0
Monday 16 Jan 2012 14:08

بدلتی دنیا اور پاکستان

بدلتی دنیا اور پاکستان
تحریر:ثاقب اکبر
 
دنیا میں تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ گذشتہ برس تبدیلیوں کی رفتار میں نسبتاً تیز رفتار اضافہ ہوا ہے۔ مجموعی طور پر گذشتہ صدی کی آخری چوتھائی میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں نے آئندہ آنے والی تبدیلیوں کارخ معین کر دیا تھا۔ 1979ء میں ایران کے اسلامی انقلاب کو ان میں سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے۔ اس کے بعد افغانستان میں سوویت یونین کی فوجی مداخلت اور پھر چند برسوں کے اندر اندر اشتراکیت کی ہمہ گیر شکست عالمی سطح پر وسیع تر تبدیلیوں کا پیغام بن گئی۔ پہلی خلیجی جنگ بھی اسی زمانے کا ایک بڑا واقعہ ہے۔ نئی صدی کے آغاز میں 11 ستمبر کے واقعے نے مزید فعال تغیرات کی بنیاد رکھی۔ اس کے بعد بظاہر تو اسی واقعے سے جڑے ہوئے واقعات دکھائی دیتے ہیں لیکن درحقیقت ان کے پیچھے جدید تاریخ کے مذکورہ دو واقعات نہایت اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
 
اسی دوران عالمی اقتصادی افق پر نئے چین کا ظہور نیز بھارت اور پاکستان کے ایٹمی دھماکے بھی نئی دنیا کی تشکیل میں اہم کردار کے حامل ہیں۔ 11 ستمبر کے واقعے کی سچائی تو ابھی ثابت ہونا باقی ہے، لیکن اس امر کے سچ ہونے میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ نے دنیا کے بارے میں اپنے نئے تصورات اور نئے منصوبوں پر عمل درآمد کے لیے اس سے فائدہ اٹھانے میں ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کیا۔ دہشت گردی کے خلاف نئی عالمی جنگ چھیڑنے کی ضرورت کا ثبوت اسی واقعے نے مہیا کیا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو اس مقصد کے لیے استعمال کرنے کے لیے فضا بہت سازگار تھی۔
 
پھر کیا تھا؟ ”عالمی برادری“ نے افغانستان پر فوجی قبضہ کر لیا۔ اسی شور شرابے میں مناسب سمجھا گیا کہ عراق پر بھی فوجی قبضہ کر لیا جائے۔ اس کے لیے سلامتی کونسل کی حمایت تو حاصل نہ ہو سکی، لیکن امریکہ بہادر پر اپنے نیو ورلڈ آرڈر کے نفاذ کا بھوت سوار تھا، لہٰذا اس نے اس مسئلے میں سلامتی کونسل کو بھی درخوراعتنا نہ جانا۔ عراق پر فوجی قبضے کے فوری بعد شام پر بھی دباﺅ بڑھانے کے لیے منصوبے سامنے آنا شروع ہو گئے۔ لبنان کے سابق وزیراعظم رفیق حریری کا خون اس عمارت کی تعمیر کے لیے بہت مناسب سمجھا گیا۔ اس کا امریکہ کو یہ فائدہ تو ہوا کہ شام دباﺅ میں آ گیا اور اسے لبنان سے فوجیں نکالنا پڑیں۔ اب حزب اللہ کا صفایا آسان سمجھا گیا۔ حزب اللہ کے خاتمے کے لیے دنیا کی پانچویں بڑی فوجی قوت نے پہلی بڑی فوجی قوت کی زبردست حمایت کے ساتھ وحشیانہ کارروائی شروع کی، لیکن چند ہفتوں کے بعد آخرکار شکست کے اعتراف کے ساتھ پیچھے ہٹنا پڑا۔
 
 11 ستمبر کا واقعہ بڑا تھا یا حزب اللہ کے چھوٹے سے گروہ کے ہاتھوں اسرائیل کی شکست ایک بڑا واقعہ تھا؟ واقعات تو دونوں ہی بڑے تھے، لیکن تاریخ کو ابھی فیصلہ کرنا ہے کہ زیادہ بڑا واقعہ کون سا تھا۔ عرب عوام نے اسرائیل کی حزب اللہ کے ہاتھوں شکست سے جو پیغام لیا اس کا اظہار 2010ء کے آخر میں تیونس سے پھوٹنے والے انقلاب کی لہر سے ہوا۔ 2011ء کے آغاز میں یہ انقلاب پورے شمالی افریقہ اور مشرق وسطی کو متاثر کرنے لگا۔ 2011ء جوں جوں خاتمے کی طرف بڑھ رہا تھا قاہرہ کا میدان تحریر (Freedom Square) وسیع سے وسیع تر ہوتا جا رہا تھا۔ یہاں تک کہ وہ نیویارک کی وال اسڑیٹ سے جا ملا۔ پھر کیا تھا اب وال اسڑیٹ پھیلنے لگی۔ دنیا کے سینکڑوں شہروں میں ایک ہی دن میں سینکڑوں مظاہروں میں لاکھوں انسانوں نے عالمی سطح پر تبدیلی کی اسی خواہش کا اظہار کیا جو قاہرہ کے میدان تحریر میں سامنے آئی تھی۔ شعور کی ایک جیسی سطح کا یہ عالمی اظہار اس سے پہلے مشرق سے طلوع ہو کر مغرب میں ہر روز غروب ہونے والے خورشید نے مشرق و مغرب میں کہیں نہ دیکھا ہو گا۔
 
یہ تبدیلیاں آئندہ کیا رُخ اختیار کریں گی، کہاں بند باندھا جائے گا، کہاں رخ موڑا جائے گا اور کہاں بند میں شگاف ڈالا جائے گا۔ ابھی اس بارے میں کھل کر زیادہ بات کرنے کا محل نہیں،  لیکن اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ جس رفتار سے اور جس وسعت سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، وہ معاشرے کے حساب دانوں کو چونکاتی رہیں گی۔ ایسے میں دنیا کے بعض خطے اور بعض ممالک آج بھی یوں لگتے ہیں جیسے ان پر ان تبدیلیوں کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ پاکستان کے بارے میں یہ بات سو فیصد تو درست نہیں لیکن یہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ ان تبدیلیوں کا پاکستان پر اثر نہایت کم دکھائی دیتا ہے، اگرچہ ضروری نہیں کہ مستقبل قریب میں بھی یہی صورتحال باقی رہے۔ 

عالمی سرمایہ داری نظام جس ادھیڑ بن کا شکار ہے، پاکستان کیا دنیا کا کوئی ملک بھی اس کے اثرات سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ افغانستان کے بارے میں امریکہ کے مستقبل قریب کے فیصلے بھی پاکستان پر اپنے اثرات ضرور مرتب کریں گے۔ افغانستان میں امریکہ کی آمد کے تقریباً دس سال بعد پاکستان کی فوج نے امریکہ کے بارے میں اپنی حکمت عملی میں جس تبدیلی کا عملی اظہار کیا ہے اسے پاکستان میں ایک پاپولر فیصلہ قرار دیا جائے تو بالکل بجا ہو گا۔ کھلے بندوں مطالبہ کر کے پاکستان نے امریکہ سے شمسی ائیر بیس جس طرح خالی کروایا ہے، اسے بھی ایک بڑا فیصلہ قرار دینا پڑے گا۔ اسی طرح اب کی مرتبہ نیٹو کو زمینی سپلائی کی بندش کی مدت گذشتہ ایک بندش کی نسبت خاصی طویل ہو گئی ہے اور دفاعی وزارتی کمیٹی نے اپنے ایک حالیہ بیان میں فی الحال اسے جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر حکومت اور فوج کے مابین محاذ آرائی شروع نہ ہوئی ہوتی تو اس حوالے سے مزید پیشرفت بھی ہو سکتی تھی۔
 
تاہم جیسی تبدیلیاں عالم عرب میں دکھائی دے رہی ہیں ویسی پاکستان میں دکھائی نہ دینے کی متعدد اہم وجوہات ہیں، جن میں سے چند ایک کی طرف ذیل میں اشارہ کیا جاتا ہے:
 
(1) عرب دنیا میں آمریتوں کا جیسا طویل سلسلہ رہا ہے نیز بعض ملکوں میں خاندانی بادشاہتیں قائم ہیں، پاکستان میں ویسی صورتحال درپیش نہیں ہے۔ پاکستان میں مختلف وقفوں سے منتخب جمہوری حکومتیں قائم رہی ہیں اور آمریتوں کا دورانیہ عرب دنیا کی نسبت کہیں کم رہا ہے۔
 
(2) عرب دنیا کے بیشتر حکمرانوں نے امریکہ اور اسرائیل کے حوالے سے جو طرزِ عمل اختیار کر رکھا ہے اس کی وجہ سے عوام میں ان کی عدم مقبولیت زیادہ ہو گئی، جبکہ پاکستان کی حکومتوں نے بظاہر فلسطینی کاز کی حمایت کا سلسلہ جاری رکھا، ویسے بھی عرب حکمرانوں کو جس طرح سے فلسطین کے مسئلے کا سامنا ہے، پاکستان کو نہیں ہے۔
 
(3) پاکستان کی کسی بھی حکومت نے امریکہ کی شدید مخالفت کے باوجود جوہری توانائی کے معاملے میں اور بعض دیگر امور میں امریکہ کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے۔
 
(4) پاکستان کا معاشرہ بالعموم موجودہ عرب معاشروں کی نسبت کھلاہے اور ناجائز پابندیوں کی شکایت کے باوجود اظہار رائے کی آزادی نسبتاً زیادہ رہی ہے۔ اس لیے حکمران طبقوں کے خلاف ویسا ردعمل منظم نہیں ہو سکا، جیسا عرب دنیا میں ہوا ہے۔
 
(5) پاکستان کا میڈیا پاکستان سے باہر کی خبریں بہت کم نشر کرتا ہے۔ اخبارات میں غیرملکی خبروں کا حصہّ اول تو کم ہوتا ہے، ثانیاً غیرنمایاں۔ الیکٹرانک میڈیا کا بھی یہی حال ہے۔ مشرق وسطٰی میں اسلامی بیداری یا بہارِ عرب ہو یا وال اسڑیٹ قبضہ کی تحریک، پاکستانی میڈیا سے وابستہ عوام کو اس کے بارے میں بہت کم معلومات ہیں۔ لہٰذا ان کے اثرات عوام پر کیونکر ہو سکتے ہیں۔
 
ان سب کے باوجود عالمی استعمار کے خلاف پاکستانی عوام کا موقف دنیا میں تبدیلیوں کے لیے اٹھنے والے عوام سے ہم آہنگ ہے۔ دنیا میں رونما ہونے والے تغیرات کی رفتار کچھ مزید تیز ہوئی تو پاکستانی عوام کو ان کا ساتھ دینے میں کوئی فکری اور نظریاتی مشکل پیش نہیں آئے گی۔ پاکستان کا بنیادی مسئلہ ایسی قیادت کا منظر عام پر نہ ہونا ہے جو عالمی سطح کا شعور رکھتی ہو اور ان تقاضوں کی روشنی میں رائے عامہ کو منظم کر سکتی ہو، لیکن بظاہر ایسی قیادت مصر اور نیویارک میں بھی دکھائی نہ دیتی تھی۔
 
پاکستان میں نئے انتخابات نزدیک ہیں اور عوام ایک ایسی جمہوری حکومت کا خواب ضرور دیکھ رہے ہیں جو عدل اجتماعی کے اصولوں کے مطابق اس ملک کو چلائے۔ کرپشن، بدانتظامی، نااہلی اور غیرملکی مداخلت کے خاتمے کے ایجنڈے پر پاکستان کے عوام متفق دکھائی دیتے ہیں۔ اس ایجنڈے پر اگر یہ اتفاق رائے باقی رہے تو اس ملک میں بھی ایک بڑی تبدیلی کی امید کی جا سکتی ہے۔ البتہ اس تبدیلی کی رفتار اور رخ کا تعین افغانستان میں موجود امریکی فوج کے مستقبل کے فیصلوں سے بھی جڑا ہوا ہے۔ اس اجمال کی ایک تفصیل بھی ہے، جسے فی الحال آئندہ پر اٹھا رکھتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 130734
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش