0
Friday 2 Dec 2011 17:49

بزدل کی بیوی یا ہیرو کی بیوہ

بزدل کی بیوی یا ہیرو کی بیوہ
تحریر:تصورحسین شہزاد
مختلف ادوار میں کئی ایسے موڑ آئے ہیں جن پر پاک امریکہ تعلقات نے فیصلہ کن شکل اختیار کی لیکن امریکی کی ضرورت اور پاکستان کی مجبوری درمیان میں آڑے آ گئی اور دونوں نے ایک دوسرے کی ضرورت کے لئے معاملات طے کر لئے۔ کسی نے ایک بار کہا تھا کہ ہمیں صرف اسی جھوٹ کی صحیح سزا ملتی ہے جو ہم اپنی ذات سے بولتے ہیں۔ اس بنیادی سبق کو نظر انداز کرتے ہوئے امریکہ اور پاکستان اپنے تعلقات کے حوالے سے مسلسل ایک دوسرے اور خود سے جھوٹ بول رہے ہیں جو آغاز سے ہی بہت سی خامیوں کا شکار تھا اور اب اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے۔ اگر پاک امریکہ تعلقات سرد جنگ کے آغاز میں پھلے پھولے تو اس کی وجہ صرف اتنی تھی کہ ان کا کبھی امتحان نہیں لیا گیا۔ علاوہ ازیں سوویت یونین نے بھی اپنے پتے غلط کھیلے۔ پھر 1965ء میں زیر زمین اختلافات بالائی سطح پر آ گئے جب واشنگٹن نے بھارت سے جنگ کے دوران ہتھیاروں کی فراہمی پر پابندی عائد کر دی۔ اگرچہ جنگ میں تیزی آ رہی تھی لیکن امریکی پابندی کے باعث پاکستان دہل گیا۔ ہمیں دھوکے کا احساس ہوا اور اسی وقت علیحدگی اختیار کر لینی چاہئے تھی کیونکہ دونوں ممالک میں دوستوں اور دشمنوں سمیت چند ہی قدریں مشترک تھیں تاہم متعدد وجوہات کی بنا پر ہم نے ایسا نہیں کیا۔ ان میں سے ایک اہم وجہ سراب کو حقیقت سمجھنے کا رحجان جبکہ دوسری وجہ تعلقات کو کوئی دوسری سمت دینے میں ہچکچاہٹ تھی۔ ہم یہ بھی بھول گئے کہ صرف الفاظ کی بنیاد پر تعلقات قائم نہیں رہتے اور یہ وقت کے ساتھ ساتھ افعال کی بنیاد پر فروغ پاتے ہیں۔ افسوس ایسے افعال کم ہی دیکھنے کو ملے بلکہ 90ء کی دہائی میں امریکی پابندیوں کے باعث تو قطعاَ دیکھنے کو نہیں ملے۔ پرانی عادتیں مشکل ہی سے پیچھا چھوڑتی ہیں۔ 9/11 کے بعد ہم ایک بار پھر امریکہ کا سامنا کرنے میں ناکام رہے، ہم وہ بد سلوکی بھول گئے جو امریکہ نے سوویت یونین کی شکست کے بعد افغانستان سے نکلتے وقت ہمارے ساتھ روا رکھی۔ مشرف نے خود کو ایک بار پھر امریکہ کی خدمت کیلئے پیش کر دیا۔ اگر انہوں نے ایسا نہ کیا ہوتا اور اگر سمجھوتہ کرنے سے پہلے کچھ شرائط پر گفت و شنید کی جاتی تو آج ہمارے تعلقات اس قدر کشیدہ نہ ہوتے، لیکن اب پانی سر سے گزر چکا ہے۔ ایک فون کال پر ڈھیر ہونے کی بہت زیادہ قیمت دینا پڑی ہے۔
آج امریکہ کے ساتھ تعلقات کی مد میں ایک اور نتیجہ خیز لمحہ آن پہنچا ہے جب امریکہ نے ہماری دو چیک پوسٹوں پر حملہ کر کے 24 پاکستانی جوانوں کو شہید کر دیا۔ یہ ظالمانہ اقدام، جس کے بارے میں عام تاثر ہے کہ دانستہ تھا، ایسے امریکی اقدامات کی ایک کڑی ہے جنہوں نے دونوں ممالک میں تعلقات کو خراب کر دیا ہے۔ خرابی کا آغاز ڈرون حملوں سے ہوا جن میں بے شمار معصوم جانیں گئیں مگر طالبان کی پاکستان اور افغانستان میں حملوں کی اہلیت میں کوئی فرق نہ آیا۔ بعد ازاں اوباما نے سی آئی اے کے جاسوس ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں دو بے گناہ پاکستانیوں کے قتل پر مقدمے کی کارروائی سے انکار کر دیا، پھر اسامہ بن لادن کے خلاف خاموشی سے کارروائی، امریکہ کا بھارت کو اپنا جنگی ساتھی بنانا اور اسے افغانستان میں اہم ملک کے طور پر مدد فراہم کرنا، ایران پاکستان گیس پائپ لائن پراجیکٹ میں پاکستان سے ’’چھوڑ دو ورنہ‘‘کی پالیسی اپنانا، امریکی صدارتی امیدواروں کی طرف سے پاکستان کے خلاف بیہودہ زبان کا استعمال وغیرہ وغیرہ۔ لیکن مہمند میں ہمارے جوان شہید ہونے تک صورتحال اتنی نہیں بگڑی تھی۔ کیا اس تباہی کے بعد بھی ہم نے محسوس کیا کہ تعلقات پر نظرثانی کی ضرورت ہے ؟
ناقص پالیسی کو جاری رکھتے ہوئے باہم الزام تراشی میں الجھنے کی بجائے عوام کو یہ جان کر زیادہ خوشی ہو گی کہ ہماری حکومت جوانوں کی شہادت پر غم و غصے کے اظہار کیلئے کیا اقدامات کرتی ہے۔ پاکستان سے نیٹو کی رسد روکنے اور امریکہ کو شمسی ایئر بیس خالی کرنے کے احکامات ناکافی ہیں۔ نیٹو قائدین کو کال کر کے اس بہیمانہ اقدام پر احتجاج کی بجائے ہمیں ان کی کال کا انتظار اور پھر سننے سے انکار کرنا چاہئے۔ بون میٹنگ میں عدم شرکت کوئی بڑی بات نہیں کیونکہ کانفرنس پہلے ہی بے معنی ہے۔ معافی یا بدلے میں کسی رعایت سے بھی کام نہیں چلے گا بلکہ اس سے آگ مزید بھڑکے گی۔ ایسا محسوس ہو گا کہ ہر شے ڈالر کے عوض بکاؤ ہے۔ خودمختاری، غیرت اور قومی وقار کا ڈھنڈورا پیٹنے سے بھی انتقام مکمل نہیں ہو گا۔ جہاں تک عوام کا تعلق ہے تو ان کے پاس پہلے سے ہی خاصے ثبوت موجود ہیں کہ ہم امریکہ کے مقابلے میں اپنے مفادات کا تحفظ نہیں کر سکتے۔ اگر عوام کو مطمئن کرنا ہے تو پالیسی پر مکمل نظرثانی کرنا ہو گی تاکہ اس نتیجے پر پہنچا جا سکے کہ معاملے کو مستقبل میں کس طرح بہترین طریقے سے سنبھالا جا سکتا ہے۔ ہمارے امریکا سے اتحاد سے فوج نسبتاَ زیادہ مستفید ہوئی اور پاکستان کے اہم ترین معاملات میں اس کی آواز ہی سب سے پراثر سمجھی جاتی ہے۔ سویلین حکومتیں خصوصاَ موجودہ حکومت اتنی بااثر نہیں۔ لہٰذا فوج آگے بڑھے اور معاملات کسی نہج تک پہنچائے یا پھر اپنا اثرورسوخ ختم کرے۔ فی الحال دھونس جمانے کا وقت نہیں۔ ہم پہلے ہی حالت جنگ میں ہیں اور مستقبل کے حالات اس سے بھی بدتر ہو سکتے ہیں۔ ہمیں یہ جانتے ہوئے کہ افغان جنگ ہماری نہیں اوباما کی ہے، اسے جاری رکھنا ہو گا۔ دشمن چاہے ایک ہی ہو لیکن ہماری لڑنے کی وجوہات مختلف ہیں، ہماری ٹائم لائن، طریقہ کار اور دیگر عناصر بھی درست نہیں جبکہ ہم منصوبہ بندی بھی ٹھیک سے نہیں کرتے۔ امریکی القاعدہ کی مزید دہشت گردی سے بچنے کیلئے افغانستان آئے تھے۔ تاحال افغانستان میں موجودگی اور بظاہر القاعدہ کی شکست و ریخت کے ذریعے امریکی اپنی طاقت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ 
مزید براں امریکہ کے بھاری بھرکم قدم ایک یا دو برس بعد افغانستان سے اوجھل ہو جائیں گے۔ دوسری طرف دہشت گردی سے پاکستان کی بقا کو خطرہ لاحق ہے۔ ہماری جنگ کو چند برسوں میں نہیں ماپا جا سکتا۔ اس کو ختم ہونے میں کئی نسلیں لگیں گی جبکہ یہ صرف فوجی محاذ تک محدود نہیں بلکہ مختلف اشکال اور سمتوں پر محیط ہے۔ حالات کے ساتھ ساتھ منصوبہ بندی بھی بدلے گی۔ ہماری سرحدوں کی خلاف ورزی اسی وقت بند ہو گی جب آخری امریکی فوجی بھی افغانستان چھوڑ جائے گا۔ غیر ملکیوں کے گھر لوٹتے ہی ہمارے دشمن، اگر وہ دشمن رہنا چاہیں تو، ہمارے حوصلے کا امتحان لیں گے۔ اگر اس جنگ کا فاتحانہ انجام ہونا ہے تو یہ ہمیں اپنی شرائط پر لڑنا ہو گی۔ بیرونی قوتیں خصوصاَ امریکہ کی مداخلت ہماری کوششوں کو بے بنیاد بناتی ہے۔ مزید براں امریکی شمولیت عوام کو بھی پریشان کر دیتی ہے۔ وہ تقسیم ہوتے ہیں جس کے باعث محاذ جنگ پر کامیابی کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے بظاہر نا چاہتے ہوئے بھی انتہا پسندوں کی تعریف کرنا پڑتی ہے جبکہ فوج کی کامیابیوں کو خاطر میں نہیں لایا جاتا۔ اس جنگ میں پاکستان امریکہ کی جتنی پشت پناہی کرے گا اسے داخلی سطح پر اتنے ہی عدم تعاون کا سامنا کرنا پڑے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکی تمام طالبان کو ہلاک نہیں کر سکتے اور اسی وجہ سے جنگ چھوڑ رہے ہیں۔ اسی لئے امریکہ کے ہاتھوں طالبان کو شکست کی باتیں بڑھا چڑھا کر بیان کی جاتی ہیں۔ یقینی طور پر ایسے عناصر موجود ہیں جو ہمیں امریکیوں کی ہر بات ماننے کا کہتے ہیں بھلے اسلام آباد پر کروز میزائل ہی کیوں نہ گرائے جائیں جیسا کہ بغداد میں ہوا۔ لہٰذا ترغیب دی جاتی ہے کہ ’’سمجھداری‘‘ اسی میں ہے کہ کوئی فیصلہ نہ کیا جائے۔ بالکل ٹھیک، ہمیں خطرہ مول نہیں لینا چاہئے لیکن پھر اس عورت کے الفاظ یاد آتے ہیں جس نے کہا تھا کہ’’ایک بزدل کی بیوی ہونے سے ایک ہیرو کی بیوہ ہونا بہتر ہے ‘‘۔ کیا اب وقت نہیں آ گیا کہ ہم بھی ایسا ہی کہیں؟ 
خبر کا کوڈ : 119179
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش