0
Monday 28 Sep 2009 13:12

پاکستان کیلئے کیری لوگر بل کی شرمناک شرائط

پاکستان کیلئے کیری لوگر بل کی شرمناک شرائط
اخباری اطلاعات کے مطابق کیری لوگر بل کے تحت پاکستان کو سالانہ ڈیڑھ ارب ڈالر امداد کے حصول کیلئے امریکہ کی بعض ایسی سخت شرائط تسلیم کرنا پڑیں گی جو ہماری آزادی،خودمختاری اور قومی سلامتی کے منافی ہیں۔ سالانہ ڈیڑھ ارب ڈالر کی امداد کیلئے امریکہ نے شرط عائد کی ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کے غیر قانونی نیٹ ورکس کے خلاف کارروائی میں پاکستان امریکہ کے ساتھ تعاون جاری رکھے گا اور ضرورت ہوئی تو ایسے نیٹ ورک سے وابستہ کسی بھی پاکستانی تک امریکہ کو رسائی فراہم کرنیکا پابند ہو گا۔ ایک اور شرط یہ ہے کہ پاکستان کی حکومت کسی ایسے عنصر یا گروہ کی حمایت نہیں کریگی جو امریکہ و افغانستان میں اتحادی افواج کے علاوہ پڑوسی ممالک پر حملوں میں ملوث رہ چکے ہیں ۔پاکستان القاعدہ و طالبان یا ان سے منسلک دہشت گرد گروپوں مثلاً لشکر طیبہ اور جیش محمد کو پڑوسی ملکوں پر حملوں کیلئے اپنی سرزمین استعمال نہیں کرنے دیگا اور پاک فوج، انٹیلی جنس ایجنسی سے وابستہ، ایسے افراد اور عناصر کی حمایت نہیں کی جائیگی جو دہشت گردوں کی براہ راست یا بالواسطہ امداد میں ملوث ہوں گے۔
موجودہ حکومت کیری لوگر بل کی امریکی سینٹ سے منظوری کو اپنا سب سے بڑا کارنامہ قرار دے رہی ہے اور اسے صدر آصف علی زرداری کے دورہ امریکہ کی کامیابی کا ثمر قرار دیا جا رہا ہے حکومت کی طرف سے یہ بھی دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ کیری لوگر بل میں بھارت نے اپنے دوست ارکان کانگریس کے ذریعے جو ناروا شرائط شامل کرائی تھیں وہ زبردست سفارت کاری سے ختم کرا دی گئی ہیں اور اب یہ بل پاکستان میں اقتصادی امداد کا بہترین بل ہے جس سے ترقی اور خوشحالی کے دروازے کھلیں گے جبکہ بیرونی سرمایہ کاری میں بھی بے تحاشہ اضافہ ہوگا لیکن سینٹ سے منظور شدہ مسودہ سامنے آنے کے بعد جن شرائط کا انکشاف ہوا ہے وہ پوری قوم کیلئے شرمندگی، غم و غصے اور پشیمانی کا باعث ہے کیونکہ ان توہین آمیز شرائط کو پورا کرنا نہ تو کسی ریاستی ادارے کیلئے ممکن ہے اور نہ پاکستانی قوم انہیں قبول کر سکتی ہے۔
پاکستانی عوام کی یہ دیرینہ خواہش ہے کہ ملک میں آئین کی بالادستی، پارلیمنٹ کی خودمختاری اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنایا جائے اور پاک فوج ملک کے سیاسی و عدالتی نظام میں کبھی مداخلت نہ کرے یہ ہماری قومی ضرورت بھی ہے اور فوج کے پیشہ وارانہ کردار کا تقاضہ بھی۔ پاکستانی قوم بخوبی جانتی ہے کہ ملک میں فوجی اقتدار ہمیشہ امریکہ کے مفادات کو آگے بڑھانے میں مدد گار ثابت ہوا ہے اور فوجی مداخلت کا راستہ امریکہ ہموار کرتا رہا ہے ۔ امریکہ کی مدد سے ہی فوجی آمر عشرہ ترقی مناتے رہے ہیں لیکن قوم نے یہ خواہش کبھی نہیں کی کہ امریکہ کی ڈکٹیشن قبول کرتے ہوئے پاک فوج سیاسی اور عدالتی معاملات میں مداخلت سے باز رہے کیونکہ یہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے اور ہم بحیثیت قوم اس قدر ذہنی اپاہج اور مفلس نہیں کہ اس سلسلے میں بھی امریکہ کو مداخلت کی ضرورت پیش آئے جبکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس شرط کو امریکہ ہمیشہ اپنے سیاسی علاقائی مفادات اور مقاصد کیلئے استعمال کریگا اور فوجی امداد روکنے کا ایک مستقل بہانہ اس کے ہاتھ میں آجائیگا وہ کسی بھی معمولی واقعہ کو فوج کی مداخلت کے امکان سے تعبیر کر کے 1965ء اور 1971ء کی طرح فوجی امداد روکنے کیلئے استعمال کریگا اور بھارت اس سے غیر معمولی فائدہ اٹھائیگا۔
ایٹمی نیٹ ورک سے وابستہ کسی شخص تک امریکی رسائی کی شرط براہ راست ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ان کے دیگر ساتھی سائنسدانوں سے امریکی اداروں کی تحقیق و تفتیش کی راہ ہموار کرنا ہے کیونکہ ان ایٹمی سائنس دانوں کا اصل مقصد یہ ہے کہ انہوں نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنایا اور امریکہ و یورپ کی پابندیوں کے علاوہ اسلام دشمن عزائم کو خاک میں ملا دیا۔ اگر خدانخواستہ امریکہ کے اسلام دشمن اداروں کو ڈاکٹر عبدالقدیر خان تک رسائی دیدی گئی تو یہ ہمارے ایٹمی و میزائل پروگرام ہی نہیں بلکہ دفاع و سلامتی کے سارے منصوبوں کو ملیامیٹ کرنے کا نقطہ آغاز ہو گا اور پھر دیگر کئی افراد اور قومی سلامتی کے ادارے بھی تحقیقات کی لپیٹ میں آسکتے ہیں اس لئے یہ شرمناک شرط قبول کرنا خودکشی کے مترادف ہے۔
امریکی و اتحادی افواج کے علاوہ پڑوسی ملک میں حملوں میں ملوث عناصر کی ریاستی حمایت ختم کرنے اور مریدکے، کوئٹہ میں قائم دہشت گردوں کے اڈے ختم کرنے کی شرط بھی پاکستان کیلئے گونا گوں مصائب کو دعوت دینے کے مترادف ہے پڑوسی ملک سے مراد ظاہر ہے کہ بھارت کے سوا کوئی اور نہیں اور بھارت جہاد کشمیر کو دہشت گردی کا نام دیتا ہے۔ حافظ سعید اور دیگر جن افراد یا جماعتوں کو وہ دہشت گرد قرار دیتا رہا ہے ان کا اصل قصور جموں و کشمیر میں بھارت کی ریاستی دہشت گردی کو چیلنج کرنا اور مسلمہ حق خودارادیت کے حصول کیلئے کشمیری عوام کی جدوجہد میں حصہ لینا ہے ۔ افغانستان میں جاری جدوجہد افغان عوام کی ہے اور امریکہ کی اپنی غلطیوں کی وجہ سے وہاں اتحادی افواج شکست کا سامنا کر رہی ہیں طالبان قیادت اپنے ملک کی آزادی کیلئے جو کچھ کر رہی ہے وہ پاکستان یا اس کے کسی ادارے کے تعاون سے نہیں بلکہ اپنے بل بوتے پرکر رہی ہے لیکن پاکستان کی جذبہ جہاد سے سرشار فوج، قومی مفادات اور سلامتی کا تحفظ کرنے والی خفیہ ایجنسیوں کا گھیرا تنگ کرنے کیلئے یہ ناروا شرط رکھی گئی ہے۔ تاکہ جب چاہے امریکہ شرائط کی خلاف ورزی کا الزام لگا کر نہ صرف ان اداروں کے خلاف منفی پروپیگنڈے اور اقدامات کا محاذ کھول سکے بلکہ امداد بند کرسکے۔ ان شرائط پر عملدرآمد کیلئے اسلام آباد میں جو انفراسٹرکچر مسز رابن رافیل کی قیادت میں کھڑا کیا جا رہا ہے اس پر قوم اپنے جذبات کا اظہار کر چکی ہے اگر حکومت نے ان شرائط کو قبول کرتے ہوئے ہر چھ ماہ بعد امریکی وزیر خارجہ کی طرف سے شرمناک اور قومی حمیت کے منافی سرٹیفکیٹ حاصل کرنے پر آمادگی ظاہر کر دی ہے تو قوم اسے کسی قیمت پر قبول نہیں کریگی اور اس کا احساس صدر آصف علی زرداری کو پہلی قسط وصول کرنے سے پہلے ہی ہو جائیگا۔ یہ پاکستان کی پارلیمنٹ، حکومت، قوم، عدلیہ، خفیہ ایجنسیوں اور دیگر قومی اداروں پر بالواسطہ کنٹرول کی پالیسی ہے جو ایک آزاد، خودمختار نیو کلیر اسلامی ریاست کو مفلوج کر سکتی ہے لہٰذا حکومت اس بل کو مسترد کردے جبکہ میاں نوازشریف سمیت تمام سیاستدانوں اور سیاسی و مذہبی جماعتوں کو بھی اس کے خلاف کھل کر آواز اٹھانی چاہئے اور تعمیر و ترقی کے کھوکھلے نعروں کے ذریعے غلامی کا یہ طوق قوم کے گلے میں نہیں ڈالنا چاہئے۔
خبر کا کوڈ : 12278
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش