0
Tuesday 10 Jan 2012 18:52

اسرائیل کو تسلیم کریں، پرویز مشرف کا مشورہ

اسرائیل کو تسلیم کریں، پرویز مشرف کا مشورہ
تحریر:ثاقب اکبر 

پاکستان کے سابق صدر اور سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل (ر) پرویز مشرف نے ایک مرتبہ پھر صہیونی ریاست کی وکالت کرتے ہوئے اسے تسلیم کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ انھوں نے اپنے دور حکومت میں بھی صہیونیوں سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے کے لیے متعدد اقدامات کیے تھے۔ صدر پاکستان
کی حیثیت سے اپنے ایک دورہ امریکہ کے موقع پر یہودیوں کی ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے ان یہودیوں کے لیے اپنی ”نیک تمناﺅں“ کا کھل کر اظہار کیا تھا۔ انہی کے دور حکومت میں پاکستان کے وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے ترکی میں اسرائیلی وزیر خارجہ سے باقاعدہ ملاقات کی تھی۔

اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں پرویز مشرف نے کھل کر اعتراف کیا ہے کہ خورشید قصوری نے 2005ء میں میری ہدایت پر اسرائیلی وزیر خارجہ سے ملاقات کی تھی۔ یہ بات انھوں نے لندن میں اسرائیل کے کثیر الاشاعت روزنامے ”ہارتز“ کو خصوصی انٹرویو میں کہی۔ جنرل (ر) پرویز مشرف نے اپنے اس انٹرویو میں صراحت سے بہت سی ایسی باتیں کی ہیں، جو اس سے پہلے ان کے درجے کی کسی پاکستانی شخصیت نے نہیں کیں۔ انھوں نے کہا کہ اسرائیل کو تسلیم کر کے سفارتی تعلقات قائم
کرنا پاکستان کے مفاد میں ہے اور وہ پاکستان کے لیے مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں۔ اسرائیل بھی پاکستان کی طرح نظریاتی ریاست ہے۔ اس کا وجود ایک حقیقت ہے، ہمیں اسے تسلیم کرنا ہو گا۔ اس سے پاکستان بھارت کے قریب ہو سکتا ہے۔ پاکستان 1948ء سے فلسطینیوں کے ساتھ کھڑا ہے لیکن اب یہ پالیسی تبدیل ہونا چاہیے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ کسی بھی پاکستانی راہنما کا کسی اسرائیل اخبار کو یہ پہلا انٹرویو ہے۔ یہ انٹرویو اس پس منظر میں زیادہ اہم ہو جاتا ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے رواں ماہ کے آخر میں پاکستان آنے اور یہاں اپنی سیاسی پارٹی کو فعال کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ وہ ایک سیاسی پارٹی کے قائد کی حیثیت سے پاکستانی سیاست میں حصہ لینے کے لیے اپنے عزم کا بار بار اظہار کرتے رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ پاکستان کو ان کی ضرورت ہے اور وہ اپنے ویژن اور تجربے کی بنیاد پر پاکستان کو موجودہ مشکلات سے نکال سکتے ہیں۔ ان کے حالیہ انٹرویو سے عالمی سیاست کے بارے میں ان کے ویژن کے نہایت اہم پہلوﺅں کا اظہار ہوتا ہے۔

اسرائیلی مظالم کی تاریخ میں لبنان میں قائم صابرہ و شتیلا کے فلسطینی مہاجر کیمپوں میں فلسطینیوں کا بہیمانہ قتل عام انسانی حافظے میں ابھی تازہ ہے۔ سابق صدر پاکستان پرویز مشرف نے اس قتل عام کے ذمہ دار صہیونی فوجی جرنیل اور سابق اسرائیلی وزیراعظم ایریل شیرون کو بھی شاندار خراج تحسین پیش کیا۔ انھوں نے کہا کہ وہ ان کے بڑے فین ہیں۔ وہ درحقیقت احترام کے لائق ہیں۔ وہ یہودیوں کے عظیم جرنیل ہیں۔ اے کاش پرویز مشرف کو بھی کہا جا سکتا کہ وہ مسلمانوں کے عظیم جرنیل ہیں۔ امریکہ سے آنے والی ایک فون کال پر ڈھیر ہو جانے والے جرنیل کو کیا خبر کہ عزت نفس کیا ہوتی ہے اور کسی جرنیل کی عظمت کیا ہوتی ہے۔

لندن میں اخبار کی نمائندہ ڈانا ہرمان کو انٹرویو دیتے ہوئے پرویز مشرف نے دعویٰ کیا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے معاملے پر تمام پاکستانی ان کے ساتھ ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے سے یہودیوں کی مخالفت اور عالمی میڈیا کی تنقید سے نجات ملے گی۔ انھوں نے کہا کہ اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کی حمایت کی پالیسی اب حقائق اور حالات کے پیش نظر تبدیل ہونا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ امریکی صدارتی امیدوار کے لیے اسرائیل کا حامی ہونا ضروری سمجھا جاتا ہے، کوئی امیدوار اسرائیل کے خلاف بولے تو تمام یہودی اس کے خلاف ہو جاتے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ کسی روز وہ اسرائیل کا سرکاری دورہ کریں گے اور اسرائیلی صحافیوں کو دورہ اسلام آباد کی دعوت دیں گے۔

مرحوم فلسطینی راہنما یاسر عرفات کے بارے میں سابق صدر پاکستان کا کہنا تھا کہ انھوں نے مسئلہ فلسطین کے حل کی خاطر زیادہ کچھ نہیں کیا کیونکہ شاید وہ اپنی جان کے بارے میں ہمیشہ متفکر رہتے تھے۔ پرویز مشرف نے اپنے اس انٹرویو میں ایران کے جوہری پروگرام پر بھی اظہار خیال کیا۔ ان
کا کہنا تھا کہ تہران کو کسی ملک سے خطرہ نہیں، اس لیے ایران کے جوہری پروگرام کا کوئی جواز نہیں۔
اسرائیل، فلسطین، یاسر عرفات، پاکستان کی فلسطین پالیسی، ایران کی جوہری پالیسی اور فلسطین و لبنان کی حریت پسند تحریکوں کے بارے میں اپنے اس انٹرویو میں جنرل (ر) پرویز مشرف نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے انھیں اگر پرویز مشرف کے بجائے کسی امریکی سرکاری ترجمان کا بیان کر کے پڑھا جائے تو یقین کرنے میں لمحہ بھر توقف کی ضرورت نہ ہو گی۔ امریکی سرکاری ترجمان ان تمام موضوعات پر موبہ مو انہی خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔

پاکستان میں گیارہ برس سے زیادہ کی حکمرانی کے دوران میں اور پھر امریکہ و یورپ کی ہواﺅں میں کئی سال گزارنے کے بعد انھیں یقین ہو گیا ہے کہ پاکستان میں اقتدار کا ہما اس کے سر پر بیٹھتا ہے جس پر امریکہ مہربان ہو جائے۔ وہ چونکہ پاکستان میں پاور اسٹرگل میں حصہ لینے کے لیے آئندہ چند ہفتوں میں آنے کا ارادہ رکھتے ہیں اس لیے انھوں نے اپنے امریکی اور یورپی دوستوں کو یقین دلانے کی کوشش کی ہے کہ عالمی ایجنڈے پر آپ کی منشا پوری کرنے کے لیے پاکستان میں مجھ سے بہتر کوئی شخص نہیں ہو سکتا۔ ان امور پر انھوں نے صد در صد وہی باتیں کی ہیں جو ان کے خیال میں امریکہ میں کسی صدارتی امیدوار کو کرنا ہوتی ہیں۔ وہ خود بھی پاکستان میں امریکی و اسرائیلی حمایت حاصل کر کے مسند اقتدار کا پھر سے امیدوار بننے کی تمنا میں بے قرار ہیں۔

یوں محسوس ہوتا ہے کہ گذشتہ برس میں عالم اسلام میں بالخصوص اور پوری دنیا میں بالعموم جو تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں پرویز مشرف یا تو ان سے بالکل بے خبر ہیں یا پھر ہماری توقعات سے زیادہ ہوشیار ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ عالمی دباﺅ اور عوامی انقلابات کے بڑھتے ہوئے رجحان میں امریکہ کی مقتدرہ کو پاکستان میں ان خیالات کی حامل قیادت کی زیادہ شدت سے ضرورت ہے۔ ان کی بے خبری ہو یا ہوشیاری، بہر حال انھیں حسنی مبارک جیسے عوام کے منفور آمروں کا انجام ضرور سامنے رکھنا چاہیے۔ وہ جتنی بھی کوشش کر لیں، امریکہ اور اسرائیل کے لیے وہ حسنی مبارک سے بڑھ کر مقبول بارگاہ نہیں ہو سکتے اور نہ پاکستان جیسے ملک میں وہ حسنی مبارک جتنے دور
کے لیے مسند اقتدار پر فائز ہو سکتے ہیں۔

2010ء کے آخر میں تیونس سے اٹھنے والی انقلابی لہر نے شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں یکے بعد دیگرے امریکی حمایت یافتہ آمروں کے بت جس طرح سے الٹے ہیں، وہ پرویز مشرف جیسوں کے لیے باعث عبرت اور سبق آمور ہونے چاہئیں۔ فوج کے بل بوتے پر پاکستان کے اقتدار پر قابض رہنے اور اس دوران امریکی حمایت حاصل ہونے نے انھیں اس غلط فہمی میں مبتلا کر رکھا ہے کہ وہ پھر سے پاکستان میں اقتدار حاصل کر پائیں گے۔ ہماری خواہش ہے کہ وہ جلد از جلد پاکستان پہنچ جائیں، تاکہ انھیں آٹے دال کا بھاﺅ معلوم ہو جائے۔ وہ ق لیگ جو انھوں نے فوجی اقتدار کے زور پر بنائی تھی کب سے ”جیسے جانتے نہیں پہچانتے نہیں“ کا مصداق ہو چکی ہے۔ ان کے قریب ترین ساتھی شیرافگن نیازی یوں پردہ سکرین سے غائب ہیں کہ جیسے انھوں نے کبھی درباری راگ الاپا ہی نہ تھا۔

ان کا یہ کہنا کہ ”اسرائیل کو تسلیم کرنے کے معاملے پر تمام پاکستانی ان کے ساتھ ہیں“ 2012ء کا سب سے بڑا مذاق ہے۔ یہ ایک ایسا مذاق ہے کہ ان سے انٹرویو کرنے والی ”ڈانا ہرمان“ بھی زیر لب مسکرائی ہو گی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صہیونیوں کو خوش کرنے کے لیے پرویز مشرف اجلے
دن کو بھی سیاہ رات کہہ سکتے ہیں۔ ایسی بات کر کے خدا جانے وہ کس کو بے وقوف بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ پاکستان کے عوام اسرائیل سے شدید نفرت کرتے ہیں۔ اس کا اظہار وہ سالہا سال سے اپنے عوامی مظاہروں میں کر رہے ہیں۔ پرویز مشرف پاکستان کے کسی چوک، چوراہے یا میدان میں اپنے ان خیالات کی حمایت میں ایک چھوٹا سا جلسہ یا واک کا اہتمام کر کے دکھا دیں۔ حقیقت تو
یہ ہے کہ اسرائیل کی حمایت میں ان کے حالیہ انٹرویو نے انھیں پاکستان کے عوام کی نظروں میں مزید گرا دیا ہے اور پیسے کے زور پر کراچی میں پورے سندھ سے قافلے منگوا کر چند ہزار کا شو کر لینے سے بھی اس کی تلافی ممکن نہیں۔

جنرل (ر) پرویز مشرف پہلے شخص نہیں ہیں جنھوں نے یہ کہہ کر رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہو کہ اسرائیل بھی پاکستان کی طرح ایک نظریاتی ملک ہے۔ یہ بات صریح جھوٹ اور دھوکا ہے۔ پاکستان کا قیام برصغیر پاک و ہند کے مسلمان عوام کی شدید خواہش اور جمہوری جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ پاکستان میں بسنے والے لوگوں نے ہی پاکستان بنایا ہے۔ کیا پرویز مشرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ فلسطین میں بسنے والے لوگوں ہی نے فلسطینی سر زمین پر اسرائیل بنایا ہے؟ اسرائیل کی 90 فیصد سے زیادہ آبادی باہر سے لا کر بسائے گئے یہودی خاندانوں پر مشتمل ہے۔ اب بھی اسرائیل کے آباد کار یہودی خاندانوں میں بہت بڑی تعداد ایسی ہے جن کی دوہری شہریت ہے اور ان کے اپنے
گھر اور جائیدادیں ابھی تک ان ممالک میں باقی ہیں، جہاں سے انھیں بہت سی ترغیبات اور تحریصات کے ذریعے اسرائیلی آبادی بڑھانے کے لیے لا کر آباد کیا گیا ہے۔

دوسری طرف فلسطینیوں سے زمینیں چھینی گئی ہیں۔ انھیں خوفزدہ کیا گیا ہے۔ انھیں کیمپوں میں رہنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ لاکھوں فلسطینی خاندان دوسرے عرب ملکوں میں مہاجروں کی حیثیت سے رہ رہے ہیں۔ برطانیہ، امریکہ اور دوسرے سامراجی ملکوں کی حمایت اور مدد سے فلسطین کے سینے پر زبردستی مسلط کی جانے والی صہیونی ریاست کو پاکستان جیسی نظریاتی ریاست
قرار دینا، پرویز مشرف کی پرلے درجے کی جہالت کو ظاہر کرتا ہے یا پھر سامراجی قوتوں کی خوشنودی کے حصول کے لیے ان کے حرص و آز کا مظہر ہے۔ جہاں تک پاکستان کی فلسطین پالیسی کا تعلق ہے تو اس کے معمار بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ہیں۔ وہ اسرائیل کے قیام کے مخالف تھے اور انھوں نے ہمیشہ فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت کی ہے۔ ان کے بعد پاکستان کی تمام حکومتیں ان کے اس موقف پر کاربند رہی ہیں اور پاکستان کے عوام تو فلسطینی کاز کے زبردست حامی ہیں۔ قبل ازیں ایک اور فوجی آمر نے بھی اسرائیل کو پاکستان کی طرح ایک نظریاتی ریاست قرار دیا تھا اس وقت بھی پاکستان کے عوام نے اسے مسترد کر دیا تھا۔

عالم اسلام کے وہ حکمران جنھوں نے صہیونی ریاست کو تسلیم کیا، ان کے مسلمان عوام نے یکے بعد دیگرے انھیں اقتدار سے محروم کر دیا۔ سابق شاہ ایران بھی اسرائیل کو تسلیم کر چکا تھا۔ ایرانی عوام نے شاہی حکومت کو ختم کر کے ایران سے اسرائیلی سفارت خانہ ختم کر دیا اور سفارتخانے کی عمارت فلسطینیوں کے سپرد کر دی۔ ترکی میں بھی کئی برسوں سے اس حوالے سے
تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ ترکی نے سرکاری سطح پر غزہ پر اسرائیل مظالم کی مذمت کی، ترکی سے جانے والے فریڈم فلوٹیلا پر اسرائیل حملے کے بعد ترکی نے اب تک اسرائیل کے خلاف متعدد اقدامات کیے ہیں۔

مصر میں حسنی مبارک کی حکومت کے خاتمے کے بعد مصری عوام اسرائیل سے سفارتی تعلقات ختم کرنے کے لیے مسلسل مظاہرے کر رہے ہیں۔ انھوں نے اسرائیلی سفیر کو واپس جانے پر مجبور کر دیا ہے اور اسرائیل سفارت خانے سے اس کا پرچم اتار کر مصری پرچم لہرا دیا ہے۔ یہی صورتحال دیگر عرب ملکوں میں بھی ہے۔ ایسے میں پرویز مشرف کا یہ کہنا کہ پاکستان اسرائیل کے وجود کو جائز تسلیم کر لے، تاریخ کے پہیے کو الٹی حرکت دینے کی تمنا کے سوا کچھ نہیں۔

پرویز مشرف کا یہ کہنا کہ اسرائیل کا وجود ایک حقیقت ہے، حقیقت کے ایک ظاہری پہلو کا اظہار ہے۔ کامل حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل استعماری طاقتوں کا ناجائز فرزند ہے۔ یہ ریت پر اگنے والا ایک پودا ہے۔ ایک ہلکا سا عوامی سیلاب اسے اکھاڑ دینے کے لیے کافی ہے۔ مشرق وسطیٰ میں بڑھتا اور امنڈتا ہوا انقلاب اس امر کی خبر دینے کے لیے کافی ہے کہ وہ دن دور نہیں جب دیس بدیس سے لا کر اسرائیلی چڑیا گھر میں رکھے گئے پرندے پنجروں کے دروازے کھلتے ہی اپنے اپنے وطنوں کی طرف پرواز کر جائیں گے۔

اسرائیلی اخبار کو دیئے گئے اپنے انٹرویو میں پرویز مشرف نے ایران کی جوہری پالیسی کے حوالے سے جو کچھ کہا ہے اس پر افسوس ناک حیرت کا اظہار کیے بغیر چارہ نہیں۔ ان کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھوں نے امریکی پراپیگنڈا کے عین مطابق ایٹمی ٹیکنالوجی کے حوالے سے ایرانی پیش
رفت کو ایٹمی اسلحہ سازی کوشش تسلیم کر لیا ہے اور پھر یہ فتویٰ بھی صادر کر دیا ہے کہ ایران کو چونکہ کوئی خطرہ نہیں، اس لیے اسے اس کی ضرورت نہیں۔
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا!
ابھی تک عالمی توانائی ایجنسی نے یہ نہیں کہا کہ ایران واقعاً جوہری ہتھیار تیار کر رہا ہے۔ امریکی اور بعض دیگر انٹیلی جنس اداروں نے زیادہ سے زیادہ یہ کہا ہے کہ چند سالوں تک ایران ایسا کرنے کی صلاحیت حاصل کر سکتا ہے، جبکہ ایرانی موقف پہلے دن سے یہ رہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام اقتصادی مقاصد کے لیے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے این پی ٹی کے معاہدے پر دستخط کر رکھے ہیں جس کے تقاضوں کے مطابق وہ پرامن مقاصد کے لیے جوہری توانائی کے حصول کا حق رکھتا ہے، امریکہ اور اسرائیل کی اس کے خلاف دشمنی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ وہ بار بار ایران پر حملے کی دھمکیاں دے چکے ہیں۔ پرویز مشرف دنیا کے واحد ”مدبر“ ہیں، جو یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایران کو کوئی خطرہ نہیں۔

بھارت کی دوستی کے لیے بے قرار پاکستان کے سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل (ر) پرویز مشرف کے اس انٹرویو سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ہوتے تو پاکستان کبھی ایٹمی دھماکے نہ کرتا اور وہ اقتدار میں ہوں گے تو پاکستان کی دفاعی صلاحیت انتہائی خطرے سے دوچار ہو جائے گی۔ اس کے لیے ان کی اس دلیل پر نظر رکھنا ہی کافی ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے سے پاکستان بھارت کے بھی زیادہ قریب آ جائے گا۔ بھارت کی مزید قربت کے لیے وہ کشمیر کا سودا بھی کر سکتے ہیں۔ ان کے ماضی و حال کو دیکھ کر ان کی خدمت میں اہل پاکستان عرض کر سکتے ہیں:
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
خبر کا کوڈ : 129246
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش