0
Friday 9 Dec 2011 14:26

نیٹو حملہ، جوابی ہوائی حملہ کیوں نہ ہوا

نیٹو حملہ، جوابی ہوائی حملہ کیوں نہ ہوا
تحریر:جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم

ایم کے بھدرا کمار (Mk Bhudhra Kumar) ایک ہندوستانی سفیر ہے، جو سویٹ یونین، جنوبی کوریا، سری لنکا، افغانستان، پاکستان، ازبکستان، کویت اور ترکی میں ہندوستان کی سفارتی نمائندگی کر چکا ہے، اس نے 30 نومبر کو ایشیاء ٹائمز میں ایک مضمون لکھا ہے جس کا عنوان ہے "US and Pakistan Enter the Danger Zone" ۔
اس مضمون میں ہندوستانی سفارت کار نے پاکستان کابینہ کی کمیٹی برائے دفاع کے فیصلوں کوstunning یعنی زبردست کہا جن میں دہشتگردی کے خلاف امریکہ کی جنگ سے پاکستان کی علیحدگی کے علاوہ باقی تقریباً ساری چیزیں شامل ہیں اور ایک چینی اخبار کے مطابق تو شائد پاکستان جلد ہی اس جنگ سے علیحدہ بھی ہو جائے۔ ہمارے بہت سارے جذباتی پاکستانی بھائی یہ پوچھتے ہیں کہ اگر رات کے سوا بارہ بجے سے لیکر صبح کے سوا دو بجے تک یعنی دو گھنٹے، امریکی حملہ یا جارحیت جاری رہی، تو ہماری ہوائی فوج نے جوابی حملہ کیوں نہیں کیا۔ 

ایک ٹاک شو میں میرے ساتھ بیٹھے ہوئے ہمارے ایک قابل احترام سابقہ پاکستانی سفیر نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ہم نے ان فوجیوں کو کس لئے پالا ہوا ہے، جب میں نے عرض کیا کہ فوجی تو ملک کے لئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتا ہے تو سفیر موصوف جن کی میں بہت عزت کرتا ہوں، فوراً بولے کہ اس کے لئے ان کو تنخواہ ملتی ہے۔ یہ نہ سوچتے ہوئے کہ ایک فوجی سپاہی 15 یا 20 ہزارماہانہ کی تنخواہ کی خاطر نہیں بلکہ حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہو کر اپنے ملک کیلئے رضاکارانہ طور پر اپنی جان قربان کر دیتا ہے، ویسے تو کسی کو دس لاکھ روپے بھی دے کر دیکھ لیں وہ گولی کھانے کیلئے تیار نہیں ہو گا۔ 

قارئین پاکستان کی ایئر فورس دنیا کی ایک مانی ہوئی ہوائی قوت ہے اور ایم ایم عالم جیسے ہمارے سینکڑوں ہوا بازوں کی جرات اور بہادری کی داستانیں ہمارے دشمن بھی سناتے ہیں، لیکن یہاں میں یہ ضرور کہونگا کہ پاکستانی سفیر جو میری طرح محب وطن ہیں، نہایت دیانتداری سے بہت سارے لوگوں کے ان خیالات کی ترجمانی کر رہے تھے جو یہ کہتے ہیں کہ آخر دو گھنٹے تک افواج پاکستان نے جوابی ہوائی حملہ کیوں نہ کیا؟ اس کا جواب ہندوستانی انتہائی تجربہ کار سفارت کار M K Bhudhrah Kumar نے اپنے مذکورہ بالا کالم میں ان الفاظ میں دیا۔
 
"Washington may have seriously erred if the intention was to draw out the Pakistan Military into a retaliatory mode and then to hit it with a sledge hammer and make it crawl on its knees pleading mercy. Things aren't going to work that way."
یعنی 750 ارب ڈالرز دفاع پر سالانہ خرچ کرنے والا امریکہ اگر یہ سمجھ رہا تھا کہ وہ پاکستان پوسٹ پر حملہ کر کے صرف پانچ ارب ڈالر سالانہ دفاعی بجٹ والی افواج پاکستان کو ایک کھلی جنگ میں کھینچ لائیگا اور پھر اس کی لوہے کے گولے سے پٹائی کر کے اس کو رینگتے ہوئے رحم کی اپیل کرنے پر مجبور کر دیگا تو یہ اس کی بھول تھی۔ ہندوستانی سفارت کار کے مطابق پاکستان کی عسکری قیادت راوئتی طور پر بہت محتاط ہے، سفیر نہ کہا۔
 
"Pakistan is not going to give a military response to the US's provocations. Taliban are always there to keep bleeding the US and NATO Troop's."
یعنی پاکستانی فوج امریکی جارحیت کو جواب عسکری انداز میں نہیں دے گی۔ خصوصاً ایسے حالات میں جب خود افغانی طالبان امریکی اور نیٹو فوجیوں کا خون بہانے کیلئے ہر وقت تیار ہیں۔
 
قارئین پچھلے 1060 دنوں میں 1766 اتحادی فوجی افغانستان میں ہلاک ہو چکے ہیں، زخمیوں کی تعدار تو کئی ہزاروں میں ہے، یہ بہت بڑا جانی تقصان ہے، اس کے ساتھ امریکہ کے افغان جنگ میں ہر ہفتے 2 ارب ڈالر خرچ ہو رہے ہیں، ایسے مالی نقصان کی بھی دنیا کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی قیادت اب نیم پاگل اور حواس باختہ ہو چکی ہے اور اس غصے میں وہ پاکستان کو بھی لپیٹنا چاہتے ہیں۔ تاکہ ایک جھٹکے میں پاکستان کے اندر پہلے سے چنے ہوئے نقریباً 300 ٹارگٹس کو نشانہ بنا کر پاکستانی ایٹمی صلاحیت اور ہوائی قوت کو مفلوج کر دیا جائے۔ 

لیکن پاکستان کی عسکری قیادت اتنی معصوم نہیں کہ ٹریپ ہو جائے، انہوں نے اپنے ایٹمی ہتھیاروں کا ایسا دفاعی نظام ترتیب دیا ہوا ہے جو ناقابل تسخیر ہے۔ اور نہ ہی وہ امریکہ کے ساتھ لڑائی کرنے کی bate لینا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اپنی فوج کو صرف اپنے دفاع میں فائز کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے اندر داخل ہونے والے ہر جہاز کو گرایا جائیگا اور بیرونی فوجی کو پاکستان میں داخل ہوتے ہی گولی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لیکن پاکستان کی بری اور ہوائی افواج افغانستان کی زمینی اور ہوائی حدود میں قطعاً داخل نہیں ہونگی۔
 
اس لئے کابینہ کی ہماری کمیٹی برائے دفاع نے بالکل ٹھیک فیصلے کئے ہیں، ہم اگر امریکہ سے جنگ کرتے ہیں تو ہمارے دشمن ممالک خصوصاً ہندوستان اور اسرائیل کیلئے یہ ایک بہت خوش کن خبر ہو گی، اس لئے اس جال میں بالکل نہ پھنسا جائے۔ لیکن یہ نہ بھولا جائے کہ امریکہ ہمارا اب دوست نہیں بلکہ دشمن ہے۔ پیچھے میں نے ایک کالم بعنوان "پاک امریکہ اسٹریٹیجک مذاکرات، وقت کا ضیائع" لکھا تھا جس میں عرض کیا تھا کہ امریکن ہمیں بے وقوف بنا رہے ہیں۔ اس لئے ہمیں بہت پھونک پھونک کر قدم رکھنے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ میں تعینات پاکستانی سفیر، حکومت پاکستان اور افواج پاکستان کی قیادت کا ایک گرڈ پر ہونا بہت ضروری ہے۔ 

بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو رہا، امریکہ میں سفیر کی سیاسی بنیادوں پر تعیناتی، پاکستان کے مفاد میں بالکل نہیں، وہاں ایک ایسا پیشہ ور سفیر ہونا چاہیے جس کا مرنا اور جینا صرف اور صرف پاکستان سے منسلک ہو۔ اگر ہم ذاتی سیاسی مفادات کی خاطر ملکی مفادات سے غداری نہ کریں تو پاکستان کی خوشحالی ایک راکٹ کی طرح فضا میں بلند ہو سکتی ہے۔ ہندوستانی سفیر کہتا ہے کہ خطے کی صورتحال پہلے ہی پاکستان کے حق میں تبدیل ہونا شروع ہو چکی ہے، چونکہ استنبول کانفرنس میں روس، چین، ایران اور ازبکستان وغیرہ 2014ء کے بعد کے افغانستان میں امریکی اڈوں کو بند کروانے کے حوالے سے اکٹھے کھڑے نظر آئے۔
 
چونکہ روس، چین اور ایرانی یہ نہیں برداشت کر سکتے کہ ہندوکش پہاڑی سلسلے میں امریکی میزائل نصب ہو جائیں۔ اس کے علاہ ہندوستانی سفارت کار کے مطابق اگر اکیسوی صدی میں امریکہ اپنی توجہ بحر اوقیانوس پر مرکوز رکھنا چاہتا ہے تو اس کو چین کا مقابلہ کرنا ہو گا، جس کا اس خطے میں واحد ساتھی پاکستان ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو شنگہائی کواپریشن آرگنائزیشن کا ممبر بنایا گیا ہے۔
 
قارئین، پاکستان کو اب بہت جلد بڑے بڑے فیصلے کرنے ہونگے۔ مثلاً یہ کہ گہرے پانی والی گوادر بندر گاہ کو فوراً چین کے حوالے کیا جائے اور چین بدلے میں خنجراب پاس سے لیکر گوادر تک چھ رویا سڑک بنانے اور ریلوے لائن بچھانے کا منصوبہ شروع کرئے۔ روس کے ساتھ ایسے معاہدے ہوں کہ وہ پاکستانی سمندر میں اور زمین پر تیل اور گیس کے کنویں کھودے۔ اسی طرح کے معاہدے وسطی ایشیائی ریاستوں سے ہوں۔ اس کے علاوہ ایران سے گیس اور بجلی فوراً پاکستان تک لائی جائے اور گلگت اور کرغستان کو بھی انرجی کوریڈور بنایا جائے۔

 اگلی حکومت اور اسمبلی فوراً کالا باغ ڈیم بنائے اور سندھ میں کوئلے کے ذخائر کو کام میں لایا جائے۔ پاکستان فوج کو مکمل قومی فوج بنانے کیلئے بلوچستان سے مزید بھرتیاں کی جائیں۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی کوششوں سے آج ہماری تقریباً ساڑھے پانچ لاکھ فوج میں 82000 فوجی صوبہ خیبر پختون خواہ سے ہیں اور 81000 فوجیوں کا تعلق صوبہ سندھ سے ہے۔ اس کے علاوہ تقریباً 18000 ہمارے بلوچی نوجوان بھی فوج میں شریک ہو چکے ہیں اور مزید بھرتی کیے جا رہے ہیں۔ 

یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ 46000 فوجیوں کا تعلق آزاد کشمیر سے ہے اور کوشش یہ ہو رہی ہے کہ آبادی کے لحاظ سے فوج میں پانچوں صوبوں اور آزاد کشمیر کی نمائندگی ہو۔ یہ ہدف جلد حاصل کر لیا جائے گا۔ اس وقت کل پانچ لاکھ پچاس ہزار فوجیوں میں سے آبادی کے لحاط سے پنجاب کا 56% حصہ 265000 بنتا ہے۔ لیکن اس وقت پنجابی فوجیوں کی تعدار 290000 ہے یہ معمولی فرق بھی جلد دور کر لیا جائے گا۔
 
قارئین مجھے شک نہیں، پاکستان اللہ کے کرم سے معاشی لحاظ سے ایشین ٹائیگر بن سکتا ہے۔ بشرطیکہ قوم سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دیانت دار اور اہل قیادت سامنے لے کر آئے، جو قانون کی بالا دستی اور بہترین حکمرانی کو یقینی بنائیں۔ مجھے کامل یقین ہے کہ مجموعی قومی بصیرت کے استعمال اور ینک نیتی سے اپنے وطن کی مٹی سے ہی ملکی خوشحالی کے چشمے پھوٹ سکتے ہیں۔ شاعر نے کیا خوب کہا۔
اپنا قافلہ اسی عزم و یقیں سے نکلے گا
جہاں سے چاہیں گے رستہ وہیں سے نکلے گا
وطن کی مٹی مجھے ایڑیاں رگڑنے دے
مجھے یقیں ہے کہ چشمہ یہیں سے نکلے گا
خبر کا کوڈ : 120804
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش