0
Tuesday 29 Nov 2011 15:35

روسی بحری بیڑہ شام کے سواحل پر

روسی بحری بیڑہ شام کے سواحل پر
اسلام ٹائمز- العالم نیوز چینل کے مطابق ایسے وقت جب ترکی جیسے شام کے بعض ہمسایہ ممالک اور کچھ عرب ممالک عرب لیگ کی مدد سے شام کی حکومت کو سرنگون کرنے کی سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہیں، روسی بحری بیڑے کا شام کی طرطوس بندرگاہ پر لنگرانداز ہو جانا اور دونوں ممالک کے نیوی سربراہان کی باہم ملاقات ان ممالک کیلئے ایک واضح اور روشن پیغام ثابت ہو سکتا ہے۔
شام کے سواحل پر لنگرانداز ہونے والے اس روسی بحری بیڑے میں انتہائی جدید قسم کے جنگی جہاز موجود ہیں جو جدید قسم کے ریڈار سسٹم اور زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائلوں سے لیس ہیں۔ ایسی جنگی کشتیوں کا شام کے سواحل پر لنگرانداز ہونا بے مقصد نہیں ہو سکتا۔ اس بحری بیڑے کے شام آنے کے ساتھ ہی روسی وزارت خارجہ کی طرف سے یہ موقف اختیار کیا جانا کہ شام میں کسی قسم کی بیرونی مداخلت کو برداشت نہیں کیا جائے گا انتہائی واضح پیغام کا حامل ہے۔ یہ شاید وہ اہم ترین پیغام ہے جو شام کی طرطوس بندرگاہ میں اس روسی بحری بیڑے کے لنگرانداز ہونے سے سمجھا جا سکتا ہے جس میں 600 روسی نیوی کے افراد بھی موجود ہیں۔
اس کے ساتھ ہی اس خبر کا اعلان کہ آئندہ مہینے روس کا کیریئر جنگی جہاز ایڈمرل کوزنٹسوف جو 8 ایس یو 33 جنگی طیاروں، کئی مگ 29 کے طیاروں اور
دو کے اے 27 ہیلی کاپٹرز کا حامل ہے بھی شام کے سواحل کی جانب بھیجا جائے گا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ روسی کمانڈرز کے بقول اس کیریئر جنگی جہاز پر موجود جنگی طیاروں کو طرطوس بندرگاہ کے اردگرد بحیرہ روم پر حفاظتی پروازوں کی ذمہ داری سونپی جائے گی۔
بعض سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ روس کی جانب سے ان طاقتور جنگی جہازوں کا شام کی جانب بھیجے جانا شرق اور غرب کے درمیان معرکہ آرایی کا جدید باب کھولے جانے کا باعث بن سکتا ہے۔ روس کی نیوی کے سابق سربراہ وکٹر کراوچنکو نے اس بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ خطے میں نان نیٹو فورسز کی موجودگی مسلحانہ ٹکراو کو روکنے کا باعث بنے گی۔
روسی نیوی کے اس تجربہ کار جنرل نے مزید کہا کہ سوویت یونین دور میں بحری جنگی جہازوں کے ایسے گروہ کو تشکیل دیا گیا جسکا مقصد بحیرہ روم میں مغربی بحری بیڑوں کا مقابلہ کرنا تھا، اس وقت طرطوس بندرگاہ بھی ان بحری جنگی جہازوں کے گروپ کی سپورٹ کرنے اور انکی حفاظت کرنے کے مقصد سے تعمیر کی گئی تھی۔
فوجی ماہرین کی نظر میں جنرل کراوچنکو کا یہ اظہار خیال یہ پیغام دیتا ہوا نظر آتا ہے کہ آج کا روس ماضی کے سوویت یونین سے ورثہ میں ملنے والے مقام کو محفوظ بنانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ لہذا شام میں روس کی فوجی
موجودگی اور اس ملک کو اپنے بلاک میں باقی رکھنے کی روسی کوشش انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔
شام کے حکام کے تازہ ترین بیانات کی روشنی میں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ عرب اور مغربی ممالک شام پر فوجی حملے کی تیاری میں مصروف ہیں، روس کی جانب سے بحیرہ روم میں بڑے پیمانے پر فوجی موجودگی ان ممالک کیلئے انتہائی واضح پیغام ہے یعنی ماسکو اپنے روایتی حلیف شام کو اکیلا چھوڑنے اور لیبیا کی مانند ہاتھ سے گنوا دینے کا ارادہ نہیں رکھتا۔
روس نے عالمی مسائل کی نسبت اپنی نئی حکمت عملی کا اظہار آئندہ صدارتی انتخابات کیلئے ولادیمیر پیوٹن کے امیدوار کے طور پر سامنے آنے کے ساتھ کیا ہے۔ پیوٹن جو روسی انٹیلی جنس ادارے، کے جی بی، کے سابق سربراہ رہ چکے ہیں، بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ شام انکے ملک کیلئے کس قدر اسٹریٹجک اہمیت کا حامل ہے اور اگر ماسکو اسے بچانے میں کامیاب نہ ہو سکا تو بحیرہ روم جیسا انتہائی اہم اور اسٹریٹجک خطہ ہمیشہ کیلئے اسکے ہاتھ سے نکل جائے گا۔
لہذا شام کے سواحل پر روسی بحری بیڑے کی آمد اس قدر اہمیت کی حامل ہونی چاہئے کہ اسے ہیڈلائن کے طور پر ذکر کیا جا سکے۔ اسکی اہمیت شام میں مداخلت کرنے والے ممالک کے حکام کے بیانات اور رویہ میں واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ ترکی،
جو ان ممالک میں سے ایک ہے اور امریکہ کی میزائل شیلڈ کا میزبان بھی بن چکا ہے، ماسکو کی جانب سے براہ راست دھمکیوں کا نشانہ بنا ہے جن میں کہا گیا ہے کہ یہ میزائل شیلڈ روس کے طاقتور میزائلوں کا اصلی ٹارگٹ ہوں گے۔
دوسری طرف عرب ممالک ہیں جو یہ سوچ رہے تھے کہ بعض ایسے عرب ممالک کو اکٹھا کر کے جن کی آواز اپنی سرحدوں سے پار بھی نہیں جاتی اور وہ خود انسانی حقوق کی پامالی اور عوام کو کچلنے کی بدترین مثال پیش کر چکے ہیں، شام کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ لیکن شام کے حامی ممالک جیسے چین، انڈیا، برازیل، جنوبی افریقہ، روس اور سب سے بڑھ کر اسلامی جمہوریہ ایران جو اسے اسلامی مزاحمت اور اسرائیل کے ساتھ جنگ کی فرنٹ لائن تصور کرتا ہے، نے ان ممالک کے ہاتھ باندھ رکھے ہیں اور انہیں پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔
لہذا ایسا محسوس ہوتا ہے کہ روسی حکام کے بیانات اور شام کی جانب جنگی بحری بیڑے کی روانگی بہت جلد خطے میں اپنے سیاسی اور فوجی اثرات کو ظاہر کرے گی اور دمشق کی جانب سے علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر اختیار کئے گئے موقف کی مضبوطی کا باعث بنے گی۔ اس کے ابتدائی اثرات گذشتہ روز شام کے وزیرخارجہ ولید المعلم کی پریس کانفرنس کی صورت میں قابل مشاہدہ ہیں۔
خبر کا کوڈ : 118378
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش