QR CodeQR Code

جو میں نے دیکھا

11 Jan 2012 21:31

اسلام ٹائمز:اس ملاقات کے بعد ایک افسوس ناک پہلو اس وقت سامنے آیا، جب ملاقات کے اگلے ہی روز ملک کے بعض اخبارات اور پی ٹی آئی کی ویب سائٹ پر یہ لکھا ہوا تھا کہ مجلس وحدت مسلمین نے تحریک انصاف کی حمایت کا اعلان کر دیا اور نظام خلافت راشدہ کے نفاذ کی تائید کر دی۔ اس خبر نے جہاں مجلس وحدت مسلمین کی قیادت کو چونکا دیا، وہیں قومی اخبارات پڑھنے والے افراد یہ پڑھ کر ششدر رہ گئے کہ یہ اچانک کیا ہو گیا اور یہ حمایت کیسے کر دی گئی، اس سلسلہ میں مجلس کے میڈیا کوآرڈینیٹر نے فوراً امان اللہ سیال سے رابطہ کیا اور ان سے استفسار کیا کہ یہ کیسے ہو گیا کہ پی ٹی آئی کی جانب سے ایک غلط بیان جاری کیا گیا، جب تحقیق کی گئی تو پتہ چلا کہ تحریک انصاف کے میڈیا سینٹر نے یہ خبر چلائی اور تمام نیوز ایجنسیز کو باقاعدہ پریس ریلیز جاری کی گئی۔


تحریر:نادر بلوچ
 
مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی آفس میں عمران خان کی آمد سے متعلق اسلام ٹائمز پر سب سے پہلے اسٹوری بریک ہوئی تھی، جس کے بعد فیس بک اور دیگر سوشل نیٹ ورکس پر مختلف احباب نے اس اسٹوری پر اپنے اپنے تاثرات درج کیے۔ جن میں بعض دوستوں نے اپنے کئی خدشات کا اظہار کیا کہ عمران خان کو ایم ڈبلیو ایم کے آفس نہیں آنا چاہیے اور مجلس کی قیادت کو انہیں ویلکم نہیں کہنا چاہیے۔ دلائل میں کہا گیا کہ عمران خان طالبان کا حامی ہے وغیر ہ وغیرہ، جبکہ بعض احباب نے دوستوں کو مثبت پہلو کی جانب متوجہ کیا کہ گھر آئے مہمان کو خوش آمدید کہنا چاہیے نہ کہ ایسا رویہ اختیار کیا جائے جو اسلامی تعلیمات کے منافی ہو۔

دوستوں کے فیس بک اور دیگر گروپس پر درج کیے گئے تاثرات سے یہ ظاہر ہو رہا تھا جیسے عمران خان ایم ڈبلیو ایم سے حمایت لینے آ رہے ہوں اور مجلس وحدت مسلمین کی قیادت نے اصولی طور پر فیصلہ کر لیا ہو کہ عمران خان آئیں گے تو وہ اُن کی حمایت کا اعلان کر دیں گے، حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں تھی اور نہ ہی مجلس وحدت مسلمین کی لیڈر شپ سے عمران خان کی جانب ملاقات کرنے کی خواہش میں یہ ظاہر کیا گیا تھا کہ وہ حمایت لینے آ رہے ہیں، یہ ایک روٹین کی ملاقات تھی جو مختلف شخصیات اور تنظیموں کے سربراہوں کے درمیان ہوا کرتی ہے۔ 

اس سے پہلے ایم ڈبلیو ایم کا ایک وفد بنی گالا اسلام آباد میں عمران کی رہائش گاہ پر اُن سے ملاقات کر چکا تھا، جس میں عمران خان کو مجلس کی طرف سے علامہ شہید عارف حسین الحسینیی کی برسی کے پروگرام میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب عمران خان کی مقبولیت اتنی نہیں تھی جتنی آج ہے۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے غالباً یہ ملاقات جولائی دوہزار دس میں ہوئی تھی، اس کے علاوہ عمران کراچی میں نیٹو سپلائی کے خلاف دھرنے میں شرکت کیلئے مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی ترجمان علامہ حسن ظفر نقوی کو دعوت دینے اُن کی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے تھے جس پر علامہ حسن ظفر نے باقاعدہ اس دھرنے میں شرکت کی اور خطاب بھی کیا تھا۔ قصہ مختصر یہ کہ وہ دن آن پہنچا جب عمران خان وفد کے ہمراہ العارف ہاؤس تشریف لائے۔

میں پونے بارہ بجے کے قریب ایم ڈبلیو ایم کے دفتر پہنچا تو دیکھا کہ میڈیا کا ہجوم عمران خان کے انتظار میں تھا، تمام الیکٹرونک میڈیا کی ڈی ایس این جیز براہ راست کوریج کیلئے اپنی پوزیشنوں پر کھڑی تھیں، میڈیا پرسنز کی یہ توقعات تھیں کہ شائد کوئی غیر معمولی اعلانات ہوں، جو اُن کی ہیڈ لائنز کا حصہ بن سکیں، خان صاحب نے پونے بارہ پہنچنا تھا لیکن وہ لیٹ ہو گئے اور آتے آتے ٹائم ایک بجے سے بھی اوپر ہو گیا۔ میڈیا کے دوست بہت ناراض تھے کہ عمران خان کافی لیٹ چکے ہیں۔ صحافیوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ابھی سے یہ حال ہے، اگر عمران وزیراعظم بن گیا تو نہ جانے کیا کرے گا۔ بالآخر وہ وقت آن پہنچا، جب خان صاحب وفد کے ہمراہ ’’العارف ہاؤس‘‘ پہنچے اور مجلس وحدت مسلمین کی قیادت نے مشرقی اور اسلامی روایات کی مکمل پاسداری کرتے ہوئے انہیں خوش آمدید کہا۔

عمران خان سے ہونے والی اس ملاقات میں بندہ ناچیز بنفس نفیس موجود تھا اور تمام چیزوں کو تنقیدی نگاہ سے دیکھ رہا تھا۔ خان صاحب جیسے ہی بیٹھے تھے اور ابھی تعارف بھی نہیں ہوا تھا کہ انہوں نے یہ بات چھیڑ دی کہ حالات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں اور لگ رہا ہے کہ امریکہ ایران کا گھیرا تنگ کر رہا ہے اور ممکن ہے کہ اگلے چند ماہ کے دوران ایران پر ائیر اسٹرائیک کر دے اور پاکستان پر دباؤ ڈالے کہ وہ اس جنگ کا حصہ بنے۔ خان صاحب نے کہا کہ ایران کے مرکزی بینک پر پابندیاں لگا دی گئیں، جو برادر اسلامی ملک کے معاشی نظام کو تباہ کرنے کی امریکی سازش ہے۔ خان صاحب نے یہ بھی کہا کہ حکومت پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی ملک کے عوام اور اپنے مفاد میں بنانی چاہیے اور کسی بیرونی دباؤ کو خاطر میں نہیں لانا چاہیے۔ 

خان صاحب کی ان باتوں نے مجھے کچھ لمحات کیلئے سوچنے پر مجبور کر دیا کہ انہوں نے تمام شخصیات کا تعارف ہونے سے پہلے ہی یہ بات کیوں چھیڑی؟ اور اس سے اُن کا کیا مقصد ہے۔ خان صاحب کی ان باتوں سے مجھے یہ تاثر ملا جیسے انہیں پہلے سے ہی اُن کے مشیر نے بریف کر دیا ہو کہ وہ شیعہ علماء اور عوام میں نرم گوشہ بنانے کیلئے ایران سے متعلق یہ بات کریں اور گیس پائپ لائن منصوبہ پر اپنا مؤقف واضح کریں۔ جیسا کہ انہوں نے پریس کانفرنس میں بھی اس بات کا اعلان کیا کہ اگر ایران گیس پائپ لائن پاکستان کے مفاد میں ہے تو اسے ہرصورت آنا چاہیے اور وہ اس کی حمایت کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ عمران خان اس بات کو بھی تسلیم کیا کہ ان کے بارے میں ملت تشیع میں تحفظات پائے جاتے ہیں۔

پریس کانفرنس کے بعد دونوں جماعتوں کی قیادت دوبارہ بیٹھی اور ملکی صورتحال پر بحث شروع ہو گئی، مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے ایک رہنماء نے عمران خان سے سوال کیا کہ خان صاحب آپ کی ریلیوں میں اکثر نوٹ کیا گیا ہے کہ کالعدم سپاہ صحابہ کے جھنڈے نظر آتے ہیں جس سے ملت تشیع میں یہ تاثر بڑی تیزی سے پختہ ہوتا جا رہا ہے کہ آپ کا ان سے کوئی خاص تعلق ہے اس پر آپ کیا کہیں گے؟ عمران خان نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ اُن کا کالعدم سپاہ صحابہ سے تعلق ہے اور نہ ہی کبھی رہا ہے، اگر کوئی اپنی مرضی سے ریلی میں جھنڈے لیکر آتا ہے تو یہ اور بات ہے، تاہم پی ٹی آئی کی جانب سے ایسی کوئی پالیسی نہیں، ابھی اس سوال کا جواب مکمل نہیں ہوا تھا کہ ایک اور سوال کیا گیا کہ خان صاحب آپ کی جانب سے پاراچنار، ڈی آئی خان اور بلوچستان میں ہونے والی شیعہ ٹارگٹ کلنگ پر کوئی مذمتی بیان دیکھنے کو نہیں ملتا، اس کی کیا وجہ ہے؟ اس پر عمران خان نے کہا کہ انہوں نے مستونگ اور دیگر واقعات کی مذمت کی ہے۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ پاراچنار ایشو پر پریس میں بیان نہ چھپے، جس پر کسی اور فرد نے کہا خان صاحب آج کل میڈیا سب سے زیادہ کوریج آپ ہی کو دے رہا ہے، یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ کوئی بیان دیں اور میڈیا نشر نہ کرے۔ باتیں ہوتی رہیں، اتنی دیر میں کھانے پر بلایا لیا گیا اور سب کھانا کھانے میں مصروف ہو گئے۔

باتوں کا سلسلہ کھانا کھانے کے دوران بھی جاری رہا، عمران خان نے کہا کہ اُن کی کوشش ہے کہ تمام مکاتب فکر کو ایک پرچم تلے جمع کریں اور بندوق کی نوک پر کسی بھی نظام کو رائج نہ ہونے دیا جائے اور اس کے لئے وہ شعوری کوششیں بھی کر رہے ہیں، عمران خان نے کہا کہ انہیں کالعدم سپاہ صحابہ کی دوسرے درجے کی لیڈر شپ سے پیغام ملا ہے کہ وہ شیعہ تنظیموں سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں اور وہ اگر دونوں طرف سے آپس میں افہام و تفہیم پیدا کرانے میں کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں تو ضرور کریں۔ 

اس پر شیعہ رہنماؤں کی جانب سے کوئی بات نہیں ہوئی، جس پر عمران خان خاموش ہو گئے۔ اتنے میں علامہ محمد امین شہیدی نے عمران خان سے پوچھا کہ خان صاحب آپ بعض اوقات اپنی تقریروں میں ڈاکٹر علی شریعتی کی باتوں کو نقل کرتے ہیں، آپ نے ڈاکٹر شریعتی کو کتنا پڑھا ہے۔؟ اس پر عمران خان نے کہا کہ انہوں نے ڈاکٹر صاحب کا تمام لٹریچر پڑھا ہے اور وہ اگر کسی سے متاثر ہیں تو وہ ڈاکٹر علی شریعتی کی ذات ہے، بہرحال ملاقات ختم ہوئی، عمران خان کو مجلس وحدت کی جانب سے ڈاکٹر شہید مرتضٰی مطہری کی کتابیں بطور تحفہ پیش کیں گئیں، جس پر عمران خان نے تمام احباب کا شکریہ ادا کیا۔

اس ملاقات کے بعد ایک افسوس ناک پہلو اس وقت سامنے آیا جب ملاقات کے اگلے ہی روز ملک کے بعض اخبارات اور پی ٹی آئی کی ویب سائٹ پر یہ لکھا ہوا تھا کہ مجلس وحدت مسلمین نے تحریک انصاف کی حمایت کا اعلان کر دیا اور نظام خلافت راشدہ کے نفاذ کی تائید کر دی۔ اس خبر نے جہاں مجلس وحدت مسلمین کی قیادت کو چونکا دیا، وہیں قومی اخبارات پڑھنے والے افراد یہ پڑھ کر ششدر رہ گئے کہ یہ اچانک کیا ہو گیا اور یہ حمایت کیسے کر دی گئی، اس سلسلہ میں مجلس کے میڈیا کوآرڈینیٹر نے فوراً امان اللہ سیال سے رابطہ کیا اور ان سے استفسار کیا کہ یہ کیسے ہو گیا کہ پی ٹی آئی کی جانب سے ایک غلط بیان جاری کیا گیا، جب تحقیق کی گئی تو پتہ چلا کہ تحریک انصاف کے میڈیا سینٹر نے یہ خبر چلائی اور تمام نیوز ایجنسیز کو باقاعدہ پریس ریلیز جاری کی گئی۔

جب میڈیا کوآرڈینیٹر سے استفسار کیا گیا تو انہوں نے عجیب منطق پیش کی کہ خان صاحب جن افراد سے بھی ملاقات کرتے ہیں تو اس کا مطلب اتحاد اور حمایت کا اعلان ہی ہوتا ہے، جب اُن سے سوال کیا گیا کہ عمران تو کسی اور کے مہمان تھے، لہٰذا میڈیا کوریج اور پریس ریلیز جاری کرنا میزبان کا کام ہوتا ہے اور آپ نے بغیر تحقیقات کے من گھڑت بات کو کیسے آگے منتقل کر دیا؟ جس پر وہ صاحب خاموش ہو گئے اور اُن کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔ حالانکہ پوری ملاقات میں خان صاحب نے کہیں ایک جملہ بھی ایسا ادا نہیں کیا کہ وہ حمایت حاصل کرنے آئے ہیں یا مجلس کی قیادت کی جانب ایسی گفتگو کی گئی ہے، جس سے کوئی حمایت کا پہلو نکلتا ہو، خان صاحب کے میڈیا سینٹر کی اس غیرذمہ داری کے جواب میں مجلس وحدت کی جانب باقاعدہ اس کا تردیدی بیان جاری کیا گیا ہے اور اس کی مذمت کی گئی۔

اس ساری صورتحال سے عمران خان کی دوغلی پالیسی کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ وہ کس طرح ملاقاتیں کرتے ہیں اور پی ٹی آئی کی جانب سے اُن ملاقاتوں کو کس طرح کا رنگ دیا جاتا ہے۔ اگر ایسا دانستہ طور پر کیا گیا ہے تو یقیناً شیعہ قوم کے دلوں میں عمران خان کی محبت پیدا ہونے کی بجائے نفرت میں اضافہ ہوا ہے اور اگر غیر دانستہ ہوا ہے تو عمران خان کو پوری قوم سے معافی مانگنی چاہیے اور اپنی اصلاح کرنا ہو گی ورنہ وہ ایسے ہتھکنڈوں سے کبھی بھی عوام کو دھوکہ نہیں دے سکتے۔


خبر کا کوڈ: 129583

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/fori_news/129583/جو-میں-نے-دیکھا

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org