0
Tuesday 6 Oct 2009 12:02

امریکا اور برطانیہ میں معاشی بحران کا تسلسل

امریکا اور برطانیہ میں معاشی بحران کا تسلسل
امریکا اور برطانیہ طاقت کے نشے میں چور دو ایسے بدمست ہاتھی ہیں جن کی پالیسیوں نے دنیا کو بدامنی،معاشی بدحالی،اقتصادی تباہی،بے روزگاری،غربت،افلاس،نفرتوں،جنگوں اور انتہا پسندی کے تحائف دیئے۔ ان ممالک کی جارحانہ پالیسیوں نے دنیا کے امن و سکون کو تہہ و بالا کر دیا اور تہذیبوں کو تصادم کی راہ پر لا کھڑا کیا۔ امریکا اور برطانیہ نے افغانستان اور عراق پر حملے کے لیے دنیا کے بیشتر ممالک کو دباﺅ،لالچ اور ترغیبات دے کر اپنے ساتھ ملا لیا۔لاکھوں لوگوں کا لہو بہانے،سینکڑوں دیہات اور بستیوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے باوجود انہیں چین نہیں آیا۔ ان کے انتقام کی آگ ٹھنڈی نہیں ہوئی،ان کی ہوس ملک گیری میں کوئی کمی نہیں آئی۔ وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار تو نہ ملے البتہ ان ممالک نے وسیع پیمانے کی تباہی ضرور پھیلا دی۔ امن اور انسانی حقوق کے چیمپئن ہونے کے دعویداروں نے ابوغریب،گوانتا ناموبے اور بگرام ایئربیس کی جیلوں میں ایسے انسانیت سوز اقدامات کیے جس سے دنیا بھر کے امن پسند انسانوں کے سرشرم سے جھک گئے۔ امریکا اور برطانیہ کی آنے والی نسلوں کو اپنی تاریخ کے اس سیاہ باب پر ہمیشہ شرمندگی ہو گی۔ امریکا و برطانیہ کی ان جنگوں نے انسان کو بھوک،افلاس اور غربت کے سوا کچھ نہ دیا۔ خود امریکا و برطانیہ بھی ان جنگوں کے اثرات بد سے محفوظ نہیں ہیں اور مسلسل اقتصادی بحران کا شکار ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ امریکا کے 84 بینک دیوالیہ ہو چکے ہیں۔ 28 اگست 2009ءکو مزید تین امریکی بینک دیوالیہ ہو گئے۔ دیوالیہ ہونے والے بینکوں میں بینک آف وینٹورا،بریڈ فورڈ بینک ہالٹی مور اور مین اسٹریٹ بینک آف فوریسٹ لیک شامل ہیں۔ بینکوں اور مالیاتی اداروں کے تیزی سے دیوالیہ ہونے کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے فیڈرل ڈپازٹ انشورنس نے 32 ارب ڈالر کی خطیر رقم اگلے سال کے لیے مختص کی ہے کیوں کہ مزید بینک اور مالیاتی اداروں کے دیوالیہ ہونے کا اندیشہ ہے۔ گذشتہ سال امریکا کے 25 بینک اور مالیاتی ادارے دیوالیہ ہوئے تھے جبکہ اس سال یہ تعداد بڑھ کر 84 ہو گئی ہے۔ اگرچہ امریکی ماہرین معاشیات کا خیال ہے کہ معیشت کی بحالی کا دور شروع ہو چکا ہے تاہم بینکنگ انڈسٹری ابھی مزید چند برس مشکلات کا شکار رہے گی۔ اس وقت بھی 416 مزید بینک ایسے ہیں جو شدید مشکلات کا شکار ہیں جبکہ گذشتہ سال مشکلات کا شکار بینکوں کی تعداد 305 تھی۔ اس طرح صرف ایک سال کے عرصے میں مزید ایک سو گیارہ بینک مالیاتی دشواریوں کا شکار ہوئے۔ امریکی بینکوں کی ناکامی سے انشورنس انڈسٹری کو 70 ارب ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ کئی ایک انشورنس کمپنیاں دیوالیہ ہو چکی ہیں۔ گذشتہ ہفتے معروف امریکی انشورنس کمپنی ”کالونیل بینک گروپ“ دیوالیہ ہو کر بند ہو چکی ہے۔ اس کمپنی کی 346 شاخیں تھیں جن کے بند ہونے سے ہزاروں افراد بے روزگار ہو چکے ہیں۔ امریکا کے کمیونٹی بینک آف اریزون،کمیونٹی بینک آف نواڈا،یونین بینک بھی بند ہو چکے ہیں۔ ان تمام بینکوں کی ناکامی اور بندش نے امریکی انشورنس کمپنیوں کو شدید دباﺅ اور مشکلات سے دوچار کر دیا ہے۔ 
امریکا کی طرح برطانیہ بھی شدید اقتصادی مشکلات کا شکار ہے اور اس وقت برطانیہ کو گذشتہ تیرہ سال کی بدترین بے روزگاری کا سامنا ہے۔ گذشتہ تین ماہ میں برطانیہ میں 2 لاکھ 10 ہزارسے زائد افراد بے روزگار ہوئے جس سے برطانیہ میں بے روزگار ہونے والوں کی تعداد 24 لاکھ 70 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ اقتصادی ماہرین کا خیال ہے کہ اگلے سال کے آغاز تک بے روزگاروں کی تعداد 30 لاکھ سے تجاوز کر جائے گی۔ برطانیہ میں اس وقت بے روزگاری کی شرح 7.9 فیصد ہے جو گزشتہ 13سالوں میں بلند ترین ہے۔ برطانیہ میں صرف اگست کے مہینے میں بے روزگار ہونے والوں کی تعداد 24 ہزار 400 ہے۔ برطانیہ میں برسر روزگار افراد کی تنخواہوں میں بھی کمی ہوئی ہے ۔ برطانیہ کے اندرونی و بیرونی قرضوں میں بھی اضافہ ہوا ہے جبکہ امریکا تو اپنی مجموعی قومی پیداوار 13 ہزار ارب ڈالر کے مقابلے میں 16 ہزار ارب ڈالر کا مقروض ہے۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ مقروض امریکا و برطانیہ جو خود بے روزگاری اور قتصادی مشکلات کا شکار ہیں جبکہ ہمارے حکمران اپنی ساری امیدیں ان سے وابستہ کیے ہوئے ہیں انہی کے سامنے اپنے کشکول پھیلا رہے ہیں۔ ہر ماہ چین کا دورہ کرنے والے یہ نہیں جانتے کہ چین نے ترقی کی منزل خود کفالت،خود انحصاری کی راہ پر چل کر پائی ہے۔ پاکستان بھی اس وقت ترقی کرے گا جب پاکستانی قیادت چین کے صدر اور وزیراعظم کی طرح سادہ زندگی گزارے گی،محنت کشوں کے ساتھ محنت کشوں کی طرح کام کرے گی۔ ہاتھوں میں کشکول ہو،ساتھ درجنوں وزراء اور مشیروں کا وفد ہو،ایسے دوروں اور طرز عمل سے وزراء اور حکمران تو ”دن دگنی رات چوگنی ترقی“ کریں گے لیکن عوام مزید غربت اور افلاس کی اتھاہ گہرائیوں میں گرتے جائیں گے۔ امیروں کے دن پھر جائیں گے۔ لیکن قوم کی ”بے نظیروں “ کے پاﺅں ننگے رہیں گے اور دیس کا ہر بلاول مقروض سے مقروض تر ہوتا جائے گا۔


خبر کا کوڈ : 12729
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش