1
0
Monday 2 Mar 2009 13:23

اقوام متحدہ کا افسوسناک کردار

اقوام متحدہ کا افسوسناک کردار
امریکا نے سوڈان کے صدر عمرالبشیر کے گرد گھیرا تنگ کردیا ہے اور اقوام متحدہ کی مدد سے ان کی گرفتاری اور دارفور میں انسانیت کے خلاف اُن کے مبینہ جنگی جرائم پر انٹرنیشنل کرمنل کورٹ ہیگ میں ان پر مقدمہ چلانے کی کوششیں تیز کردی ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس کارخیر میں اقوام متحدہ کو برطانیہ، فرانس اور امریکا کی بھرپور حمایت حاصل ہے‘ البتہ مشکل یہ آپڑی ہے کہ صدر عمرالبشیر پر فردِ جرم عائد کرنے اور انہیں گرفتار کرنے کی کوششوں میں افریقی اور مسلم ممالک کے متحدہ محاذ کی شدید مخالفت آڑے آرہی ہے جسے چین اور روس کی حمایت بھی حاصل ہے۔ افریقی یونین، عرب لیگ، او آئی سی اور گروپ 77کے نام سے معروف اقوام متحدہ کے بااثر گروپ اور چین نے سوڈان کے اس مطالبے کی بھرپور حمایت کی ہے کہ انٹرنیشنل کرمنل کورٹ صدر عمرالبشیر پر مقدمہ چلانے کی کوششوں سے باز رہے۔ سوڈانی حکام نے خبردار کیا ہے کہ ان پر فرد ِجرم عائد ہونے کی صورت میں اگر اقوام متحدہ یا غیر ملکی ادارے عوام کے غیظ و غضب کا نشانہ بنے تو وہ اس کے قطعاً ذمہ دار نہیں ہوں گے۔ واضح رہے کہ سوڈان میں اقوام متحدہ کے 20ہزار سے زائد اہلکار تعینات ہیں جب کہ غیر سرکاری تنظمیوں اور امدادی اداروں کے سیکڑوں افراد بھی وہاں کام کررہے ہیں۔ مغربی سفارت کاروں کا بھونڈا استدلال یہ ہے کہ مقدمہ ختم یا ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو آئی سی سی کی ساکھ تباہ ہوجائے گی اور چیف پراسیکیوٹر لوئی مورینواوکامپو مستعفی ہونے پر مجبور ہوجائیں گے۔ ادھر برطانیہ، فرانس اور امریکا کا کہنا ہے کہ ان کو لاطینی امریکی ممالک‘ جاپان اور یورپی ملکوں کی حمایت حاصل ہے۔ جہاں تک اقوام متحدہ کی ساکھ کا تعلق ہے‘ تو وہ کب کی برباد ہوچکی اور آج اس کا وجود ایک سوالیہ نشان بنا ہوا ہے۔ اگر اس نے اقوام عالم میں غیرجانبداری اور انصاف پر مبنی مثبت کردار ادا کرنے سے گریز کا سلسلہ جاری رکھا تو اس کا حشر بھی لیگ آف نیشنز سے مختلف نہیں ہوگا جو مفسد اور شورہ پشت مگر طاقتور ریاستوں کی خوشنودی کی خاطر ان کے اشاروں پر رقص کرنے کے لیے مشہور تھی‘ اور اس کا یہی طرزعمل بالآخر اسے لے ڈوبا۔ دوسری جنگ ِعظیم کے بعد اقوام متحدہ کے قیام کے اصل اغراض و مقاصد کو پس پشت ڈال دیا گیا اور اب یہ ادارہ بھی سپرطاقتوں کی کٹھ پتلی بن کر کھلی جانبداری اور ناانصافی کی علامت بن چکا ہے۔ اس کے نزدیک امریکا، سفید فام مغربی ممالک اور ان کی پروردہ جرائم پیشہ قوتوں کا ہر جرم قابل معافی اور مغربی طاقتوں کے حکم سے سرتابی کی جسارت کرنے والے سیاہ فام اور گندمی رنگت کے باشندوں کی سرکوبی اور انہیں قانون کے شکنجے میں جکڑنا ہی اقوام متحدہ کا فرضِ منصبی ہے۔ اسرائیل کو بین الاقوامی قانون اور جنیوا کنونشن کی دھجیاں اڑانے اور آئے دن بے گناہ نہتے فلسطینی مسلمانوں کے سفاکانہ قتل عام کی کھلی چھوٹ ہے۔ اقوام متحدہ کو فلسطین، افغانستان، عراق، مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی نسل کشی اور خونِ مسلم کی ارزانی نظر نہیں آتی مگر آچے اور دارفور میں عیسائی آبادی کے حقوق کی مبینہ پامالی کے خلاف من مانی کارروائی میں ایک لمحہ کی بھی تاخیر روا نہیں رکھی جاتی۔ سوڈان ایک مسلم ملک ہے اور صدر عمرالبشیر کا سب سے بڑا جرم یہی ہے کہ وہ ایک راسخ العقیدہ مسلمان ہیں اور اسلامی نظام رائج کرنا چاہتے ہیں۔ دارفور میں عیسائیوں کی کثیر آبادی نے اسلام دشمن امریکی اور مغربی استعماری طاقتوں کا کام آسان کردیا۔ پہلے انہوں نے دارفور میں مسلم اور عیسائی آبادی کے درمیان اختلافات کو ہوا دی اور پھر تصادم اور فسادات کی آگ بھڑکاکر اب اسے منطقی انجام تک پہنچانے کی ذمہ داری اقوام متحدہ کو سونپ دی گئی۔ اب برطانوی اور فرانسیسی سفارت کار آئی سی سی کی کارروائی رکوانے اور اسے معرض التواءمیں ڈالنے کی کوششوں میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکا نے انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کے قیام کے معاہدے پر دستخط بھی نہیں کئے ہیں مگر صدر عمرالبشیر کے خلاف مقدمہ اور انہیں سزا دلوانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے۔ اقوام متحدہ میں امریکا کی نئی سفیر سوسن رائس نے اپنی پہلی پریس کانفرنس کے موقع پر دارفور میں جاری ”نسل کشی“ کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اوباما نے سوڈان کے مسئلے پر سابق انتظامیہ سے کہیں زیادہ سخت رویہ اختیار کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون بے بس اور امریکا اور مغرب کے مفادات کے نگران ہیں سو وہ اپنی ذمہ داری پوری کررہے ہیں۔ سیکرٹری جنرل بان کی مون کا کہنا ہے کہ ایتھوپیا کے دارالحکومت عدیس ابابا میں افریقن یونین کی سربراہ کانفرنس کے موقع پر انہوں نے صدر عمرالبشیر کو ذاتی طور پر متنبہ کردیا تھا کہ وہ امریکا اور مغربی طاقتوں کو انتقامی کارروائی پر اکسانے سے احتراز کریں۔ یوں اقوام متحدہ کے سربراہ نے اپنا فرض ادا کردیا اور اب انہیں حقِ نمک ادا کرنا ہے۔ تاہم سوڈان کے ترجمان نے یہ بات پوری طرح واضح کردی ہے کہ صدر عمرالبشیر کے آئی سی سی کے سامنے پیش ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دارفور کے مسئلے پر انٹرنیشنل کرمنل کورٹ پہلے بھی سوڈان کے وزیرمملکت برائے امور داخلہ احمد محمد ہارون کے علاوہ ایک اور سوڈانی افسر کو جنگی جرائم کا مرتکب قرار دے چکی ہے مگر بعض حلقے بجاطور پر اسے ”گوروں کا انصاف“ قرار دیتے ہیں جس کا تازہ ترین اور منہ بولتا ثبوت یہ ہے کہ کوسوو  میں جنگ کے دوران مسلمانوں کی منظم نسل کشی اور انسانیت سوز مظالم کے مرتکب سربیا کے سابق صدر میلان میلوسیوک کو بری کردیا گیا ہے۔ ہیگ میں سابق یوگوسلاویہ کے جنگی جرائم سے متعلق عدالت (آئی سی سی ٹریبونل) کے جج آئن بونومی نے جمعرات 26 فروری 2009ءکو فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ دسمبر 1997ءسے دسمبر 2002ءتک سربیا کی صدارت کے دوران میلوسیوک کو یوگوسلاوی فوج پر براہِ راست کنٹرول حاصل نہیں تھا اس لیے ان کو بری کیا جاتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 1238
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

HHIS I suhold have thought of that!
ہماری پیشکش