0
Thursday 29 Dec 2011 19:04

امریکہ افغانستان سے باعزت انخلا چاہتا ہے

امریکہ افغانستان سے باعزت انخلا چاہتا ہے
تحریر:رشید احمد صدیقی
 
اسلام ٹائمز۔ دو مئی 2011ء کو ایبٹ آباد میں امریکی ہیلی کاپٹروں کے پراسرار حملوں میں اسامہ بن لادن کا قتل نائن الیون کے بعد سے شائد سب سے بڑا واقعہ تھا، جس سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں نیا موڑ آیا، یہ پاک فوج کے لیے انتہائی غیر متوقع امر تھا تو پاکستانی قوم اس واقعہ سے مضطرب تھی، پاک فوج کی جانب سے محض یہ وضاحت کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہی تھی کہ یہ آپریشن ہماری توقعات کے برعکس تھا لیکن دوسرے ہی روز صدر مملکت کا ایک مضمون امریکی اخبار میں چھپا، جس میں انھوں نے کامیاب کارروائی پر امریکی حکومت کو مبارکباد دی۔ اس واقعہ کو گذرے اب سات ماہ ہو چکے ہیں، لیکن آٹھ ہی روز کے اندر امریکہ کے فوجی سربراہ کو ایک مراسلہ ملا، جس میں افغان امور پر پاک فوج کو سخت پیغام دینے کی بات تھی، مراسلہ کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ پاکستان کے سفارت خانہ سے گیا ہے۔ مراسلہ دس مئی کو بھیجا گیا تھا، انٹیلی جنس والوں کو تو بروقت اطلاع ملی تھی، لیکن عوام کو نومبر میں ایک امریکی اخبار کے ذریعے پتہ چلا۔
 
حکومت اس کو معمول کا ایک واقعہ قرار دے کر دبا رہی تھی لیکن عوامی اور دوسرے دبائو ایسے تھے کہ امریکہ میں متعین سفیر حسین حقانی کو اپنے منصب سے ہاتھ دھونے پڑے اور عملی طور پر وہ ایوان صدر اور وزیراعظم ہائوس میں محبوس ہو کر رہ گئے ہیں۔ مائیک مولن نے یکم اکتوبر کو امریکی فوج کی سربراہی سے سبکدوشی سے ایک ہفتہ قبل ایک بیان میں پاک فوج کو واقعی سخت پیغام دیا، ان کا اشاروں کنایوں میں کہنا تھا کہ افغانستان میں امریکی افواج کے خلاف حملوں میں حقانی نیٹ ورک ملوث ہے، جس کے ساتھ پاک فوج کے رابطے ہیں اور اگر پاک فوج نے اس کے خلاف مؤثر کارروائی نہ کی تو اس کے خطرناک اثرات مرتب ہوں گے۔
 
مائیک مولن کے بیان سے پاکستان میں ایک بھونچال آ گیا، پوری قوم یک زبان ہو کر امریکہ کے خلاف پاک فوج کے ساتھ کھڑی دکھائی دی۔ آل پارٹی کانفرنس بلائی گئی، مولن کے سخت بیان کے جواب میں امریکہ کو سخت جواب ملا تو نئے فوجی سربراہ کچھ نرم پڑھ گئے، افغان مسئلے میں پاکستان کو اہم پارٹنر قرار دیا گیا اور معاملہ ایک ایسے جنرل کے بیان کے طور پر رفع دفع کر دیا گیا کہ وہ تو ایک ہفتے بعد ہی رخصت ہو رہا تھا۔
ابھی یہ مسئلہ پوری طرح ٹھنڈا نہیں ہوا تھا کہ 26 نومبر کو امریکی قیادت میں افغانستان میں موجود نیٹو افواج نے مہمند ایجنسی میں سلالہ کے مقام پر پاک فوج کی چیک پوسٹ پر حملہ کیا، جس میں 24 فوجی جوان اور افسر شہید ہو گئے۔ یہ محض سخت پیغام نہیں سخت قدم تھا، بعض حلقوں نے اسے دس مئی کے مراسلہ کا نتیجہ بھی قرار دیا۔ 

اس واقعہ پر پاکستان کا غصہ دیدنی تھا۔ اس صورتحال پر میڈیا میں کافی لے دے ہو چکی ہے، لیکن یہاں پر قابل غور بات یہ ہے کہ سلالہ چیک پوسٹ پر امریکی حملوں کے بعد پاکستان کے سرحدی علاقوں میں امریکی ڈرون حملے تقریباً ختم ہو چکے ہیں، اس دوران پاکستان اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی خبریں آئیں۔ تحریک طالبان پاکستان کے نائب امیر فقیر محمد کے حوالے سے بی بی سی نے مذاکرات اور اس کی کامیابی کے یقین پر مبنی خبریں نشر کیں۔ ان کی اپنی آواز میں یہ خبر نشر ہوئی لیکن اگلے روز پاکستان کے وزیراعظم اور وزیر داخلہ نے اس کی تردید کی، لیکن واقفان حال کا کہنا ہے کہ فقیر محمد اپنے کافی ساتھیوں سمیت پاکستان آئے تھے، حکومت کے حامی قبائلی ملکان نے ان کی مہمان نوازی کی۔ حکومت کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات کے ایک سے زیادہ دور ہوئے اور اس کے بعد واپس چلے گئے، پاکستان نے ایسے مذاکرات سے انکار کیا لیکن ساتھ یہ بھی کہا کہ جب امریکہ مذاکرات کر سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں، امریکہ کی جانب سے یہ سطور لکھنے سے ایک دن پہلے امریکہ کے نائب صدر جوبائیڈن کا بیان سامنے آیا ہے کہ طالبان نہیں القاعدہ ہماری دشمن ہے۔
 
اس ساری صورتحال کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ افغانستان میں نرم گوشہ کی تلاش میں ہے، وہ طالبان اور القاعدہ کو الگ الگ کرنے کا متمنی ہے۔ اب وہ پاکستان سے بھی ایسی توقع کرے گا کہ القاعدہ اور طالبان میں پھوٹ ڈلوا کر یہاں پر امریکی الّو سیدھا ہونے کا موقع فراہم کرے، وہ اس خواہش کا کئی بار اظہار کر چکا ہے کہ افغانستان میں قابل قبول صورتحال پیدا کی جائے۔ 

بادی النظر میں دیکھا جائے تو 1988ء میں بعینہ یہی صورتحال سویت یونین کو درپیش تھی۔ جنیوا میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان طویل عرصہ سے بالواسطہ مذاکرات جاری تھے، یہاں پر جنرل ضیاءالحق طاقتور صدر تھے لیکن کافی عرصہ بعد کٹھ پتلی قسم کی جمہوریت رائج ہو گئی تھی اور محمد خان جونیجو وزیراعظم تھے، سویت یونین افغانستان سے باعزت انخلا چاہتی تھی۔ امریکہ بھی اس حق میں تھا کہ افغانستان جہادیوں کے ہاتھ میں نہ جائے، جونیجو حکومت امریکہ کی خوشنودی کے لیے سویت یونین کو باعزت راستہ دینے کے لیے کوشاں تھی جبکہ فوجی جنتا کی پالیسی دوسری تھی۔
 
1988ء میں سویت اور امریکی مشترکہ پالیسی کامیاب رہی اور جنیوا معاہدہ طے پا گیا، جس سے سویت یونین تذلیل سے بچ گئی، لیکن جونیجو حکومت اپنے آپ کو نہ بچا سکی۔ ضیاءالحق نے جنیوا معاہدہ کرنے والے محمد خان جونیجو کو چلتا کیا لیکن چند ہی ماہ کے اندر اپنی جان گنوا بیٹھا۔
 
آج 2011ء کے اختتام پر امریکہ افغانستان میں نرم گوشہ کا متلاشی ہے اور باعزت انداز میں اپنی خفت مٹانے کے لیے کوشاں ہے، دو مئی کو پاکستان میں آپریشن اور اسامہ بن لادن کا معاملہ نمٹانے پر سول حکومت کا رویہ مبارکباد پرمبنی تھا، صدر مملکت نے اگلے ہی روز وہاں کے اخبار میں ان کو مبارکباد دی۔ مبینہ مراسلہ بھی امریکی حکومت سے پاک فوج کے ممکنہ ردعمل سے بچنے کی درخواست پر مبنی ہے جبکہ دوسری جانب پاک فوج امریکہ کو مزید کھل کر کھیلنے کی اجازت دینے کی روا دار نظر نہیں آ رہی۔
 پاکستانی سفارتخانے کی جانب سے مبینہ مراسلہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے، چند روز میں یہ اونٹ کسی کروٹ بیٹھنے والا ہے، صدر مملکت کا پُراسرار انداز میں دبئی جانا اور اسی طرح پُراسرار انداز میں واپس آنے سے یہ چہ میگوئیاں بہت عام ہو گئی تھیں کہ بس اب فوج اقتدار سنبھالنے والی ہے۔ یہ بات اتنی عام ہو گئی کہ آرمی چیف نے برسرعام کہا کہ فوج کا ایسا کوئی ارادہ نہیں۔ 

یہ باتیں اصل امور سے توجہ ہٹانے کے لیے کی جا رہی ہیں۔ میمو ایک حقیقت ہے، میمو کی حقیقت ہی اصل سوال ہے۔ سپریم کورٹ نے صدر مملکت کو بیان دینے کا نوٹس دیا ہے اور وہ بیان دینے میں ٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں، بیان نہ دینے کے لیے ان کا بیمار ہو کر بیرون ملک جانا کافی دلیل تھا اب اگر ان کا میمو میں کوئی کردار نہیں تو سپریم کورٹ کو صاف بتا دیں کہ میں اس میں معصوم ہوں، اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو فوج کے آنے کی کوئی ضرورت نہیں، آئین اور قانون کو راستہ ملے گا۔ آرمی چیف نے اس کا برملا اعلان کیا ہے کہ فوج غیر آئینی اقدام نہیں کرے گی۔
 
اگر میمو کے نتیجے کے طور پر پاکستان میں آئینی فیصلے ہوتے ہیں اور امریکہ افغانستان سے باعزت یا بصورت دیگر انخلا کرتا ہے، تو کیا وہی 1988ء والی صورتحال بنے گی؟ جس کے بعد سویت یونین دنیا میں نہ رہی تھی، کیا افغانستان کے بعد دنیا میں امریکہ اپنا بھرم رکھ سکے گا؟ کیا اس کی معاشی حالت ایسی ہے کہ وہ بدستور دنیا کو اپنے پنجے میں رکھ سکے؟ کیا پاکستان پھر بھی اس کے ایک ٹیلی فون پر اپنی پالیسیاں مرتب کرے گا یا موجودہ حالت پہ قائم رہے گا؟؟؟ یہ اور ان جیسے سوالات کے جوابات کا وقت قریب ہے۔ 

ہمارے حکمرانوں کے لیے ایک قابل تقلید مثال ایران کی ہے کہ جس نے نائن الیون کے بعد بھی بپھرے امریکہ کے سامنے ڈٹ کر اپنی پالیسی جاری رکھی تھی، اب امریکہ وہ شیر بھی نہیں رہا، بلکہ اس کی مثال اس سہمے ہوئے چوہے کی ہے، جس کو گھسنے کے لیے افغانستان میں بل نہیں مل رہا اور وہ طالبان اور القاعدہ کو الگ الگ کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔۔۔ آنے والے چند روز اس سلسلے میں بڑے اہم ہیں۔
خبر کا کوڈ : 125583
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش