0
Tuesday 10 Jan 2012 18:57

طالبان سے مذاکرات میں کچھ حاصل نہیں ہو گا

طالبان سے مذاکرات میں کچھ حاصل نہیں ہو گا
 تحریر:تصور حسین شہزاد

دہشتگردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں شکست اور امریکہ کے افغانستان سے انخلاء کے ارادے کے بعد اس نے ضرورت محسوس کی کہ طالبان اب اس کے کنٹرول میں نہیں رہے، اس لئے ان سے مذاکرات کی راہ اختیار کی جائے، اس حوالے سے امریکہ نے مصر میں طالبان کو اپنا دفتر بھی قائم کرنے کی اجازت دلوا دی۔ اب طالبان سے دونوں ذریعوں سے رابطے جاری ہیں، ایک جانب پاکستان کے ذریعے مذاکرات کئے جا رہے ہیں تو دوسری جانب خود امریکہ اپنے طور پر بھی مصروف ہے کہ کسی طرح امریکہ کے انخلاء کے بعد کرزئی حکومت کے لئے طالبان خطرہ نہ بن جائیں۔ طالبان کی صورتحال یہ ہے کہ اب وہ امریکہ والے طالبان نہیں رہے، بلکہ مختلف گروہوں میں تقسیم ہو چکے ہیں اور ہر گروہ اپنے طور پر کارروائیوں میں مصروف ہے، وہ جو بہتر سمجھتے ہیں کرتے ہیں، اس کے لئے وہ کسی سے کوئی مشورہ لینے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے دنوں اچھے اور برے طالبان کی اصطلاح سامنے آئی۔ اب امریکہ بھی طالبان سے مذاکرات میں مصروف ہے اور پاکستان بھی کوشاں ہے کہ کوئی راہ حل نکل آئے۔

پاکستان، طالبان کے ساتھ کس حد تک کامیاب مذاکرات میں مشغول ہے، اس کا اندازہ لگانے کے لیے یہ کافی ہے کہ چند روز پہلے اس کے پندرہ سکیورٹی اہلکاروں کو قبائلی علاقے میں اغواء کر کے ہلاک کیا گیا ہے۔ مقامی مہم جو دانشور یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ انتہا پسندوں کے ساتھ جنگ کس قدر پیچیدہ ہے اور کیسے کیسے کردار اس جنگ کے اجزائے ترکیبی کا بنیادی حصہ ہیں۔ یہ ایک نہایت سادہ سوچ ہے کہ محض دو کردار یعنی ریاست اور طالبان نام کا یک رخ عفریت باہم گتھم گتھا ہیں۔ جو دوست روزانہ سازش کی سان پر خیالات و جذبات کی چھری تیز کرتے ہیں اور پھر مایوسی کے عالم میں لبرل بزدلوں کو کفار اور دیگر اسلام دشمنوں کا کاسہ لیس سمجھ کر ذبح کر کے بلیوں اُچھلتے ہیں، اُن کی خدمت میں عرض ہے کہ یہ جنگ اب محض خیالات کا تصادم نہیں رہی، بلکہ راسخ عقائد کا فیصلہ کن معرکہ ہے۔ جس کو وقتی مفادات اور سہولتوں سے زیادہ دیر تک ٹالنا بھی ممکن نہیں رہا۔ بظاہر دو نظر آنے والے اِن فریقوں میں سے کسی ایک کا خاتمہ، فیصلہ کن فتح پر منتج ہو گا۔

ایسے ہی ’’نتیجہ خیز‘‘ مذاکرات امریکہ اور نیٹو افواج افغانستان میں کر رہے ہیں، جنہیں تقریباً ہر جگہ طالبان کی فتح تصور کیا جا رہا ہے۔ اس میں شک بھی نہیں کہ فیصلہ کن فتح برسر پیکار اور تیزی کے ساتھ اپنی طاقت میں اضافہ کرتے ہوئے طالبان کو حاصل ہو گی، چاہے امریکہ اور نیٹو افواج واضح ترین نظر آنے والی شکست پر مذاکرات کی چادر ہی کیوں نہ تان دیں۔ بہت سادہ سوال جو عام لوگوں کے ذہن میں اُٹھتا ہے اور ہمارے مہم جوؤں کو ڈھیروں تسکین فراہم کرتا ہے، وہ یہ ہے کہ امریکہ اور نیٹو افواج جدید ترین اسلحے اور ساز و سامان کے ساتھ ایک عشرے پر محیط افغان جنگ میں کیوں فتح حاصل نہیں کر سکے؟ اس کا اتنا ہی سادہ جواب یہ ہے کہ مرنے کی قسم کھائے ہوئے لوگوں پر حتمی فتح ممکن نہیں ہوتی۔ فریق اول کو کبھی کبھی فتح کا احساس ضرور ہوتا ہے، لیکن یہ دائمی نہیں ہوتا، کیونکہ عقیدہ مند لوگوں میں مرنے کی خواہش روزافزوں ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سو سے زائد نہ مرنے کے خواہش مند افراد ایک مرنے کی قسم کھائے ہوئے شخص کو نہیں روک سکتے، اور ایسی مثالیں ہم نے پاکستان، افغانستان، عراق اور دنیا کے کئی دوسرے حصوں میں دیکھی ہیں۔ البتہ یہ الگ بات ہے کہ یہ مرنے کی قسم کھائے ہوئے لوگ جب برسراقتدار ہوں گے تو اپنی رعیت اور بیرونی دنیا کے لیے کس قدر ’’حیات بخش‘‘ ہوں گے۔

مخصوص مکاتب فکر کے علماء ناگہانی موت کو دائمی فتح قرار دینے کا پرچار کر رہے ہیں اور اس کا اصل مقصد مرنے کے لیے لوگوں کو تیار کرنا ہے۔ کوئی کشمیر میں ایسی موت کے لیے دعاگو ہے تو کسی کو افغانستان کی سرزمین بلا رہی ہے۔ وہ جنگجو جو عبداللہ عزام کے روحانی شاگرد ہیں، اُن میں سے کئی ’’عدوالقریب‘‘ کے نکتے کو سمجھ کر اپنے آس پاس بسے ہوئے دوسرے عقائد کے لوگوں کو جہنم رسید کر کے ’’دائمی حیات‘‘ یعنی شہادت کے آرزو مند ہیں تو کوئی’’عدوالبعید‘‘ کے نکتے کے سحر میں گرفتار ہو کر دوردراز بسے کفار کو سزا دینے کے لیے بے چین ہیں۔ غرض ایک ایسی بے چینی اور آرزومندی ہے کہ جس کی باقی دنیا میں مثال نہیں ملتی۔

جو ماہرین پاکستان کے قبائلی علاقوں میں چھڑی اس جنگ کو اس کے فریقین سمیت اچھی طرح جانتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ جہادیوں میں بہت سے مختلف الخیال اور بہت سے بیرونی دھڑوں کے ساتھ جڑے گروہ برسرپیکار ہیں، جن پر مکمل قابو پانا ممکن نہیں رہا۔ اِن میں غیر ملکیوں اور پاکستان کے دوسرے صوبوں سے لے کر خود قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے گروہوں کی کوئی یکساں تعریف متعین کرنا یا اِنہیں کسی ایک نقطے پر جمع کرنا محال ہے، کیونکہ اِن گروہ بندیوں میں جہاں مقامی قبائلی روایات کا بہت زیادہ عمل دخل ہے وہاں بیرونی اثرورسوخ بھی اُتنا ہی نمایاں ہے۔

پاکستانی سیکورٹی فورسز اگر کسی مخصوص علاقے میں کسی ایک گروہ کے ساتھ مذاکرات وغیرہ کرتی ہیں تو لازمی نہیں کہ اُس علاقے میں کوئی دوسرا گروہ سکیورٹی فورسز کے لیے مسائل پیدا نہ کرے بلکہ اکثر ایسا ہوا ہے کہ کسی قسم کے کامیاب مذاکرات کے بعد سیکورٹی فورسز کو اُسی علاقے میں کسی دوسرے انتہا پسند گروہ کے حملے کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے علاوہ ایسا بھی کئی دفعہ ہوا ہے کہ سکیورٹی فورسز کسی قسم کے معاہدے کے بعد فوراً ہی معاہدہ شدہ گروہ کے حملے کا شکار ہو گئیں یا اُس کے اہلکاروں کو اغواء کر لیا گیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ جنگجوؤں میں پھوٹ پڑ گئی تھی اور علیحدہ ہو جانے والے گروہ نے معاہدے کی پروا نہیں کی۔

اس کے علاوہ باہمی لڑائیوں کی بھی ایک طویل داستان ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایسے گروہوں کے ساتھ پُرامن مذاکرات کا مطالبہ کرنے والے دانشور اور لیڈر حالات سے واقف نہیں ہوتے اور اُن کی ذرائع ابلاغ پر جاری کردہ گفتگو اور خیالات سکیورٹی فورسز کے لیے مزید مسائل لے کر آتے ہیں۔ یہ ایک ایسا منظرنامہ ہے جس کی تمام تر جزئیات ایک گھیرے میں آئی ہوئی ریاست کی بقاء سے متعلق نہایت سنجیدہ سوالات کو جنم دیتی ہیں۔

انتظامی طور پر تیزی کے ساتھ ناکامی کی طرف بڑھتی ہوئی ریاست کے لیے سب سے گھمبیر المیہ یہ ہے کہ اس کے اکثر و بیشتر طاقتور طبقات مذہب کو اپنے اپنے مفادات کے لیے ایک مہلک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی راہ پر گامزن ہیں۔ اس کے دامن میں مہلک جنگجوؤں کی تعداد بڑھ رہی ہے، جن کو روک دینا اب اس کے بس میں نہیں رہا۔ اس کے گرد و نواح میں ایسے حالات پیدا ہو رہے ہیں جو اِن جنگجوؤں کو مزید حوصلہ اور قوت عطا کریں گے جبکہ اس کے اقتدار پر موجود اور ممکنہ مقتدر قوتوں اور اُن پر فیصلے نافذ کرنے والوں کی اہلیت کے بارے میں کسی قسم کی خوش گمانی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔
خبر کا کوڈ : 129242
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش