھی پاکستان ہی چکائے۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس کے ساتھ یہ مشکل ہے؟۔ سعودی عرب اس سے بدتر ہے اور اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ایران سب سے برا ہے۔ لیکن ان دونوں ممالک میں دنیا بھر کے سرمایہ کار سرمایہ لگا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ فرانس نے امریکہ کی مخالفت کے باوجود ایران میں پیسہ لگایا ہوا ہے۔ ملائیشیا کی مثال بہت واضح ہے۔ اس نے کبھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور دنیا بھر کی بڑی کمبنیاں ملائیشیا میں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ دوسری طرف سے جن اسلامی مملک نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے کیا وہ عالمی سرمایہ لگوانے میں کامیاب ہو گئے ہیں؟ ترکی اور مصر کے بارے میں کیا خیال ہے؟ دونوں ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کیا اور اس سے تعلقات بنائے لیکن اب تک دونوں ممالک اپنی اقتصادی صورتحال کی ابتری کا شکار ہیں۔ ترکی نے تو اس امید پر قبول کیا تھا اس بہانے اسے کم از کم یورپی برادری کی ممبر شپ مل جائے گی لیکن آج تک ترکی اس سے محروم ہے۔ اور ظاہر ہے کہ تعلقات بن گئے تو بگاڑے نہیں جا سکتے لہذا دونوں ملکوں کے تعلقات بھی ہیں اور ملا ملایا بھی کچھ نہیں۔ بدقسمتی سے حکام نے اگر ہوش کے ناخن نہ لئے تو یہی سب اب پاکستان کے ساتھ ہو گا۔
پانچویں دلیل:
حکومت کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہم نے فلسطینی صدر محمود عباس اور سعودی شاہ عبداللہ سے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کے معاملے میں رضامندی حاصل کر لی ہے۔ سب سے پہلے تو ہم پوچھنا چاہیں گے کہ پاکستان اپنے خارجہ امور میں ان دونوں کی رضامندی کا پابند کب سے ہو گیا؟ کیا اب تک پاکستان نے ہمیشہ ان دو ممالک سے پوچھ کر اپنی خارجہ سیاست بنائی تھی؟ دوسرا یہ کہ اگر معاملہ قبلہ اول، بیت المقدس اور مسلمانوں کے اوپر ہونے والے ظلم کا ہے تو اس میں محمود عباس اور عبداللہ کی کیا حیثیت ہے؟ اگر محض مسلمان حکمرانوں کی حیثیت میں ہے تو دوسرے ممالک بھی ہیں ان کے حکمرانوں سے مشورہ کیوں نہیں لیا؟ ایران سے کیوں کشورہ نہیں لیا جبکہ اسرائیل کے ساتھ مقابلے میں کم از کم اس وقت ایران سرفہرست ہے۔ اگر کہیں کہ فلسطین کا معاملہ تھا لہذا محمود عباس کی رائے لی تو ہمارے خیال میں اسرائیل کا معاملہ عرب یا فلسطینی معاملہ نہیں بلکہ مسلمانوں کا معاملہ ہے۔ یہ قبلہ اول کا معاملہ ہے اور اس میں تمام مسلمانوں کے عقائد کا سوال ہے۔ پھر اگر آج بیت المقدس کے معاملے کو فلسطینی معاملہ کہ کر چھوڑ دیں تو عین ممکن ہے کہ کل کوئی اور علاقہ ہو اور اسے بھی اس کا علاقائی معاملہ کہا جائے؟ خود پاکستان کیوں کشمیر کے معاملے کو او آئی سی میں لے جاتا رہا؟ اس وقت تو پاکستان کو یہ معاملہ اسلامی ممالک کا لگتا تھا تو اب فلسطین کیوں علاقائی لگنے لگا ہے؟ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اگر آج بیت المقدس کو علاقائی معاملہ کہ کر چھوڑ دیا جائے اور فلسطینیوں نے اسے اسرائیل کے حوالے کر دیا تو کل عین ممکن ہے کہ خانہ کعبہ زد میں آئے اور سعودی اسے حملہ آور کے حوالے کر دیں، پھر کیا مسلمان اس پر بھی یہ کہ کر خاموشی اختیار کر لیں گے کہ جس کا علاقہ تھا اس نے خود ہی دے دیا تو ہم کیا کریں؟ یہ دلیل ہی قوم پرستی پر مبنی ہے جبکہ رسول گرامی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی احادیث تمام مسلمانوں کو دکھ درد میں ایک دوسرے کے کام آنے اور مل کر مسائل حل کرنے پر تاکید کر رہی ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگر مسلمان کسی دوسرے مسلمان کے استغاثے کی آواز سنے اور لبیک نہ کہے تو وہ مسلمان نہیں۔ خلاصہ کلام یہ کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں کوئی عقلی یا دینی دلیل ساتھ نہیں دیتی۔ دین اور عقل دونوں کا حکم ہے کہ ان تعلقات میں پاکستان کیلئے کوئی بھلائی نہیں ہے اور یہ محض حکمرانوں کی اپنی سیاسی مصلحتوں کا کھیل ہے جسے پورا کرنے کیلئے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی کوشش کی جا رہی ہے۔ البتہ حکمرانوں کو یاد رکھنا چاہیئے کہ پاکستان کی عوام کیسی ہی سہی لیکن اپنی بنیادوں میں دیندار ہے اور یہودیوں کے اعمال کو کم از کم اس حد میں اچھی طرح جانتی ہے اور اس سلسلے میں انہیں دھوکہ دینا ایسی غداری ہو گی جسے یہ قوم کبھی معاف نہیں کرے گی۔


خبر کا کوڈ: 11668

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/fori_news/11668/اسرائیل-سے-تعلقات-کیلئے-بے-بنیاد-دلائل

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org