0
Thursday 17 Sep 2009 11:31

ایران کا ایٹمی پروگرام:اسرائیل کیلئے لمحہءفکریہ

ایران کا ایٹمی پروگرام:اسرائیل کیلئے لمحہءفکریہ
 کرنل غلام سرور
دنیا کے مسلم ممالک میں سے صرف ایران کو ہی یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ امریکی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کیلئے ہمہ وقت آمادہ دکھائی دیتا ہے۔ ایرانی حکومت کو اپنے قومی اور ملی مفادات بے حد عزیز ہیں اور وہ ان مفادات پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں۔ ایران کی حکومت کو ہی یہ شرف بھی حاصل ہے کہ اس نے ”ہولوکاسٹ“ (Holocaust) کے صہیونی ڈرامے کو ڈھونگ قرار دے کر اسے سختی سے مسترد کر دیا تھا اور اسرائیل کو ناجائز ریاست قرار دے کر اسے صفحہ ہستی سے نابود کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا اور وہ اب بھی اسی موقف پر قائم ہے۔ ایران نے اپنے قول و فعل کی ہم آہنگی سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ امریکا اور مغربی طاقتوں کے سازشی عناصر سے نپٹنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایران کو ایٹمی صلاحیت سے محروم کرنے کی تمام سازشیں ناکامی سے دوچار ہو چکی ہیں۔ افغانستان اور عراق کے محاذوں پر امریکا اور اس کے اتحادیوں کی جو درگت بنی ہے اسے دیکھتے ہوئے اب تک امریکا ایران کے خلاف کارروائی کرنے کا خطرہ مول لینے کی جرات نہیں کر سکا۔ رہا معاملہ اسرائیل کا تو اس کی حزب اللہ کے ہاتھوں جو دھنائی ہوئی ہے وہی اس کیلئے کافی ہے اور اب قرائن سے یوں دکھائی دیتا ہے کہ اسرائیل،ایران سے ٹکر لینے کی حماقت نہیں کرے گا۔ امریکا میں اسرائیل کے سفیر مائیکل ارون نے سی این این میں اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے ایران پر حملے کی خبر درست نہیں اور دور دور تک اس حملے کا کوئی امکان نہیں۔ اسرائیلی سفیر کی جانب سے اس قسم کا تبصرہ اس کی بے بسی کا مظہر ہے۔ سفیر موصوف کو اس بات کا اچھی طرح اندازہ ہو چکا ہے کہ اسرائیل کیلئے ایران کے ساتھ الجھنے کا مطلب اپنی مکمل تباہی و بربادی کو دعوت دینے کے مترادف ہو گا۔اسرائیل کیلئے سب سے بڑی مشکل یہ آن پڑی ہے کہ اس کا مربی اور سرپرست امریکا بھی ایران کے خلاف کاروائی کرنے پر آمادہ نہیں۔ یہ مسئلہ اسرائیل کیلئے سوہان روح بنا ہوا ہے او ر ” فلسطین کرانیکل“ کے مدیر رمزی پروج نے اس موضوع پر اپنے تبصرے میں اسرائیل کی کم ہمتی اور بے بسی کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ اس مضمون کو ہفت روزہ ”ریڈینس (Radiance)دہلی نے بھی اپنے 15 اگست 2009ء کے شمارے میں شائع کیا ہے۔ اسرائیلی حکام ان دنوں سخت کشمکش کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ انہیں ایک ایسے پیچیدہ مسئلے کا سامنا ہے جس سے نمٹنے کیلئے ان کی فوجی طاقت بھی کارگر ثابت نہیں ہو سکتی۔ یہ مسئلہ بڑا سنگین ہے اور اس کی تان اس بات پر ٹوٹتی ہے کہ اس سے نمٹنے کی راہ تلاش کی جائے۔ اسرائیل پر یہ حقیقت عیاں ہو چکی ہے کہ گو مگو کی اس کیفیت سے نکلنے کیلئے اس کے ارباب اختیار کو غیر معمولی فہم و دانش اور ذہانت کی ضرورت ہو گی۔ اسرائیل کے پالیسی ساز حلقوں میں اور دنیا بھر میں اس کے حامیوں کیلئے یہ بات کس قدر اذیت ناک ہو گی کہ وہ حسرت کی تصویر بنے بیٹھے ہیں اور ایران سر عام اپنے ایٹمی افزودگی کے پروگرام کو آگے بڑھا رہا ہے۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں اور اسرائیلی قائدین نے عراق کے خلاف جس بے ساختگی سے جنگ چھیڑی تھی مگر آگے چل کر ان کا جو حشر ہوا تھا اس کے پیش نظر ایران سے نبرد آزما ہونے کے تناظر میں اسرائیل اور اس کے حاشیہ برداروں کیلئے موجودہ صورت حال دو گونہ مایوس کن ہے۔ اب امریکا اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنے کیلئے افغانستان کی جنگ پر توجہ مرکوز کرنا چاہتا ہے۔ وہ ایران کو سبق سکھانے کا ارادہ تو ضرور رکھتا ہے مگر اسے اپنا انجام صاف دکھائی دے رہا ہے۔ اب صورت حال کچھ یوں ہے کہ ایران،امریکا کی ہٹ لسٹ(Hit List) پر موجود تو ضرور ہے مگر اس محاذ پر کوئی پیش رفت دکھائی نہیں دیتی۔ اگر عراق پر امریکی حملے کا تجربہ کامیاب رہتا تو امریکا یقینا تیل کی دولت سے مالا مال اہم محل وقوع کے حامل ملک ایران کو کچلنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتا کیونکہ ایران کو کنٹرول کرنے کا مطلب امریکی کنٹرول کا دائرہ طاقتور ایشیائی ممالک اور اس کی سرحدوں تک وسیع کرنا اور اپنے اثر و رسوخ کے لئے ضرورت پڑنے پر پنجہ آزمائی کی راہ ہموار کرنا ہے۔ مگر اب موجودہ حالات میں ایران کے خلاف امریکا کی فوجی کاروائی اس کی فوجی خودکشی کے مترادف ہو گی۔ عراق میں امریکی فوج کے کس بل نکل چکے ہیں اور رہی سہی کسر اب افغانستان میں طالبان نے پوری کر دی ہے جہاں جولائی 2009ء کا مہینہ امریکی فوج کیلئے انتہائی مہلک ثابت ہوا۔ یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ حالیہ دنوں میں طالبان اور دیگر قبائیلی ملیشیاء تنظیمیں پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط اور جاندار بن کر ابھری ہیں اور اتحادیوں کو ناکوں چنے چبوا رہی ہیں۔ ایران کے خلاف وسیع پیمانے پر فوجی کاروائی یا بھر پور امریکی حملہ یا قبضہ اب ناممکن دکھائی دیتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اسرائیلی حکام کی مایوسی اور بے چینی کا اصل سبب بھی یہی ہے۔ ہم اپنی بات سمیٹتے ہوئے ایک بار پھر عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ ایران کے خلاف امریکا کی فوجی کارروائی کے امکانات بڑی حد تک معدوم ہوتے جا رہے ہیں اور اس کے ساتھ ہی اسرائیل کی مایوسی اور تشویش بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ اس دوران اگر اسرائیل نے ایران پر حملہ کرنے کی حماقت کی تو اس سے یقینا امریکا کے تذویراتی مفادات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ امریکا اور اس کے اتحادی اس صورت حال پر سخت پریشان ہیں اور انہیں کوئی حل نظر نہیں آرہا ہے۔ اسرائیل کیلئے یہ صورت حال بڑی اذیت ناک ہے مگر یہ سب کچھ اس کا اپنا کیا دھرا ہے۔ مکافات عمل کا حرکی تصور اب پوری طرح حرکت میں آنے والا ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ جب یہ عمل حرکت میں آتا ہے تو ظلم کی ناﺅ کو ڈوبنے میں کوئی دیر نہیں لگتی۔ اسرائیل کو بھی اپنی چیرہ دستیوں کی سزا ملنے والی ہے۔ ایسا نہ ہو تو اسے کیسے پتہ چلے کہ: حذر اے چیرہ دستاں سخت ہیں فطرت کی تعزیریں۔





خبر کا کوڈ : 11792
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش