0
Monday 28 Nov 2011 17:35

زندہ قوم کی خودمختاری

زندہ قوم کی خودمختاری
تحریر:تصور حسین شہزاد
افغانستان میں موجود نیٹو افواج کے ہیلی کاپٹروں نے پاکستان کے انتہائی شمال مغرب میں واقع قبائلی ایجنسی مہمند میں دو فوجی چوکیوں پر حملہ کیا جس سے کم از کم 24 فوجی شہید اور متعدد زخمی ہوگئے، یہ حملہ بغیر کسی اشتعال کے کیا گیا۔ تاہم حملے کے 24 گھنٹے بعد نیٹو کی طرف سے اپنے ابتدائی بیانات کے برعکس یہ امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ سرحد کے پاکستانی حصے کی طرف سے نیٹو کے ٹھکانوں پر فائرنگ کی گئی تھی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ افغانستان میں نیٹو کے کمانڈر نے اس حملے سے صرف 24 گھنٹے پہلے اسلام آباد میں بری فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کے ساتھ ملاقات میں اطلاعات کے تبادلے اور باہم تعاون کے امور پر تبادلہ خیال کیا تھا۔ پاکستانی سیاسی اور فوجی قیادت کا ردعمل جائز طور پر فوری اور سخت رہا۔ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے فوری طور پر اہم سیاسی رہنماؤں سے ٹیلی فون پر رابطہ کر کے انہیں صورت حال کے بارے میں اعتماد میں لیا۔ نیز اپنا دورہ ملتان مختصر کرکے اسلام آباد پہنچے جہاں کابینہ کی دفاعی کمیٹی کے ہنگامی اجلاس نے فیصلہ کیا کہ پاکستان کے راستے نیٹو اور ایساف کی رسد بند کر دی گئی ہے اور امریکا سے پندرہ روز کے اندر بلوچستان میں واقع شمسی ائیر بیس خالی کرنے کے لیے کہا گیا۔ جنرل کیانی نے اس واقعے کو ناقابل قبول قرار دیا۔ اسلام آباد میں امریکی سفیر کو دفتر خارجہ میں طلب کرکے پاکستان کا احتجاج ریکارڈ کرایا گیا۔ برسلز میں نیٹو کے ہیڈ کوارٹر میں بھی پاکستان کا شدید غم و غصہ سفارتی ذرائع سے پہنچا دیا گیا ہے۔ برسلز اور کابل میں نیٹو کے متعلقہ حکام نے اس واقعے کو غیر دانستہ اور افسوس ناک قرار دیتے ہوئے پاکستانی حکومت سے معذرت کی ہے نیز شہید فوجی اہلکاروں کے اہل خانہ سے تعزیت کا اظہار کیا ہے۔ 
یہ امر قابل ذکر ہے کہ نیٹو کی طرف سے پاکستانی فضائی اور زمینی حدود کی خلاف ورزی کا یہ پہلا واقعہ نہیں۔ ستمبر 2010ء میں ایسے ہی ایک حملے میں 2 پاکستانی فوجی اہلکار شہید ہوئے تھے۔ قبل ازیں جون 2008ء میں نیٹو افواج نے زمینی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 11 پاکستانی فوجیوں کو شہید کیا تھا۔ اگرچہ اس واقعے کے نادانستہ ہونے کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا تاہم یہ امر قابل توجہ ہے کہ پاکستانی حکام کے مطابق یہ حملہ پاکستانی سرحد کی طرف سے کسی سرکاری یا غیر سرکاری حملے کا ردعمل نہیں تھا چنانچہ نیٹو کا یہ دعویٰ بظاہر بے بنیاد معلوم ہوتا ہے کہ زمینی جھڑپوں میں ایسی صورت حال پیدا ہوگئی جو نادانستہ طور پر پاکستانی حدود کی خلاف ورزی پر منتج ہوئی۔ اس جگہ پاکستانی حکومت کا یہ مطالبہ درست ہے کہ اس واقعے کی کماحقہ تحقیق ہونی چاہیے۔ جہاں تک پاکستان کی کابینہ دفاعی کمیٹی کے فیصلوں کا تعلق ہے ان میں کوئی نئی بات نہیں۔ یہ امر کئی برس سے عوامی علم میں ہے کہ شمسی ائیر بیس کو جاسوسی اور اطلاعات کی فراہمی کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ تاہم جون 2011ء میں امریکا نے اعلان کیا تھا کہ شمسی ائیر بیس پر کوئی امریکی فوجی موجود نہیں۔ چنانچہ شمسی ائیر بیس کے حوالے سے امریکا کو دھمکی رسمی کارروائی ہی سمجھی جائے گی۔ دوسری طرف پاکستان سے نیٹو کی رسد بھی ایک سے زیادہ دفعہ منقطع کی جا چکی ہے۔ گزشتہ دو برس میں نیٹو کے کم از کم 1500 ٹینکروں پر پراسرار حالات میں حملے کیے گئے ہیں اور امریکی حکام اپنی رسد کو لاحق خطرات کے پیش نظر متبادل راستوں کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ روس سے قازقستان اور ازبکستان کے راستے رسد کی فراہمی کا متبادل راستہ بروئے کار لایا جا رہا ہے۔ وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کے دورہ امریکا کے دوران انہیں بتایا گیا تھا کہ امریکی افواج کے لیے 40 فیصد رسد پہلے ہی متبادل راستوں سے افغانستان پہنچائی جا رہی ہے اور 2012ء تک پاکستان پر انحصار بڑی حد تک کم ہو جائے گا۔ ایسی صورت میں نیٹو کی رسد بند کرنے سے مجموعی صورت حال میں کسی بنیادی تبدیلی کا امکان کم ہے۔ زیادہ بہتر یہ ہے کہ افغان مسئلے کے تمام فریق سنجیدگی کے ساتھ ان امور پر غور و فکر کریں جو پاک افغان سرحد پر پیچیدگیوں کا باعث بن رہے ہیں۔ نیٹو اور امریکا کا پاکستان سے مطالبہ ہے کہ قبائلی علاقوں میں بالخصوص شمالی وزیرستان میں افغان حکومت کے ساتھ برسرپیکار عسکریت پسندوں کے ٹھکانے ختم کیے جائیں۔ پاکستان نے ابتدائی طور پر ڈھکے چھپے الفاظ میں اور بعد ازاں واضح طور پر یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ ان ٹھکانوں پر حملہ کرنا پاکستان کے مفاد میں نہیں۔ 2014ء میں امریکی افواج کے افغانستان سے موعودہ انخلا کے تناظر میں یہ امر قابل فہم ہے کہ ان عسکریت پسندوں کے محفوظ ٹھکانوں سے افغانستان میں پائیدار امن کے امکانات کو زک پہنچے گی۔ دوسری طرف پاکستان کا یہ خدشہ بھی وزن سے خالی نہیں کہ افغانستان کے آئندہ سیاسی بندوبست میں پاکستان کے مفادات کا کماحقہ تحفظ نہ ہونے کی صورت میں پاکستان سے تعاون کی توقع عبث ہے۔ کہنا چاہیے کہ اس سنجیدہ مسئلے پر فریقین کو اپنے مؤقف میں لچک پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ 
امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کے تعاون کے بغیر افغانستان میں امن کی خواہش پوری ہونا دشوار ہے۔ پاک افغان سرحد کی صورت حال گزشتہ 30 برس سے مخدوش ہے اور سوویت افواج، افغان مجاہدین، طالبان اور پھر ایساف کے تجربات سے ثابت ہوا ہے کہ فریقین کے خوشدلانہ تعاون کے بغیر طاقت کے بل پر یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ دوسری طرف پاکستان کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ گزشتہ 10 برس میں خطے اور دنیا کی سلامتی کی صورت حال میں بنیادی تبدیلیاں آئی ہیں جن کے بعد پاکستان کو افغانستان میں ویسا اثرورسوخ حاصل کرنے کی توقع نہیں کرنی چاہیے جو اسے 1989ء سے لے کر دسمبر 2001ء تک حاصل تھا۔ اب اس مسئلے میں روس، چین، ترکی، بھارت اور وسط ایشیائی ریاستوں کے گہرے مفادات داخل ہو چکے ہیں اور جملہ فریقوں میں پرامن بقائے باہمی کی بنیاد پر کسی باوقار سمجھوتے کے بغیر امن نیز مہمند ایجنسی جیسے افسوس ناک واقعات کا انسداد ممکن نہیں۔ جہاں تک پاکستان میں کچھ سیاسی حلقوں کی طرف سے دہشت گردی کے خلاف جنگ سے دست کشی کے مشورے کا تعلق ہے، یہ سمجھنا چاہیے کہ اس نوع کی طویل اور پیچیدہ جنگوں میں کسی فریق کے لیے یک طرفہ طور پر علیحدگی اختیار کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ پاکستان نے اگر اس حال میں اپنا وزن بڑھانا ہے تو اسے ان نیٹو فورسز کے فوجیوں کی حوالگی کا مطالبہ کرنا چاہیے اور ان پر جنگی جرائم کا مقدمہ چلایا جائے، پاکستان کے اس اقدام سے جہاں عوام کو اطمینان ہو گا وہاں دنیا میں یہ تاثر بھی قائم ہو جائے گا کہ پاکستان کو اپنی خودمختاری اور سالمیت بہت عزیز ہے۔ زندہ قومیں اپنی خودمختاری پر سمجھوتہ نہیں کیا کرتیں، اب وقت ہے بلکہ سنہری موقع ہے کہ پاکستان امریکہ سے پورا پورا بدلہ لے اور فوجیوں کی حوالگی سے کم پر سمجھوتہ نہ کرے۔ 
خبر کا کوڈ : 118115
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش