0
Friday 23 Dec 2011 16:59

طالبان امریکہ اور پاکستان

طالبان امریکہ اور پاکستان
 تحریر:محمد علی نقوی

امریکا کے نائب صدر جوبائیڈن نے کہا ہے کہ طالبان نہ تو امریکا کے دشمن ہیں اور نہ ہی ان سے امریکی مفادات کو کوئی خطرہ ہے، ان سے مذاکرات ہونے چاہئیں۔ امریکی نائب صدر جوبائیڈن نے امریکی جریدے نیوز ویک کو انٹرویو دیتے ہوئے جو گزشتہ پیر کو شائع ہوا ہے کہا کہ ”امریکا افغان حکومت اور طالبان میں مصالحت کے عمل میں تعاون کر رہا ہے خواہ یہ مصالحت ممکن ہو یا نہ لیکن یہ واضح ہے کہ طالبان ہمارے دشمن نہیں ہیں“۔ وائٹ ہاوس نے بھی جوبائیڈن کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ امریکا نے افغانستان پر اس لیے حملہ نہیں کیا تھا کہ وہاں طالبان کی حکمرانی ہے۔ وائٹ ہاوس کے پریس سیکرٹری جے کارنی نے کہا کہ طالبان نہیں، القاعدہ امریکا کی دشمن ہے، جس نے افغانستان سے امریکا پرحملہ کیا۔ جے کارنی نے اپنی اسی احمقانہ توجیہہ پر زور دیتے ہوئے مزید کہا کہ ”ہرچند کہ امریکا 2001ء سے طالبان سے لڑ رہا ہے لیکن اس کا مقصد عسکری گروپ کو ختم کرنا نہیں تھا۔
 
طالبان کی پیدائش، لائحہ عمل اور اب تک کی کارکردگی پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار شروع ہی سے یہ کہتے چلے آ رہے ہیں کہ طالبان اور امریکہ دشمن نہیں دوست ہیں اور ان کی ملی بگھت کے پیچھے کوئی اور اھداف ہیں، امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے کچھ عرصہ پہلے باقاعدہ اعتراف کیا کہ حقانی گروہ کو امریکہ نے انیس سو اسی کے عشرے میں جنم دیا۔ امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ اگر یوٹیوب چینل دیکھا جائے تو وہائٹ ہاؤس میں سراج الدین حقانی اور سابق امریکی صدر ریگن ایک ساتھ نظر آ جائيں گے۔ 

امریکی وزیر خارجہ کے یہ بیانات جس کی مثال کم ہی ملتی ہے، اس حقیقت کی عکاس ہے کہ حقانی سمیت طالبان کے خطرناک دہشتگرد گروہ کو سی آئی اےنے ہی جنم دیا ہے۔ اس تعاون کی کہانی تقریباً تیس سال پرانی ہے۔ اس زمانے میں امریکہ نے افغانستان میں سابق سویت یونین کی سرخ فوج کو شکست دینے کے لئے ایسے گروہوں کو مسلح کیا جو بعد میں امریکہ کی اس فہرست میں نظر آئے، جن کے دہشتگرد ہونے کا امریکہ دعویدار ہے۔ 

ان دہشتگرد گروہوں میں سب سے زیادہ مشھور القاعدہ ہے جس کا سرغنہ بن لادن تھا جس نے سی آئی اے کے کیمپ میں ٹریننگ لی تھی اور لمبے عرصے تک افغانستان میں امریکہ کا اتحادی اور یار و مددگار تھا۔ بن لادن کے تمام عناصر نے سی آئي اے کے کیمپ میں ہی ٹریننگ لی تھی اور انھیں تباہ کن میزائل اسٹینگر سے مسلح کیا گیا تھا۔ طالبان نے بھی اپنی تشکیل کے بعد افغانستان سے روسیوں کے نکلنے کے بعد اس ملک پر مسلط ہونے کے لئے اسی راستے کو طے کیا۔ اس تباہ کن گروہ کو برسوں تک امریکہ کی سیاسی حمایت حاصل تھی اور علاقے میں واشنگٹن کےدو قریبی اتحادی پاکستان اور سعودی عرب واشنگٹن کی اجازت سے اس گروہ کو اسلحہ اور بجٹ فراہم کرتے تھے۔ 

البتہ القاعدہ اور طالبان کی نسبت، حقانی گروہ کا نام کم ہی سننے میں آتا تھا۔ ابھی کچہ مہینے پہلے امریکی کمانڈوز کے ہاتھوں پاکستان میں سی آئی آے کے اس گہرے دوست کے قتل سے پہلے تک، حقانی گروہ کی سرگرمیاں واشنگٹن کے لئے کچہ زيادہ اہمیت کی حامل نہيں تھیں۔ لیکن اس مہم میں پاکستان کے اقتدار اعلٰی کی خلاف ورزی پر اسلام آباد کے شدید ردعمل نے ایسا ماحول پیدا کر دیا کہ واشنگٹن نے اسلام آباد پر دباؤ ڈالنے کے لئے حقانی گروہ اور اس کے پاکستانی فوج کے ساتھ رابطے کا موضوع اٹھایا۔ 

امریکہ کے جریدے فارن پالیسی ان فوکس کے ایک تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ امریکہ نے طالبان کو تین سو ساٹھ میلن ڈالر کا تاوان دیا ہے، یہ ایک بڑی رسوائي کا بہت چھوٹا سا نمونہ ہے۔ کان ہیلینن نے پریس ٹی وی سے گفتگو میں کہا کہ جو بات امریکی کانگریس کے اراکین کے سامنے آئي ہے وہ امریکی رسوائی کا ایک بہت چھوٹا نمونہ ہے، کیونکہ امریکی فوج کی جانب سے طالبان دہشتگردوں کو اس سے کہیں زیادہ پیسہ ملا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسی وجہ سے فارن پالیسی ان فوکس جریدہ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ افغانستان میں اربوں ڈالر تاوان کی مد میں خرچ ہوئے ہيں۔ 

انہوں نے کہا کہ امریکی حکومت نے نجی سکیورٹی کمپنیوں کو سکیورٹی کے معاملات سونپ کر ایک طرح سے جنگ کو بھی پرائيویٹ کر دیا ہے، کیونکہ پرائیویٹ سکیورٹی کمپنیوں کے اھلکاروں کی تعداد امریکی فوجیوں سے زیادہ ہے۔ یاد رہے ان ہی سکیورٹی کمپنیوں کے ذریعے طالبان کو پیسہ دیا جاتا ہے۔ قابل ذکر ہے طالبان اور القاعدہ جیسی دہشتگرد تنطیموں کو امریکہ نے ہی جنم دیا تھا اور انہيں ہمیشہ امریکہ کی مالی اور فوجی حمایت حاصل رہی ہے۔ القاعدہ اور طالبان نے ہمیشہ امریکہ کے مفادات کے لئے کام کیا ہے۔ایک تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ امریکہ میں لوگوں کے ادا کئے گئے ٹیکس میں سے چھتیس کروڑ ڈالر افغانستان میں طالبان کو دیئے گئے ہیں۔
 
پریس ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق ایک تحقیق کے مطابق یہ رقم افغان کمپنیوں کے ساتھ امریکی مالی معاہدوں کے ذریعہ افغانستان میں طالبان اور مقامی مجرمین کو دی گئی ہے۔ یہ تحقیق افغانستان میں نیٹو کے سابق کمانڈر ڈیوڈ پیٹریاس کی طرف سے تشکیل دیئے گئے ایک خصوصی ورکنگ گروپ نے کی ہے۔ واضح رہے کہ امریکہ کے زیر کمان نیٹو افواج افغانستان میں تقریبا" ایک عشرے سے جنگ میں مشغول ہیں اور ان کے افغان کمپنیوں اور طالبان اور مقامی مجرمین کے مابین قریبی رابطے ہیں، اس لئے امریکہ کی طرف سے ان کمپنیوں کو جو رقم دی جاتی ہے وہ حقیقت میں طالبان کو پہنچائي جاتی ہے۔ مذکورہ ورکنگ گروپ کی تحقیقات کے مطابق یہ ثابت ہوا ہے کہ ان کمپنیوں کے ذریعہ اب تک چھتیس کروڑ ڈالر طالبان کو دیئے گئے ہیں۔ 

اب یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ امریکہ اور بعض علاقائي ملکوں نے طالبان اور القاعدہ کو جنم دیا تھا اور ان دہشتگرد تنظیموں کو ہمیشہ امریکہ کی خفیہ سیاسی اور فوجی حمایت حاصل رہی ہے۔ ان تنظیموں نے جب بھی امریکہ کو ضرورت پڑی امریکہ کے مفادات کیلئے کام کیا ہے۔ امریکا نے اب جو یہ کہا ہے کہ طالبان ہمارے دشمن نہیں ہیں ہے اس سے ان خبروں کو تقویت مل رہی ہے کہ امریکی حکام بڑی خاموشی کے ساتھ کسی نئی سازش میں مصروف ہیں۔

 اطلاعات کے مطابق گزشتہ دس ماہ میں جرمنی اور دوحہ میں کئی ملاقاتیں ہو چکی ہیں اور امریکی بیانات سے لگ رہا ہے کہ اسے کسی مثبت نتیجہ کی امید ہو چلی ہے۔ ممکن ہے جلد ہی گوانتا ناموبے کے عقوبت خانے سے کچھ طالبان قیدی چھوڑ بھی دیئے جائیں۔ امریکی نائب صدر اور وائٹ ہاوس دس سال تک طالبان سے جنگ کے بعد آج یہ کہہ رہے ہیں کہ طالبان ہمارے دشمن نہیں ہیں، تو وہ دس سال سے افغانستان میں کیا کر رہے تھے اور کس سے جنگ ہو رہی ہے۔؟ اب چھپ چھپ کر مذاکرات کس بات پر ہو رہے ہیں۔ 

اسی کے ساتھ سینیٹر جان کیری یہ کہہ رہے ہیں کہ افغان فورسز کو سکیورٹی کے معاملات منتقل کرنے کا مطلب خطہ سے روانہ ہونا نہیں اور افغانستان میں تعینات امریکی جنرل جان ایلن نے کہا ہے کہ امریکی فوجی 2014ء میں بھی افغانستان سے نہیں جائیں گے۔ امریکا اور طالبان نے کیا طے کیا ہے اس کو خطے کی حالیہ انتہائی تیز رفتاری سے تبدیل ہوتی ہوئی علاقائی سیاست کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے، لیکن پاکستان کے حوالے سے ہم پاکستان کے معروف قانون دان اقبال حیدر کے اس موقف کی حمایت کرتے ہیں۔وہ لکھتے ہیں
 
"یہ بات تو کسی سے پوشیدہ نہیں کہ پاکستان اور طالبان ایک ساتھ نہیں رہ سکتے، اگر طالبان کو پاکستان میں بڑھنے اور پنپنے کی اجازت دی جائے تو اس کا مطلب ہے کہ پاکستان اور قائداعظم کے خوابوں، فلسفے، ویژن، وعدوں، مقاصد اور اصولوں کا خاتمہ، جس کے لئے پاکستان کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے، ماسوائے یہ کہ ہم طالبان کے گروہوں، انتہا پسند مذہبی جنونی طاقتوں اور اس قسم کے تمام دہشت گردوں کے چنگل میں پھنسے پاکستان کو آزاد کرائیں، تب ہی پاکستان عدم تشدد، ترقی، خوشحالی، امن اور روشن خیالی کا گہوارہ بن سکتا ہے۔"
امریکہ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنا چاہتا ہے اور اس کے لئے طالبان سے زیادہ کارگر کون ثابت ہو سکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 124535
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش