0
Wednesday 18 Jan 2012 20:30

پاکستان میں جمہوریت کے مسائل

پاکستان میں جمہوریت کے مسائل
 تحریر:جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم
 
ڈیموکریسی ایک یونانی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے "Rule of the People"یہ لفظ پہلی دفعہ چوتھی یا پانچویں صدی قبل مسیح میں استعمال کیا گیا۔ اس نظام میں ہر شہری اور ادارے کےLegitimized rights یعنی قانون حقوق اور Liberties کو آئین مکمل تحفظ دیتا ہے۔ Transparency یا شفافیت کو جمہوریت کی ماں اور Accountability یا احتساب کو جمہوریت کا باپ سمجھا جاتا ہے، جن کو جمہوریت سے جدا نہیں کیا جا سکتا، اور ان والدین کے بغیر ٹیسٹ ٹیوب طریقے سے بھی جمہوریت کا جنم ممکن نہیں۔ اگر صرف پنجاب صوبے میں 41 چینی کے کارخانے ہیں اور اُن میں سے20 کے مالک وہ سیاستدان ہیں جو حکومتی ایوانوں میں بیٹھ کر چینی کی قیمت خود مقرر کرتے رہے ہیں تو کیا ایسی صورت میں Transparency کو ممکن بنایا جا سکتا ہے اور اگر ان سیاستدانوں میں سے چند ایک نے بطور مرکزی وزیر چند ماہ میں قیمتوں کو اوپر نیچے کر کے ایک سے دو اور دو سے چار ملیں کھڑی کر لی ہیں تو کیا اعلٰی عہدوں پر بیٹھے ہوئے ان امیر ترین وڈیروں کا احتساب ممکن ہے۔؟ اگر اس کا جواب نفی میں ہے تو پھر یہ مان لیا جائے کہ پاکستان میں رائج موجودہ جمہوری نظام ملک کے لیے زہر قاتل سے کم نہیں۔
 
فوج کا ملک کی باگ ڈور سنبھالنا تو کسی لحاظ سے بھی جائز نہیں، چونکہ فوجی دور میں بھی حکومت دراصل اقتدار کے بھوکے ٹرن کوٹ سیاستدان ہی کرتے ہیں چونکہ کوئی حاضر سروس جنرل، بریگیڈئیر یا کرنل کابینہ کا رکن ہوتا ہے نہ پارلیمنٹ کا ممبر اور موجودہ حالات میں تو جب مغربی محاذ پر ہماری افواج حالت جنگ میں ہیں۔ آرمی چیف کا سیاسی معاملے میں مداخلت کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ خصوصاً ایسی صورتحال میں جب مشرقی محاذ پر دشمن اس تاک میں بیٹھا ہے کہ موقعہ ملتے ہی اعلانیہ یا غیر اعلانیہ پاکستان کی کمر کو ہاتھ ڈال کر اس کو بچھاڑ دے۔ مغربی محاذ پر دنیا کی فوجی اور معاشی لحاظ سے عظیم ترین طاقت براہ راست اور ڈرون حملوں سے متعدد بار ہماری جغرافیائی حدود کا نہ صرف تقدس پامال کر چکی ہے بلکہ پاکستان کو زبردست جانی نقصان بھی پہنچا چکی ہے۔
 
مالاکنڈ اور سوات میں داخل ہونے والے فوجی دستے ابھی تک اس لیے واپس نہیں ہو سکے چونکہ کے صوبے میں سول انتظامیہ نام کی کوئی چیز نہیں۔ جنوبی وزیرستان میں داخل فوج بھی اس وقت تک نکالی نہیں جا سکتی جب تک افغانستان کے مسئلے کا کوئی سیاسی حل سامنے نہیں آ جاتا۔ پھر فوج کے اپنے پیشہ وارانہ تربیت اور modernisation کے گھمبیر مسائل ہیں جن پر دھیان دینا انتہائی ضروری ہے۔ ملک کی اندوہناک معاشی حالت نے جہاں عوام کو بے بس کر رکھا ہے وہاں قومی سلامتی اور دفاع کے لیے بھی زبردست خطرات پیدا ہو گئے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ چونکہ افواج پاکستان ملک کا واحد مضبوط ترین فعال، موثر اورقابلِ فخر ادارہ ہے اس لئے پاکستان کے دشمن اس پر ہر قسم کے سیاسی، سفارتی، صحافتی اور نفسیاتی حملے کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ اس لیے کہ صرف فوج کو کمزور کر کے یا توڑ کر ہی پاکستان کو بھوٹان یا نیپال بنایا جا سکتا ہے۔ 

سیاست میں آ کر فوج کا ادارہ ان ملک دشمن طاقتوں کے پراپیگنڈے کا براہ راست نشانہ بنے گا جو ملکی مفاد میں بالکل نہیں۔ کچھ عاقبت نااندیش نام نہاد سیاسی قائدین اپنی سیاسی دکانیں چمکانے کے لیے جب اپنی افواج کو تنقید کا سرعام نشانہ بناتے ہیں تو یہ ایسے ہے جیسے ماں اپنے جواں ’’گبرو‘‘ بیٹوں کو دودھ میں نیلا تھوتھا ملا کر پلا دے۔ دنیا کے ممالک اپنی افواج کے حوصلے بلند رکھتے ہیں چونکہ بقول ملکہ ترنم ’’ای پتر ہٹاں تے نہی ویکدے‘‘۔ یہ حملے افواج پر نہیں بلکہ پاکستان پر ہوتے ہیں، میرے خیال میں وزیراعظم صاحب کی مندرجہ ذیل غلطیوں نے موجودہ داخلی خلفشار پیدا کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
 
(1) اسٹیبلشمنٹ اور سکیورٹی ایجنسیز کے اعتراضات کے باوجود امریکی دباؤ اور صدر کے کہنے پر دنیا کے اہم ترین ملک میں سیاسی بنیادوں پر نہ صرف ایک متنازع اور غیر پیشہ ور سفیر لگایا بلکہ حساس اداروں کی سفارشات کے خلاف ایک بہت بڑی کابینہ میں چند ایسے وزاراء کو بھی اہم ترین وزارتیں سونپ دیں، جن کی قومی ساکھ کسی لحاظ سے قابل تعریف نہ تھی۔
 
(2) سفیر کی غلط تعیناتی نے کیری لوگر قانون کی بدبودار زبان کو جنم دیا، جس سے سول ملٹری تعلقات مزید متاثر ہوئے، ساتھ ہی کابینہ میں موجود متنازع وزراء نے عدلیہ کا سرعام مذاق اُڑا کر، انتظامیہ اور عدلیہ کے تعلقات میں بھی خوفناک دڑاریں ڈال دیں اور عدالت عالیہ ملک کے چیف ایگزیکٹو کو بددیانت کہہ کر توہین عدالت کا نوٹس دینے پر مجبور ہو گئی۔
 
(3) کیری لوگر قانون کی لائنوں میں پنہاں پاکستان دشمن بارود جب میمو گیٹ کی صورت میں پھٹا تو وزیراعظم نے افواج کے سربراہان کو در پردہ اعتماد میں لینے کی بجائے نہ صرف ملزم کو پرائم منسٹر ہاؤس میں پناہ دی، بلکہ آرمی چیف پر قانون کی خلاف ورزی کا الزام لگا کر پوری قوم کو حیران کر دیا۔
 
(4) سیکرٹری دفاع کو عجلت میں اس بات پر برخواست کیا گیا کہ وہ اپنے حلفیہ بیان میں وہ چیز شامل کرنے کے لیے تیار نہ تھا جس کو وہ حلفاً غلط سمجھتا تھا۔ 

قارئین کرام ان کمزرویوں کے بعد آیئے ہم دیکھیں کہ موجودہ وزیراعظم کی جائز مجبوریاں کیا ہیں۔ ان میں سرفہرست تو یہ ہے کہ وزیراعظم حکمران سیاسی جماعت کے سربراہ نہیں۔ جماعت کا ٹکٹ نہ ملے تو شائد وہ اپنی سیٹ بھی نہ جیت سکیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ حکمران جماعت کی اسمبلی میں اکثریت نہیں۔ چھوٹی جماعتوں نے مطلوبہ تعاون دینے کے لیے منہ مانگی وزارتوں کی رشوت ہی حاصل نہیں کی بلکہ حکمران جماعت کو ہر موقعہ پر ناک سے لکیریں بھی نکلوائیں۔ ان جماعتوں کے وزراء نے حکومتی خزانے کو دونوں ہاتھوں سے اتنا لوٹا کہ پیپلز پارٹی کے اس ہنر میں پی ایچ ڈی وزراء بھی حیران رہ گئے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس سلسلے میں وزیراعظم کے اہل خانہ نے بھی وزیراعظم سے کوئی ہمددری نہ کی۔ تیسری بات یہ ہے کہ وزیراعظم کو گورنس کا کوئی تجربہ تھا نہ اُن کے سر پر بے نظیر بھٹو جیسی کسی ایسی کہنہ مشق شخصیت کا دست شفقت تھا کہ وہ اُن کو تحریر و تقریر کا ہنر سکھاتی اور یہ سبق دیتی کہ۔
" Wise people speak less and say more " 

جوش خطابت میں انہوں نے ممبران قومی اسمبلی کے اتحاد کو کوؤں کے اتحاد سے تشبیہہ دے ماری۔ فرانس کے صدر ڈیگال نے کہا تھا
"Nothing more enhances authority than silence"
یعنی خاموشی انسان کی اتھارٹی میں جتنا اضافہ کرتی ہے اور کوئی چیز نہیں کر سکتی۔ وزیراعظم یہ مشہور کہاوت بھی بھول گئے کہ
"It is better to keep quiet and look like a fool than speak and remove all doubts"
یعنی خاموش رہ کر بے وقوف ہونے کا شک ڈالنا بہتر ہے، بجائے اس کے آپ بول کر یہ ثابت کر دیں کہ آپ واقعی بیوقوف ہیں۔
افسوس کہ وزیراعظم خاموشی کی اہمیت کو نہیں سمجھ پا رہے اور تقریباً ہر روز پی ایم ہاؤس کے چھت پر چڑھ کر ایک اینٹ شاہراہِ دستور کی طرف پھینک دیتے ہیں اور اسمبلی میں جا کر اپنے پاؤں کا انگوٹھا منہ میں ڈالنے پر بضد ہیں۔ 

قارئین کرام چند مصدقہ حقائق پر تو دو آراء کی کوئی گنجائش نہیں، مثلاً یہ کہ ہمیں پاکستان میں جبر کی غیرآئینی فوجی حکومت نہیں بلکہ عوامی جمہوری حکومت چاہیے۔ اس کے علاوہ یہ کہ آزاد، خودمختار اور موثر عدلیہ اور نظام احتساب خوشحال اور مضبوط پاکستان کے لیے ناگزیر ہیں۔ تیسرا یہ کہ ایک آزاد لیکن ذمہ دار میڈیا جس میں تربیت یافتہ پیشہ ور صحافی ہوں۔ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اور آخری یہ کہ اس خطے کے ماحول کے افق پر منڈلاتے خطرات کے بادلوں کے پیش نظر ایک کل وقتی پیشہ ور اور تربیت یافتہ فوج کا وجود بھی پاکستان کی ایک اہم سکیورٹی کی مجبوری ہے۔ 

ہم سب جانتے ہیں کہ اس کائنات میں سپریم تو اللہ تعالٰی کی ذات ہے۔ اس کے بعد Supreme لوگوں کی Will ہے۔ پھر سپریم وہ آئین ہے جس نے 1973ء کی کانسٹی ٹیوٹ اسمبلی کی کھوک سے جنم لیا اور 1973ء سے لے کر اب تک اسمبلیوں اور سینٹ سمیت سارے اداروں بشمول عدلیہ، صحافت اور افواج کے اداروں نے اس آئین کے بطن سے جنم لیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری پارلیمنٹ آئین میں ترامیم تو کر سکتی ہے لیکن آئین کی اسلامی و جمہوری روح کو تبدیل نہیں کر سکتی۔ اگر پارلیمنٹ کوئی ایسی ترمیم کرنے کی کوشش کرے گی تو عدلیہ اس کو پھاڑ کر ردی کی ٹوکری میں ڈال دے گی۔
 
چونکہ آئین سپریم ہے اور پارلیمنٹ اور اپنے آپ کو سپریم کہنے والی کورٹ بھی اُن معنوں میں سپریم نہیں۔ آئین نے عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ سب کی حدود کا تعین کر دیا ہے۔ اس لیے عدلیہ اور افواج پاکستان بھی 18 کروڑ عوام کی خواہش کے مطابق وجود میں آنے والے اتنے ہی اہم آئینی ادارے ہیں جتنا کہ پارلیمنٹ۔ اس لئے عدالتوں کی تضحیک، ججوں کی تذلیل، افواج کو بدنام اور ملک کے ایٹمی پروگرام کے خلاف سازشوں میں ملوث لوگوں کو تحفظ دینے والے جب یہ کہتے ہیں کہ ہم جمہوریت پسند ہیں تو رونا آتا ہے۔ عدل اور احتساب کے نظام کو مفلوج کر کے صرف انتخابات کروا دینے اور پارلیمنٹ کو وجود میں لے آنے کو جمہوریت کہنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ 

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عدلیہ کو بھی اپنی حدود سے تجاویز بالکل نہیں کرنا چاہیے اور اس تاثر کو اپنے عمل سے زائل کرنا چاہیے کہ عدلیہ صرف حکومت کے خلاف مقدمات سننے کو ترجیح دے رہی ہے، افواج پاکستان کی قیادت کو بھی آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے سیاسی قیادت کی مکمل تابعداری کرنی چاہیے۔ لیکن قارئین کرام دوسرے اداروں کی طرف سے چیف ایگزیکٹو کی اتھارٹی کو چیلنج کرنے کا رجحان اور اندورنی خلفشار اُس وقت تک صحیح معنوں میں ختم نہیں ہو سکتا، جب تک 18 کروڑ عوام ایوانِ اقتدار میں ایک اہل بصیرت، قدآور، باوقار اور دیانتدار چیف ایگزیکٹو چن کر نہیں بھیجتے۔ ہر مکتب فکر کے محب وطن پاکستانیوں کے لیے سبق یہ ہے کہ آئین کی پاسداری، عدل و انصاف، احتساب اور شفافیت کے بہترین نظام کے بغیر جمہوریت ایسے ہی ہے، جیسے اینجن کے بغیر دنیا کا بہترین ہوائی جہاز۔
خبر کا کوڈ : 131386
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش