0
Tuesday 13 Dec 2011 19:53

امریکی جبر و زیادتی کیخلاف پاکستان کا بولڈ سٹینڈ

کیا مستقل ہے یا حسبِ سابق دباؤ بڑھانے کے بعد پسپائی اختیار کر لینے کا حربہ؟
امریکی جبر و زیادتی کیخلاف پاکستان کا بولڈ سٹینڈ
تحریر:سیّد سلیم رضوی

پاکستان اگرچہ طویل عرصے سے ڈرون حملوں کے ذریعے نیٹو اور امریکہ کی آماج گاہ بنا ہوا تھا لیکن گذشتہ ادوار میں عاقبت نااندیش حکمرانوں نے اپنی نالائقیوں اور نااہلیوں سے خود کو سامراجی عزائم کا حصہ دار بناتے ہوئے امریکی بالادستی کے زیرِ اثر آنے کی روِش اپنائی اور اس تسلسل کو برقرار رکھنے کی مجبوری کے تحت موجودہ حکومت اور عسکری قیادت نے بھی دہشتگردی کے خلاف جاری نام نہاد جنگ میں شریک اور اتحادی ہونے کے باعث طوعاً و کرہاً اسے قبول کر رکھا تھا جبکہ اندر سے حکومتی و عسکری حلقے امریکہ کی جارحانہ کارستانیوں سے ازحد بیزار اور نالاں ہو چکے تھے۔
 
چنانچہ مہذب انداز میں باربار اسے بے جواز ڈرون حملوں سے باز رہنے کی گزارشات کرتے رہے۔ ایسا اِس لیے ضروری تھا کہ ان بے دریغ اور بے رحمانہ حملوں سے بے گناہ جانوں کے اِتلاف سے بچا جا سکے، جو کسی ایک دہشتگرد کا شک پڑنے پر اس کے بے جرم و خطا اعزہ و اقارب سمیت پورا گھر میزائل مار کر تباہ کر دیتے ہیں، لیکن متکبر و خودسر امریکیوں نے پاکستان کی ایک نہیں سنی۔ ان درخواستوں کو پاکستان کی کمزوری، لاچاری و بیچارگی پر محمول کرتے ہوئے ہر موقع پر یہ باور کرایا گیا کہ پاکستان امریکی خدمت انجام دینے کے عوض ڈالر لے کر کھاتا ہے، لہٰذا اس کا زرخرید اور باج گزار ہے اور اس کی دبی زبان سے برآمد ہونے والی کسی التجا اور درخواست کو درخورِاعتنا سمجھنا قطعاً غیرضروری ہے۔ پاکستانیوں کے ایک علانیہ قاتل ریمنڈ ڈیوس کی ڈرامائی رہائی اور فرار اس پاکستانی طرزِ عمل کی ایک ناقابلِ فراموش مثال ہے۔ 

امریکی جنگ بازوں کی دہشتگردانہ سرگرمیاں حدود و قیود سے اس قدر تجاوز کر چکی تھیں کہ خود اپنے اس فرنٹ لائن اتحادی پاکستان کی فوجی چوکیوں کو بھی نہیں بخشا اور اپنے ساتھ شریکِ جنگ اس مُلک کی سرحدوں کو تاراج کرتے ہوئے اس پر کاری وار کرنے سے بھی گریز نہیں کیا گیا۔ امریکی ایما پر نیٹو نے بے شرمی اور ہٹ دھرمی کی اِنتہا کرتے ہوئے متعدد بار کی ایسی سنگین کارروائیوں پر بعد میں نادانستہ غلطی کا بہانہ بنا کر معذرت کر لی، جسے خودداری کے منافی ہونے کے باوجود پاکستان کی طرف سے قبول کیا جاتا رہا۔
 
باراک اوباما نے اپنی الیکشن مہم کے دوران یہ بڑھک لگائی تھی کہ وہ اپنے دشمنوں کا پیچھا پاکستانی سرحدوں کے اندر تک کرے گا۔ اس وعدے اور ارادے پر عمل اس نے چند ماہ پیشتر ایک خصوصی آرڈر کے تحت پاکستان کو بغیر پیشگی اطلاع دیئے ایبٹ آباد میں واقع اسامہ بن لادن کی خفیہ اقامت گاہ پر شب کے آخری پہر میں دھاوا بول کر کیا اور اس کی سپیشل فورس کے اہلکار اپنے اس دشمن کو مار کر اس کی لاش بھی ہمراہ لے گئے۔ امریکہ کی طرف سے روا رکھی جانے والی ان لگاتار خرمستیوں نے پاکستان کا ناک میں دم کر رکھا تھا۔ لہٰذا پاکستانی قیادت اپنے طور پر یہ فیصلہ کر چکی تھی کہ بہت ہو چکا، اب امریکہ کو لگام دینے کے لیے راست اقدام کی ضرورت آپہنچی ہے۔
 
26 اور 27 نومبر کی درمیانی رات کی تاریکی میں کسی بددماغ کمانڈر کی ہدایت پر نیٹو گن شپ ہیلی کاپٹروں نے پاکستانی چیک پوسٹس پر ہلّا بول دیا۔ اس شب خون میں 24 پاکستانی فوجی جوانوں کی شہادت کی اطلاع عام ہوئی تو امریکی جارحانہ پالیسی کے خلاف پائی جانے والی نفرت اور بیزاری کا لاوا پھٹ پڑا۔ پاکستانی عسکری و سیاسی قیادت نے بغیر کسی تأمّل اور توقف کے اپنا شدید اور بے لچک ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے تین اہم فیصلے، اٹل عزم اور ارادے کے ساتھ ظاہر کر دیے۔

جن کے تحت پاکستان اپنے علاقوں پر ڈرون حملوں کے ذریعے تباہی ڈھانے والے اہم امریکی مستقر المعروف شمسی ایئر بیس کو دو ہفتوں کے اندر خالی کرنے کا حکم نامہ جاری کرنے کے علاوہ اپنی سرزمین سے نیٹو سپلائی لائن بلاک کرنے اور افغانستان میں قیامِ امن کے نام پر بلائی جانے والی بون کانفرنس کے بایئکاٹ کے فیصلے پر پوری قوت سے قائم رہا۔ اعلٰی عسکری و سیاسی قیادت نے اس ننگی جارحیت کے جواب میں اٹھائے جانے والے مذکورہ اقدامات سے باز رہنے کی ہر ڈکٹیشن اور درخواست کو سختی سے رد کر دیا، ان کا بالاصرار کہنا ہے کہ نیٹو حملہ بلااشتعال اور دیدہ و دانستہ پری پلان کارروائی تھی، یہ کوئی غیراِرادی اور غلط فہمی پر مبنی فعل نہیں تھا۔ 

وہ بیک زبان کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کو اعلانِ جنگ تصور کیا جائے گا، اگر اس کی خودمختاری کے خلاف کوئی جسارت آئندہ ہوئی تو اس کا تباہ کن جواب دیا جائے گا۔ چنانچہ مغربی سرحدوں پر فضائی نگرانی کے جدید آلات نصب کیے جا رہے ہیں اور امریکی و نیٹو دراندازی کا دندان شکن جواب دینے کی تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں۔ پاکستانی اِنتباہ اور الٹی میٹم کے اعلان کے اگلے چند روز میں امریکی طیارے شمسی ایئر بیس سے اپنا ساز و سامان لاد لے جانے کے لیے پہنچ گئے اور یہاں ڈیرہ جمائے بیٹھے امریکی جارح فوجیوں کے انخلا کے سوا اُن کے پاس کوئی چارہ نہ رہا۔ 

اب حال یہ ہے کہ افغان سرزمین پر دندناتی امریکی اور نیٹو افواج کو راشن پانی کی شدید قلّت کا سامنا ہے اور اس کی ترسیل کے متبادل راستے تلاش کئے جا رہے ہیں اور ساتھ ہی یہ گیدڑ بھبکیاں بھی بعض امریکی انتظامی عہدیداروں کی طرف سے سنائی دے رہی ہیں کہ بون کانفرنس میں عدم شرکت پر بضد رہتے ہوئے پاکستان نے خود اپنا ہی نقصان کیا اور شمسی ایئربیس خالی کرنے کے باوجود پاکستان پر ڈرون اٹیک جاری رہیں گے۔ لیکن اب وقت بہت آگے جا چکا ہے۔ پاکستان کو ڈومور کے ناروا تقاضوں سے دھونس اور دباؤ میں رکھنے کے عادی امریکیوں کا یہ لب و لہجہ کھسیانی بلی کھنبا نوچے سے زیادہ کچھ اہمیت نہیں رکھتا کیونکہ پاکستان نے بہت سوچ سمجھ کر خودداری اور خودآگاہی کی راہ پر قدم رکھ دیا ہے۔
 
ایران کے حوالے سے تازہ اطلاع یہ ہے کہ اس نے چند روز پیشتر ایٹمی و دفاعی تنصیبات کی جاسوسی کے لیے آنے والے جس امریکی ڈرون طیارے کو اپنی فضائی حدود کے اندر مار گرایا، امریکہ نے ایران سے اس کا ملبہ واپس کرنے کی مضحکہ خیز درخواست کی ہے اور کہا ہے کہ یہ طیارہ ’’غلطی‘‘ سے ایران میں چلا گیا تھا، لیکن ایران نے اس جواز اور بہانے بازی کو مسترد کرتے ہوئے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ اب وہ اِسی کی طرز پر خود اپنے طور پر ڈرون تیار کریں گے۔ یعنی امریکہ اتنی جرأت نہیں رکھتا کہ ایران سے زور زبردستی دکھا کر اپنے طیارے کا ملبہ طلب کرے، جیسا کہ ماضی میں اس نے پاکستانی حدود میں گرائے جانے والے ڈرون طیارے کے پر پُرزے واپس لے لیے تھے، (اس ڈرون کو گرانے کا دعویٰ پاکستان میں برسرِعمل طالبان جنگجوؤں نے کیا تھا)۔
 
ایران نے امریکی ڈرون گرا کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ امریکہ و اسرائیل کی طرف سے ایسی کسی بھی بزدلانہ کارروائی کا موقع پر ہی جواب دینے کے لیے ہر لحظہ چوکس اور چوکنا ہے اور اس کی پوری طاقت اور صلاحیت رکھتا ہے۔ ان تازہ ترین واقعات سے امریکی بالادستی کے تأثر پر ضرب لگ چکی ہے اور اس کے ناقابلِ تسخیر ہونے کا زعم آخری ہچکیاں لے رہا ہے۔ اس کے باطل ارادے ریزہ ریزہ ہو کر بکھر رہے ہیں۔ وہ وقت آگیا ہے کہ امریکہ آبرومندی سے نہیں بلکہ ذلیل و خوار ہو کر اس خطے سے نکلے گا اور اپنے ہمراہ عبرت اور ہزیمت کی وہ داستان لے کر جائے گا کہ آئندہ اسے کسی دوسرے مُلک کی عزت و آزادی پر ہاتھ ڈالنے کی جرأت نہ ہو سکے گی۔ 
خبر کا کوڈ : 121926
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش