0
Thursday 5 Jan 2012 12:31

ایران کی کامیاب بحری مشقیں

ایران کی کامیاب بحری مشقیں
تحریر:ثاقب اکبر 

اسلامی جمہوریہ ایران کی آٹھ روزہ بحری مشقیں کامیابی کے ساتھ اختتام کو پہنچ گئی ہیں۔ یہ مشقیں عالمی سطح پر بہت قابل توجہ رہیں۔ انھوں نے اس وقت زیادہ توجہ حاصل کر لی جب ایرانی تیل پر پابندیوں کی خبریں آ رہی تھیں اور ایران کے نائب صدر نے اعلان کیا کہ اگر ایرانی تیل کی تجارت پر پابندیاں عائد کی گئیں تو وہ خلیج فارس سے تیل کا ایک قطرہ عالمی منڈی میں نہیں پہنچنے دے گا۔ یاد رہے کہ دنیا کی ضرورت کے تیل کا چھٹا حصہ اس علاقے سے گزرتا ہے۔ یہ تیل عراق، کویت اور قطر سے جاتا ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے تیل کا کچھ حصہ بھی خلیج ہی سے صادر کیا جاتا ہے۔ ادھر مشقوں کا آغاز ہو رہا تھا اور ادھر ایرانی نائب صدر کا یہ بیان آیا اور ساتھ ہی امریکہ کا پانچواں بحری بیڑہ خلیج فارس سے نکل کر بحیرہ عمان میں جا کر لنگر انداز ہو گیا۔
 
اس موقع پر ایرانی جنرل عطاءاللہ صالحی نے کہا کہ غیر مقامی فوجی قوتوں نے ہماری بحری مشقوں کا پیغام سمجھ لیا ہے۔ دوستوں کے لیے ہماری مشقوں کا پیغام امن و دوستی کا استحکام ہے اور جو دشمنی کے لیے آئے ہیں انھیں ہماری مشقوں سے خوفزدہ ہونا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ امریکی بحری جہاز جو آبنائے ہرمز سے نکل کر بحیرہ عمان میں لنگر انداز ہو گیا ہے۔ اس کے لیے ہماری نصیحت اور تاکید یہ ہے کہ وہ خلیج فار س میں واپس نہ آئے۔ انھوں نے مزید کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران اس نصیحت کا تکرار نہیں کرے گا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ہم سانس بھی لیں تو دشمن خوفزدہ ہو جاتا ہے یہ تو فوجی مشقیں ہیں۔ اپنے عقیدے کا اظہار کرتے ہوئے جنرل صالحی نے کہا کہ لطف الٰہی سے ہم امام زمان کے سپاہی ہیں اور اس عہد پر باقی رہیں گے۔ 

مشقوں کے آغاز میں جنرل صالحی نے ایک بیان میں کہا کہ ہماری بحری فعالیت نہ کسی خوف کا اظہار ہے اور نہ جارحانہ بلکہ آزاد سمندر میں مشقوں کے لیے ہے، نیز یہ ایرانی و اسلامی ممالک کی حفاظت کے لیے ہے۔ ایران کے دوستوں کو جاننا چاہیے کہ اگر وہ ایران جیسے برادر ملک پر بھروسہ کریں تو مغربی ممالک اور امریکہ پر انحصار سے بہتر ہے۔ 

ایرانی بحری مشقوں کو ”ولایت 90“ کا عنوان دیا گیا تھا۔ فوجی اور تزویراتی نقطہ نظر سے ماہرین ان مشقوں کو غیر معمولی طور پر کامیاب قرار دے رہے ہیں۔ ان مشقوں کے دوران میں ایران نے متعدد نئے میزائلوں کا تجربہ کیا۔ ان میں سے ایک قادر میزائل ہے۔ یہ”کروز“ میزائل کی ایک قسم ہے۔ ایک ایرانی کمانڈر محمود موسوی کے مطابق یہ میزائل ایرانی ماہرین نے داخلی وسائل سے تیار کیا ہے۔ یہ 200کلو میٹر تک مار کر سکتا ہے۔ یہ بحری جہازوں، کشتیوں اور دشمن کی ساحلی تنصیبات کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
 
ان مشقوں کے دوران میں ایران نے نصر میزائل کا بھی تجربہ کیا جو نچلی پرواز کرتا ہے۔ یہ بھی کروز میزائل کی قسم سے ہے۔ یہ میزائل تین ہزار ٹن وزنی بحری جہاز کو تباہ کر سکتا ہے۔ جس تیسرے میزائل کا حالیہ ایرانی بحری مشقوں کے دوران میں تجربہ کیا گیا وہ نور میزائل ہے۔ اسے غیر معمولی طور پر ترقی یافتہ میزائل قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ فضا سے فضا میں چلایا جاتا ہے۔ اینٹی ریڈار سسٹم سے تعلق رکھنے والا یہ میزائل ترقی یافتہ اور پیچیدہ رکاوٹوں سے بچتا ہوا اپنے ہدف کو تلاش کر لینے اور اس کا پیچھا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ان مشقوں کے دوران میں ایران نے ایک نئے ہیلی کاپٹر کی پرواز کا بھی تجربہ کیا ہے۔
 
اسلحہ سازی کے میدان میں ایران کے یہ تمام تر تجربے اس پس منظر میں اور بھی اہم اور حیران کن ہیں کہ ایران پر امریکہ اور مغربی ممالک نے کئی دہائیوں سے اقتصادی اور تجارتی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ ایران کی جوہری پیشرفت کے نام پر عائد کی جانے والی گذشتہ چند سالوں میں پابندیاں اور بھی شدید ہیں، جن کے لیے سلامتی کونسل کو بھی استعمال کیا گیا ہے۔ ایسے میں اسلحہ سازی میں ہی نہیں بلکہ ٹیکنالوجی اور صنعت کے دیگر میدانوں میں ایران نے حیرت میں ڈال دینے والی ترقی کی ہے۔ گذشتہ برس میں ایران نے دو مرتبہ امریکی ڈرون طیارہ مار گرایا اور سال کے آخر میں تیسرے ڈرون طیارے کو فضا میں جام کر کے بحفاظت اپنی سرزمین پر اتار کر نمائش کے لیے رکھ دیا۔ ڈرون طیارے کے خلاف اُس کی آخری کارروائی کا پوری دنیا میں چرچا ہوا۔ اس سے ایران کی نہ فقط صلاحیت کا اظہار ہوا بلکہ اس کی جرات اور حوصلے نے بھی دنیا کو حیران کر دیا۔ 

انہی امور سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل اور امریکہ جو ایک عرصے سے ایران پر فوجی حملے کی بات کر رہے ہیں وہ اپنے ارادے کو عملی جامہ پہنانے کی جرات کیوں نہیں کرتے۔ گذشتہ دنوں ایک ایرانی فوجی کمانڈر نے کہا تھا کہ اگر اسرائیل نے ایران کے خلاف کوئی کارروائی کی تو ہم چند منٹوں میں اس کا جواب دیں گے اور اسرائیل کو تہس نہس کر دیں گے۔
 
حالیہ مشقوں کے آغاز پر امریکی بحرے بیڑے”جان سی اسٹینس“ کے خلیج فارس سے نکل کر بحیرہ عمان میں جا کر لنگر انداز ہونے کو بھی عالمی سطح پر امریکہ کی ایک نفسیاتی پسپائی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ گذشتہ ماہ عراق سے امریکی افواج کے انخلا کو بھی امریکہ کی ایک بڑی فوجی اور سیاسی شکست قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ ایک طرف امریکی افواج اپنے بنیادی مقاصد میں ناکامی کے بعد عراق سے نکلنے پر مجبور ہو گئی ہیں اور دوسری طرف ایران عراق میں بہت سے ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل میں مصروف ہے اور ایران عراق تجارتی اور سیاسی تعلقات دوستانہ گہرائی کے ساتھ استوار ہو چکے ہیں۔ 

امریکہ کا پانچواں بحری بیڑہ جو خلیج فارس، آبنائے ہرمز اور بحیرہ عمان کو کنٹرول کرنے کے لیے علاقے میں موجود ہے کو ایرانی کمانڈروں نے خبردار کیا ہے کہ وہ بحیرہ عمان سے واپس خلیج فارس میں داخل ہونے کی کوشش نہ کرے۔ مختلف بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران اس سلسلے میں ممکنہ کارروائی کے لیے تیار ہے۔ خاص طور پر اس پس منظر میں کہ امریکہ اور اس کے یورپی حلیفوں نے اگلے مرحلے میں ایرانی تیل نہ خریدنے اور یوں اس کی اقتصادیات کو بری طرح تباہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایران یہ بات بخوبی جانتا ہے کہ تیل کی ترسیل کا معاملہ اس کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے، لیکن دوسری طرف اس کی قیادت کوئی کمزور یا بزدلانہ فیصلہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ ایرانی نائب صدر نے اپنے واضح بیان میں کہا ہے کہ ایرانی تیل کی خریداری کا بائیکاٹ کیا گیا تو وہ اس علاقے سے تیل کا ایک قطرہ باہر نہیں جانے دے گا۔ 

اس کے جواب میں اگرچہ امریکہ نے یہ کہا ہے کہ وہ اپنی عالمی ذمہ داریوں کو ادا کرتے ہوئے خلیج سے تیل کی ترسیل کو جاری رکھنے کے لیے کردار ادا کرے گا لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکہ اس خطے میں ایک نئی جنگ چھیڑنے اور پھر اس کا بوجھ اٹھانے کی پوزیشن میں ہے؟ دنیا کے حالات سے آگاہ اور خاص طور پر امریکہ کی داخلی اقتصادی حالت پر نظر رکھنے والا کوئی بھی تجزیہ کار اس سوال کا اثبات میں جواب نہیں دے سکتا۔ لہٰذا غالب امکان یہی ہے کہ امریکہ فی الحال زبانی گیدڑ بھبھکیوں تک اپنے آپ کا محدود رکھے گا۔ اس سلسلے میں مشرق وسطٰی اور شمالی امریکہ کی انقلابی صورتحال نے بھی امریکہ اور اس کے ساتھیوں کو مشکل سے دوچار کر رکھا ہے۔ امریکی رائے عامہ بھی کسی نئی جنگ کی تائید کے لیے تیار نہیں ہے۔ امریکہ کے یورپی حواری بھی فی الحال امریکی جنگی جنون کا ساتھ دینے کے لیے آمادہ نہیں ہیں۔ ایسے میں ایرانی نائب صدر کا یہ بیان درست معلوم ہوتا ہے کہ ”غیر مقامی فوجی قوتوں نے ایرانی بحری مشقوں کا پیغام سمجھ لیا ہے۔"
خبر کا کوڈ : 127817
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش