0
Friday 25 Nov 2011 16:39

طالبان سے مذاکرات ایجنڈا کیا ہے

طالبان سے مذاکرات ایجنڈا کیا ہے
تحریر:طاہر یاسین طاہر 

حکمت اگر منڈیوں کی جنس ہوتی تو کئی نامور اسکے خریدار ہوتے مگر یہ ایک خداد صلاحیت ہے اور اللہ جسے چاہتا ہے اس نعمت سے نواز دیتا ہے۔ لگتا ہے تدبر کرنا ہمارے ہاں حکمران طبقے کا شیوہ ہی نہیں۔ یہ فقط اے پی سی بلاتے ہیں، گفتگو کرتے ہیں، طاقت کے سرچشموں سے سیراب ہونے کے لیے ایک دوسرے سے پہل کرنا چاہتے ہیں اور بس۔ اگر ابتدا ہی سے اعتدال پسند معاشرے کی تشکیل کے لیے اقدامات اُٹھائے جاتے تو آج ریاست کو انتہا پسندوں، دہشتگردوں اور کالعدم تنظیموں سے مذاکرات کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ کیا اس دلیل پر اپنے معاشرے کو سنگدلوں کے رحم و کرم پر چھوڑا جا سکتا ہے کہ چونکہ امریکہ ان سے مذاکرات کر رہا ہے اس لئے ہم بھی کریں گے؟ امریکی تقلید میں تو ہم آج اس حال کو پہنچے کہ
 
نہ ہاتھ باگ پر ہے، نہ پا ہے رکاب میں 

کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ایک سینئر کمانڈر نے چند دن پہلے انکشاف کیا کہ ان کے حکومت پاکستان سے امن کے حوالے سے مذاکرات جاری ہیں مگر یہ بات چیت ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے اور اس کا مرکز جنوبی وزیرستان ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کامیابی کی صورت میں دوسرے قبائلی علاقوں کو بھی اسی نوعیت کے امن معاہدوں میں شامل کیا جائے گا۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ میں کچھ دنوں سے یہ اطلاعات تسلسل کے ساتھ گردش کر رہی ہیں کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور حکومت پاکستان کے درمیان "امن مذاکرات" کا آغاز ہو چکا ہے لیکن دوسری جانب فریقین ایک دوسرے کو سخت شرائط بھی پیش کر رہے ہیں۔ وطن عزیز میں دہشتگردوں کی حمایت کا بڑا حلقہ اس امر پر زور دیتا ہے کہ ان کے ساتھ مذاکرات کر کے انہیں قومی دھارے میں شامل کیا جائے۔ گاہے ایک مقبول سیاسی مذہبی رہنما پارلیمان کے اندر طالبان کے حق میں آواز بلند کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں بیت اللہ محسود گروپ اور دیگر کالعدم گروپوں سے حکومت کے کامیاب مذاکرات کروا سکتا ہوں مگر دلچسپ پہلو تو یہ ہے کہ جب حکومت بھارت کو تجارتی حوالے سے پسندیدہ ترین ملک قرار دیتی ہے تو یہی لو گ اسے کشمیری شہداء کے خون سے غداری قرار دیتے ہیں۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ جب کالعدم دہشت گرد تنظیموں سے حکومت کو مذاکرات کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے تو کیا یہ خودکش حملوں میں شہید ہونے والے بےگناہ مسلمانوں کے خون سے غداری نہیں ہو گی؟ دہشتگردوں کے حامی امن بھی اپنی پسند کا چاہ رہے ہیں۔

ایک غیر ملکی نشریاتی ادارے کے مطابق ستمبر میں اسلام آباد میں ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس کے اعلامیہ میں یہ شق بطور خاص شامل کی گئی تھی کہ قبائلی علاقوں میں سکیورٹی فورسز کے خلاف برسرپیکار طالبان کو مذاکراتی عمل میں شامل کیا جائے۔ ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے نے تو منگل کو اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ طالبان نے جنگ بندی کا اعلان کر دیا لیکن بعد میں عسکریت پسندوں کی جانب سے اس کی تردید آ گئی اور انہوں نے اپنی اس تردید کو دہشتگردانہ کارروائیاں کر کے ثابت بھی کیا۔ البتہ یاد رہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان احسان اللہ احسان نے حکومت کے ساتھ امن مذاکرات کی تصدیق ضرور کی بلکہ تحریک ترجمان نے تو یہاں تک بھی کہا کہ طالبان کی حکومت پاکستان سے امن بات چیت اسی صورت میں کامیاب ہو سکتی ہے جب پاکستان امریکہ سے دہشتگردی کے خلاف جاری جنگ میں اپنا اتحاد ختم کر دے۔ جبکہ کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے نائب امیر اور باجوڑ طالبان کے اہم کمانڈر مولوی فقیر احمد نے کہا ہے کہ حکومت واقعی امن مذاکرات میں سنجیدہ ہے تو پھر اسے طالبان کے خلاف ہر قسم کے آپریشن بند کرنا ہونگے۔ انہوں نے کہا کہ ایک ہی وقت میں مذاکرات اور آپریشن کی بات، احمقانہ پالیسی ہے۔ اگرچہ مولوی فقیر محمد نے حکومت کی پالیسی کو احمقانہ کہا مگر دلچسپ پہلو تو یہ بھی ہے کہ ایک ہی وقت میں مذاکرات اور خودکش حملے کیا طالبان کی احمقانہ پالیسی نہیں؟ ابھی مذاکرات کی گونج میڈیا میں سنائی ہی دے رہی تھی کہ دہشتگردوں نے ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک تھانے پر حملہ کر کے یہ ثابت کر دیا کہ امن سے انکا دور کا بھی واسطہ نہیں۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے اس حملے کی ذمہ داری بھی قبول کر لی۔ 

معاشرے کو اگر پرامن رکھا جائے اور لوگوں کو دہشتگردوں سے بچانا ہے تو پھر حکومت کو بھی اپنی پسپا ہونے کی پالیسی پر نظر ثانی کرنا ہو گی۔ دہشتگردوں کے خلاف ایک بھرپو رآپریشن اور بس۔ پچھلے ڈیڑھ دو ہفتے سے خیبرپختونخواہ اور قبائلی علاقوں میں سکولوں کو اڑانے کا سلسلہ پھر سے شروع ہو چکا ہے بہت سادہ سی بات ہے کہ ریاست کالعدم تحریک طالبان پاکستان کو دہشتگرد قرار دے چکی ہے تو پھر یہاں مذاکرات کی ایک فریق تو ریاست خود ہے اور پاکستانیوں کی نمائندگی کرے گی جبکہ فریق ثانی؟ اسکی قانونی اور اخلاقی حیثیت کیا ہو گی؟ دہشتگرد؟ انتہاپسند؟ عسکریت پسند یا امن عالم کو تباہ کرنےوالے درندے؟ وہ جو کل تک دہشتگرد اور ملکی سلامتی کے دشمن تھے ان سے مذاکرات دراصل ان کی طاقت کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔ مذاکرات کا ڈھول کالعدم تنظیموں کا پرانا حربہ ہے۔ فروری 2009ء میں بھی کالعدم تنظیم تحریک نفاذ شریعت محمدی کے سربراہ مولانا صوفی محمد اور حکومت سرحد کے درمیان مالا کنڈ ڈویژن میں نفاذ شریعت کے حوالے سے "بحالی امن معاہدہ" فروری 2009ء میں طے پایا، مگر اس کے بعد مذکورہ مولانا نے پورے پاکستانی معاشرے کو ہی کافر قرار دیدیا۔ اپنی بکھری قوت کو یکجا کرنے کے لئے مذاکرات طالبان کا ایجنڈا رہا ہے۔ ریاست جب کسی فریق سے امن مذاکرات کرتی ہے تو فریق ثانی کی حیثیت برابری کی تصور کی جاتی ہے۔ کیا ہم یہ سمجھیں کہ ریاست میں دہشتگردوں کی ایک علیحدہ ریاستی طاقت کو تسلیم کر لیا ہے؟ مسائل سنگین نوعیت کے ہیں قومی قیادت کو اس کا حوصلہ مندی سے سامنا کرنا چاہیئے۔ مٹھی بھر عسکریت پسندوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کے بجائے اعتدال پسند پاکستانیوں کے تحفظات کو بھی ریاست سامنے رکھے۔ مذاکرات ایک اچھا سیاسی رویہ ہے مگر وہ جو نسل آدم کے دشمن بنے ہوئے ہیں اور جن کی افتاد طبع ہی قتل و غارت گری پر ہے ان سے امن کی امید کیوں؟
خبر کا کوڈ : 117064
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش