0
Saturday 17 Dec 2011 13:03

ایران کا جرأت مندانہ کارنامہ

ایران کا جرأت مندانہ کارنامہ
تحریر:سلیم یزدانی

ایران نے امریکی ڈرون کو اتار کر ایک ایسا کارنامہ انجام دیا ہے جس سے امریکی انتظامیہ، پینٹاگون اور سی آئی اے کی ساکھ کو تو بڑا دھچکا لگا ہی ہے، اس کے اثرات مشرق وسطٰی، جنوبی ایشیاء اور افغانستان میں بھی امریکی مفادات کیلئے نقصان دہ ہوں گے۔ جدید ٹیکنالوجی میں امریکہ کی برتری کو نہ صرف پہلی بار چیلنج کیا گیا ہے بلکہ یہ ثابت ہو گیا ہے کہ آئندہ صرف امریکہ CYBER WAR میں بالادست پوزیشن میں نہیں ہو گا بلکہ بعض دوسرے ممالک بھی اس کی حیثیت کو ختم کر دیں گے۔ 

ایران نے امریکی ڈرون کو اتارنے کی جو تفصیلات اب تک ظاہر کی ہیں اس نے سی آئی اے کے انفرااسٹرکچر کو ہلا کر رکھ دیا ہے، اب سی آئی اے کے چیف کے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے کہ وہ مستعفی ہو جائے، اس لئے کہ اس سے سی آئی اے کی مجرمانہ کارروائیوں کا انکشاف ہو گیا ہے، جس سے امریکی حکومت کی پوزیشن دنیا کے فورم پر ایک ایسے ملک کی ہو گئی ہے جو دوسرے ملکوں کے خلاف غیر قانونی کارروائیوں کا ایک تسلسل کے ساتھ مرتکب ہو رہا ہے، جو کسی بھی ملک کے خلاف ایک بڑی جارحیت ہے۔
 
اگر غور کیا جائے تو یہ ایک دن کا کام نہیں ہے، چند لمحوں کا کام نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ایران کے پاسداران انقلاب کے CYBER WAR-FARE یونٹ بڑی خاموشی سے اس پروجیکٹ پر کام کر رہے تھے اور آخر کار وہ انجینئر اور سائنسدان اپنے مشن میں کامیاب ہو گئے، انہوں نے ڈرون کے فلائیٹ کنٹرول سسٹم کو ہیک کر لیا اور اسے زمین پر اترنے کی موثر کمانڈ کے ذریعے اتار لیا اور اب وہ ایران کے قبضے میں ہے اور جب وہ اس کے راز معلوم کر لیں گے تو امریکہ کی پوزیشن اور بھی زیادہ خراب ہو جائے گی۔ 

ایران کے اس دعوے کی پوزیشن میں مجھے تو ذرا سا بھی شک نہیں ہے کہ اس نے ڈرون کے خفیہ کوڈز کو ڈی کوڈ کر لیا ہو گا، اس لئے کہ جب ایران نے ڈرون کو کمانڈ کے ذریعے اتار لیا ہے تو اس کے سسٹم کو بھی پوری طرح ڈی کوڈ کر لیا ہو گا۔ اگر ایسا ہے تو آئندہ امریکہ اس علاقے میں ڈرون کو حملوں کے لئے استعمال نہیں کر سکے گا اور یہ ایک واقعہ امریکہ کی پسپائی کیلئے کافی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے”سافٹ ویئر“ کو ڈی کوڈ کر لیا ہے، جبھی تو وہ اسے اتارنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ مزید خفیہ معلومات بھی وہ جلد جان جائیں گے۔
 
امریکہ نے سالوں پہلے سے ایران کے خلاف الیکٹرونک جاسوسی کا سلسلہ شروع کیا ہوا تھا اور ایران کو اس کا پتہ تھا۔ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک عرصے سے اس پر ضرب لگانے کیلئے کوشاں تھا اور جیسے ہی اس نے وہ صلاحیت حاصل کی، جرأت مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مشن پورا کر دیا۔ اس اقدام سے ان قوموں کے حوصلے بلند ہوں گے جو امریکی لاقانونیت سے متاثر ہو رہے ہیں، اس کا سب سے بڑا اثر افغانستان میں نیٹو اور امریکہ کی ایک لاکھ چالیس ہزار افواج پر پڑے گا۔ آج یہ کام ایران نے کیا ہے کل کوئی دوسرا ملک بھی کر سکتا ہے۔
 
امریکہ کے صدر بارک اوبامہ کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ وہ سی آئی اے اور پینٹاگون کی جنگجویانہ اور اسلام مخالف ذہنیت رکھنے والی قیادت سے چھٹکارا حاصل کریں۔ جس نے انہیں غلط راستے پر لگا دیا ہے۔ میں پہلے بھی اس سلسلے میں انہی کالموں میں اس کا مشورہ دے چکا ہوں۔ ان لوگوں کی پالیسی سے امریکہ کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ ایران کی امریکہ کے خلاف کامیابی کا راز یہ ہے کہ انہوں نے امریکہ کے جاسوسی کے نیٹ ورک کو اپنے ملک سے نیست و نابود کر دیا ہے اور امریکہ کے جاسوسی کے اداروں کی ناکامی کی ایک تاریخ ہے، جو ایرانی وزیر خارجہ قطب زادہ کی سزائے موت سے شروع ہوتی ہے، وہ سی آئی اے کا ایجنٹ تھا۔
 
21 اکتوبر 2005ء کے "جنگ" میں میرا ایک کالم چھپا تھا عنوان تھا ”ایران کا سنگین ہوتا ہوا ایٹمی تنازع“ اس میں، میں نے لکھا تھا ”بلاشبہ ایرانی باحوصلہ لوگ ہیں اور بڑی حد تک منظم بھی ہیں، ان کی منتخب لیڈر شپ اسٹینڈ بھی لے سکتی ہے اور لے رہی ہے۔ ان کے لئے پریشان کن صورت حال یہ ہے کہ وہ تنہا ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو ایران کئی سالوں سے حالت جنگ میں ہے۔ آپ کہیں گے کس طرح، تو اس کا جواب یہ ہے کہ امریکہ کے جاسوسی سیارچے، جاسوسی کرنے والے بلندیوں میں پرواز کرنے والے U-2 اور دوسرے ریڈار کے اسکرین پر نظر نہ آنے والے طیارے ایران کے فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے لمحہ بہ لمحہ کی تصاویر اور نقل و حرکت کی فلمیں حاصل کر رہے ہیں۔ ایران کی جوہری تنصیبات جہاں بھی ہیں، وہاں جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کی اطلاعات امریکہ کے جاسوسی کے مراکز میں پہنچ رہی ہیں۔ امن کے حالات میں کسی بھی ملک کے خلاف اس قسم کی کارروائیوں کو جنگی حربہ ہی کہا جا سکتا ہے“۔
 
امام خمینی کے دور کی حکومتیں اور آج تک کوئی حکومت کسی بھی بڑی طاقت کے سامنے نہیں جھکیں۔ آج دنیا نے دیکھ لیا کہ امریکہ جارحیت کے کون کون سے حربے اور طریقے اختیار کرتا رہا ہے۔ مصر میں حسنی مبارک کا جو حشر ہوا، تیونس میں حکومت کس طرح گئی، یمن میں تبدیلی نہیں روکی جا سکی، مشرق وسطٰی میں سیاست اور طاقت کا کھیل نئے راستے بنا رہا ہے، جو امریکی مفادات کے خلاف جائیں گے۔
 
افغانستان میں امریکی مفادات کی نگرانی کسی بھی حکومت کے بس کی بات نہیں۔ صدر اوباما کو فوجی قیادت اور سی آئی اے نے افغانستان میں پھنسایا، جب امریکی صدر منتخب ہونے کے بعد افغانستان سے نکلنے کی پلاننگ کر رہے تھے۔ امریکی فوجی قیادت نے امریکہ کی سول قیادت کو گمراہ کن اطلاعات فراہم کیں اور صدر اوباما نے افغانستان میں مزید 35000 فوج بھیجوائی، اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اگر صدر اوباما امریکی فوجی قیادت، سی آئی اے اور ”نیو کنزر ویٹو“ گروپ کے جھانسے میں نہ آتے تو امریکہ بامقصد مذاکرات کے بعد وہاں سے نکلنے کی تیاری کر رہا ہوتا۔
 
امریکہ افغانستان سے نکلے گا تو ضرور، لیکن اسی حالت میں جیسے وہ ویتنام سے، صومالیہ سے نکلا تھا، اگر اس نے ہوشمندی سے کام نہیں لیا۔ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات بھی میمو گیٹ کی وجہ سے تشویشناک حد تک بگڑ رہے ہیں۔ نیٹو فورسز کا دانستہ حملہ ایک سازش ہے کہ پاکستان کے عوام کا اعتماد اپنی فوج پر سے اٹھ جائے، لیکن اس کے اثرات مختلف ظاہر ہو رہے ہیں۔ 

وہ ریمنڈ ڈیوس کا واقعہ ہو یا اسامہ بن لادن کو موت کے گھاٹ اتارنے کا واقعہ، اس کی روشنی میں اب یہ ضروری ہو گیا ہے کہ پاکستان سے سی آئی اے کے نیٹ ورک کو اکھاڑ کر پھینک دیا جائے، ورنہ پاکستان کے خلاف سازشوں کا سلسلہ ختم نہیں ہو گا۔ عالمی امن کی خاطر امریکہ کو مذاکرات کے ذریعے افغان اور عرب اسرائیل تنازع حل کرنے کیلئے کام شروع کرنا چاہئے، بس یہی ایک راستہ ہے۔
"روزمامہ جنگ"
خبر کا کوڈ : 122883
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش