0
Wednesday 4 Jan 2012 01:59

خیبر پختونخوا، ایم ایم اے کا مستقبل قریب

خیبر پختونخوا، ایم ایم اے کا مستقبل قریب
تحریر:رشید احمد صدیقی
 
پاکستان میں ان دنوں سیاسی جماعتیں خاصی سرگرم ہیں، شہر شہر جلسے ہو رہے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے بڑے جلسوں سے بہت سوں کو ان کے سر پر اقتدار کا ہما بیٹھتا نظر آ رہا ہے، دوسرے نمبر پر جماعت اسلامی بھی ہر شہر اور ہر صوبے میں جلسے کر رہی ہے، پیپلز پارٹی نے بے نظیر بھٹو کی برسی پر لاڑکانہ میں میلہ سجایا، عوامی نیشنل پارٹی حکومت میں ہوتے ہوئے صوبہ خیبر پختونخوا میں سیاسی قوت دکھانے کی کوشش کر رہی ہے اور صوبہ کے بڑے بڑے اخبارات میں روزانہ صفحہ اوّل اور آخر پر پونے اور آدھ صفحات کے سرکاری اشتہارات شائع کروا رہی ہے۔ ان سرگرمیوں سے ایسا لگتا ہے کہ بہت جلد پاکستان میں انتخابی میدان لگنے والا ہے، میدان کب سجے گا؟ اس سوال سے قطع نظر سیاسی جماعتوں کی صف بندیوں پر نگاہیں جمی ہوئی ہیں، ملکی سطح پر کیا ہو گا یہ الگ موضوع ہے، صوبہ خیبر پختونخوا کے سیاسی منظرنامہ پر چند سطور حاضر ہیں۔

فی الوقت صوبہ خیبر پختوانخوا کی سب سے بڑی جماعتیں عوامی نیشنل پارٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی ہیں، لیکن ان کی اتحادی حکومت سے قبل جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی یہاں کی دو بڑی جماعتیں تھیں، اگلے انتخابات میں ان دونوں کا اتحاد ہوا تو صورتحال کیا وہی ہو گی یا بدل جائے گی؟ یہ دلچسپ سوال ہے۔

خیبر پختونخوا کے عوام کی اسلام سے وابستگی مسلمہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں جب پہلی مرتبہ محض اسلامی جماعتوں کا اتحاد متحدہ مجلس عمل کی شکل میں بنا تو صوبہ کے عوام نے بہت بھاری اکثریت سے اسے ووٹ دیا اور ایم ایم اے کو بغیر کسی مشکل کے یہاں حکومت سازی کا موقع ملا۔ 2007ء میں ایم ایم اے معطل ہوئی اور 2008ء کے انتخابات میں اس میں شامل ایک بڑی پارٹی جماعت اسلامی نے بائیکاٹ کیا، جبکہ جمعیت علمائے اسلام نے ایم ایم اے ہی کے نام پر حصہ لیا، لیکن وہ اپنے سابقہ 36 ارکان کے بجائے صرف دس نشستوں پر کامیابی حاصل کر سکی، جے یو آئی کے 20 امیدوار ایسے تھے جو چند سو ووٹ سے لے کر 2 ہزار ووٹ تک کے فرق سے ہار گئے۔ اس کا الزام وہ جماعت اسلامی کو دیتی ہے کہ اگر وہ میدان میں ہوتی اور اتحاد کی فضا ہوتی تو ان کے کم ازکم یہ 20 امیدوار بھی جیت جاتے اور اس کی عددی قوت صوبائی اسمبلی میں 30 ہوتی۔ ظاہر ہے اسی تناسب سے جماعت اسلامی کے ایم پی ایز بھی ہوتے اور صوبہ میں ایک بار پھر ایم ایم اے کی حکومت ہوتی۔

کہنے کو بات بڑی سادہ اور اعداد و شمار کا کھیل بڑا آسان لگتا ہے لیکن حقیقت کی دنیا کافی تلخ بھی ہوتی ہے، اگر ایم ایم اے قائم رہتی تو شائد انتخابی نتائج اسی طرح ہوتے جو 2002ء میں تھے لیکن ایک سوال پھر بھی قائم رہتا کہ پانچ سال کے دوران ایم ایم اے حکومت نے کون سے کارنامے انجام دیے تھے جس کے اثرات وہ قوم کو 2008ء میں بتاتی یا اب بتا سکے، نظام کی تبدیلی کے سلسلے میں عوام کو وہ کچھ بھی نہیں بتا پا رہے ہیں کہ اگر دوبارہ حکومت ملے تو ہم کیا کریں گے، یہ نظام میں کیا تبدیلی لائیں گے۔

یہ حقیقت ہے کہ ایم ایم اے اور دوسری جماعتوں کے حکومت چلانے کے انداز میں زمین آسمان کا فرق تھا، لیکن یہ امر بطور خاص پُر اسرار ہے کہ ایم ایم اے میں شامل دو بڑی جماعتیں جے یو آئی اور جماعت اسلامی عوام کو وہ فرق کیوں نہیں بتا رہی ہیں، 5 سال حکومت میں رہنے کے بعد ان کو یہ بات سمجھ آ جانی چاہیے کہ اپنی خوبیاں کیسے عوام کو بتائی جاتی ہیں، ہہ جملہ معترضہ اور ان دو جماعتوں کا اپنا دردِ سر ہے لیکن صوبہ کے عوامی اور سیاسی مزاج کو مدنظر رکھا جائے تو یہ بات بڑ ی آسانی سے سمجھ آتی ہے کہ منبر و محراب ان دو جماعتوں کے پاس ہیں، ان کے اتحاد کی صورت میں ایسا تیار سٹیج ان کو مل جاتا ہے کہ 24 گھنٹوں میں 5 مرتبہ اور ہر جمعہ کے روز آبادی کے تقریباً 80 فی صد افراد کو موثر انداز میں اپنا سیاسی پیغام پہنچایا جا سکتا ہے۔ 

ایسا سٹیج کسی دوسری جماعت کے پاس نہیں، ایم ایم اے میں شامل دیگر چھوٹی دینی پارٹیاں اجتماعی اتحاد کی فضا بنانے میں ممد و معاون ثابت ہوں گی اور ان کو اسی معاوت کی مناسبت سے حصہ بھی ملے گا، اس حقیقت کو جماعت اسلامی اور جے یو آئی کے علاوہ صوبہ کی دیگر جماعتیں بھی بخوبی سمجھتی ہیں اور اس سے خوف زدہ بھی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پھر کو ن سا امر ایم ایم اے کی بحالی میں مانع ہے۔

2002ء میں ایم ایم اے کی کامیابی دیوانے کا خواب لگتا تھا، جب انتخابات کے بعد نتائج سامنے آ گئے اور جے یو آئی کو اسمبلی میں عددی برتری کی بنا پر وزارت اعلٰی مل گئی تو یہ بات ریکارڈ پر ہے یہ کہ اس کے اہم عہدیدار یہ کہتے پھرتے تھے کہ اگلے انتخابات ہم الگ طور پر لڑیں گے اور جیتیں گے، وزارتوں اور سیٹوں کی تقسیم میں بارہا ایسا لگا کہ اگر جے یو آئی کی بات نہ مانی گئی تو اتحاد ٹوٹ جائے گا، آخر میں میں جب آل پاکستان ڈیموکریٹک فرنٹ کے پلیٹ فارم پر ایم ایم اے، مسلم لیگ ن، تحریک انصاف اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی نے مشترکہ طور پر فیصلہ کیا کہ جنرل مشرف کے دوبارہ انتخاب سے قبل وزیراعلٰی سرحد صوبائی اسمبلی کو توڑ دیں گے۔ اس طرح صدر کا انتخابی کالج ٹوٹ جائے گا اور وہ دوبارہ ان اسمبلیوں سے منتخب نہیں ہو پائیںگے۔

اسمبلی توڑنے کا اعلان 29 اکتوبر کو مسلم لیگ ن کے مرکزی جنرل سیکریٹری اقبال ظفر جھگڑا کی پشاور رہائش گاہ پر اے پی ڈی ایم کے سپریم کونسل کے اجلاس میں کیا گیا۔ اور یہ اعلان ایم ایم اے کے صدر قاضی حسین احمد نے اتحاد کے جنرل سیکریٹری مولانا فضل الرحمان سے پریس کانفرنس میں کروایا۔ لیکن بعد میں انھوں نے اسمبلی نہ توڑی اور مسلم لیگ ق نے وزیراعلٰی سرحد کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر دی، جس کی وجہ سے ان کا اسمبلی توڑنے کا اختیار کالعدم ہو گیا، اس طرح سرحد اسمبلی ٹوٹنے سے بچ گئی اور جنرل مشرف کو دوبارہ انتخاب کے لیے الیکٹرل کالج مل گیا۔ یہ بنیادی وجہ تھی ایم ایم اے کے معطل ہونے کی، اس کے بعد انتخابات ہوئے اور دینی جماعتوں کی موجودہ حالت رہی۔

اب جب کہ انتخابات قریب نظر آ رہے ہیں، جے یو آئی کی بھرپور کوشش ہے کہ ایم ایم اے بحال ہو جب کہ جماعت اسلامی کی جانب سے بظاہر ایسی کوئی جلدی یا سرگرمی نظر نہیں آ رہی ہے، مولانا فضل الرحمان اور جے یو آئی اتحاد کے لیے خاصے پُر جوش ہیں۔ وہ ایسے سیاستدان ہیں کہ اپنے لیے کوئی option بند نہیں چھوڑتے۔ ہر راستہ ان کے لیے ہر وقت کھلا رہتا ہے، ان کی جماعت کی ساخت ایسی ہے کہ انھیں اس کی جانب سے کبھی بھی کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔

دوسری جانب جماعت اسلامی ہے، اس کے پاس راستے بھی محدود ہیں اور دوسری جانب اس کے کارکنان (ارکان) کا بھی بہت بڑا دبائو ہوتا ہے اور اس کی قیادت ایک خاص دائرے کے باہر فیصلہ کرنے میں خاصی دقت محسوس کرتی ہے۔ موجودہ حالات میں جماعت اسلامی کے پاس چار options ہیں، ایک یہ کہ آزادانہ حیثیت سے انتخابات لڑے، یہ طریقہ 1993ءمیں بری طرح ناکام ثابت ہو چکا ہے، اپنے نشان اور جھنڈے پر ہم خیال جماعتوں سے سے سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا راستہ، آئی جے آئی اس طرح کا ایک تجربہ تھا جس میں جماعت کو صوبہ میں آٹھ ہی سیٹیں ملی تھیں، وہ اتحاد اور سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسمنٹ کا دہرا اتحاد تھا، اب نشستیں 81 سے 124 ہو چکی ہیں۔ لیکن اتحاد منفی کیا جائے تو نتیجہ وہی نکلے گا۔ 

لگتا یہ ہے کہ یہ راستہ بھی ثمر آور نہیں رہے گا، تیسرا راستہ 2002ء کا ایم ایم اے بنانے کا ہے، یعنی غیر مشروط طور پر محض اتحاد کے لیے جے یو آئی کی ہر بات کو تسلیم کیا جائے، اس option کے لیے جماعت اسلامی کے طاقتور ادارہ ارکان کو شائد ہی آمادہ کیا جائے۔ اب رہا آخری راستہ کہ ایسی ایم ایم اے جس میں جے یو آئی کے ساتھ برابر کی سطح پر اتحاد قائم ہو، نشستوں کی تقسیم ان کے حساب سے معقول ہو اور بعد میں اختیارات کا بھی باقاعدہ تحریری کلیہ ہو۔

جے یو آئی کے سامنے بہت سارے راستے کھلے ہیں، وہ آزادنہ حیثیت سے بھی انتخابات لڑ سکتی ہے، لیکن ماضی میں یہ تجربہ کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں دے سکا ہے، وہ اے این پی کے ساتھ کئی بار حکومت میں رہی ہے، پی پی پی کے ساتھ حکومت کی حصہ دار رہی ہے، بلوچستان میں ہر جماعت کے ساتھ حکومت کے لیے اتحاد میں شریک رہی ہے، لیکن اس نے جو مزہ ایم ایم اے میں چکھا ہے وہ کسی اور اتحاد میں نہ کبھی ملا ہے اور نہ مل سکے گا، چنانچہ اس کے لیے بھی ایم ایم اے کی بحالی اور جماعت کے سخت رویے کا تلخ گھونٹ پینے کے سوا شائد کوئی چارہ کار نہ ہو۔
 
لہٰذا فوری طور پر ایسا لگتا ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں ایم ایم اے بحال ہو گی، لیکن بحالی کے بعد کیا جماعت اسلامی اپنی شرائط منوا سکے گی اور کیا سیدھے سادھے انداز میں سب کچھ طے پایا جائے گا، یہ اتنا آسان سوال نہیں اور نہ نتائج جماعت اسلامی کی توقعات کے مطابق سو فی صد آ سکیں گے، پاکستان کی سیاست میں مولانا فضل الرحمان کے ساتھ معاملہ کرنا کوئی معمولی بات نہیں، سیاست کی بساط پر شطرنج کی جو چالیں وہ چلتے ہیں، شائد ہی کوئی دوسرا سیاستدان بالخصوص مذہبی جماعت کا کوئی لیڈر اس طرح کا کھیل پیش کر سکے۔
خبر کا کوڈ : 127469
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش