0
Friday 20 Jan 2012 20:35

ایرانی سائنس دانوں کی شہادت اسلام کی ترقی و پیشرفت کا ایک زینہ

ایرانی سائنس دانوں کی شہادت اسلام کی ترقی و پیشرفت کا ایک زینہ
 تحریر: محمد علی نقوی

 رہبر انقلاب اسلامی نے شہید مصطفٰی احمدی روشن اور شہید داریوش رضائی نژاد کے اہل خانہ سے ملاقات کی ہے۔ اطلاعات کے مطابق رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیۃ اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے ان دو شہداء کے اہل خانہ سے ملاقات میں فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی روزافزوں ترقی و پیشرفت ایران کے خلاف بین الاقوامی صیہونزم اور سامراج کی دشمنی اور دباؤ میں اضافے کا سبب بنی ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے ان دونوں شہیدوں کے اہل خانہ سے ملاقات میں ان نوجوانوں کی شہادت کو اسلام کی ترقی و پیشرفت کا ایک زینہ قرار دیا اور اس بات پر زور دیا کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد سے اس انقلاب کے خلاف دشمن جو سب سے بڑے الزامات لگا رہے تھے ان میں سے ایک یہ تھا کہ ایران میں علم و سائنس کا راستہ بند ہو گيا ہے، لیکن ایرانی نوجوانوں نے اپنی جدوجہد، علمی میدانوں میں کارہائے نمایاں انجام دے کر، نئے نئے نظریات پیش کر کے اور اپنی بےپناہ صلاحیتوں سے دشمن کے اس الزام کو غلط ثابت کر دیا۔
 
رہبر انقلاب اسلامی  نے اسی طرح یہ بات بیان کرتے ہوئے کہ نوجوان ایرانی سائنس دانوں کو قتل کرنے کے لیے دشمنوں کی کوششیں اس کام کی عظمت کو ظاہر کرتی ہے کہ جو یہ نوجوان انجام دے رہے ہیں۔ آج اسلامی جمہوریہ ایران کی ترقی و پیشرفت مسلمان قوموں اور اسلامی ممالک کے نوجوانوں کے لیے ہمت اور حوصلے کا باعث بنی ہے۔
واضح رہے کہ صیہونی حکومت اور امریکہ کے ایجنٹوں نے گيارہ جنوری کو تہران میں یونیورسٹی کے پروفیسر اور سائنسداں مصطفٰی احمدی روشن کو شہید کر دیا تھا۔ ملت ایران کے دشمنوں نے اس سے قبل ایرانی سائنس دانوں مسعود علی محمدی، مجید شہریاری اور داریوش رضائي نژاد کو بھی شہید کر دیا تھا۔ دنیا کے انصاف پسند حلقوں نے ایرانی سائنس دانوں کی قتل کی بھرپور مذمت کی ہے۔ 

مصطفٰی احمدی روشن کے قتل کی خبر سامنے آتے ہی حکومتی، عوامی اور بالخصوص علمی حلقوں میں اسکا سخت ردعمل سامنے آیا۔ یہ خبر جس کے کانوں تک پہنچی اس نے شدید الفاظ میں اسکی مذمت کی۔ اسلامی جمہوریۂ ایران کے ذرائع نے اس دہشتگردانہ واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دہشتگردی کی کارروائی کے طریقہ کار سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ کارروائی صیہونیوں نے انجام دی ہے۔ انہوں نے یہ بات زور دیکر کہی ہے کہ ہمارے دشمن نہیں چاہتے کہ ایران ترقی و پیشرفت کی منازل طے کرے، کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ ایرانی قوم علم کی بنیاد پر پوری دنیا کو تسخیر کر سکتی ہے۔

ایرانی ذرائع کا کہنا تھا کہ سائنس دانوں کو قتل کر کے علم اور ٹیکنالوجی کو ہم سے نہیں چھپنا جا سکتا۔ ایران سائنسدانوں اور علمی ماہرین سے مالا مال ہے۔ ہمیں اگرچہ اپنے سائنس دان کے مارے جانے کا بے حد افسوس ہے، لیکن سینکڑوں دوسرے سائنس دان ان کا علم اٹھانے کے لئے تیار ہیں۔ صیہونی حکومت کے سینئر انٹیلی جنس عہدیدار نے امریکی جریدے ٹائم کو انٹرویو دیتے ہوئے موساد کے ہاتھوں ایرانی سائنسدان شہید مصطفٰی احمدی روشن کی شہادت کی تصدیق کی ہے۔ مغربی انٹیلی جنس ذرائع نے ٹائم جریدے کو بتایا کہ شہید مصطفٰی احمدی روشن کو بھی تین ایرانی سائنسدانوں کی مانند گھر سے نکل کر دفتر جاتے ہوئے موساد کے زرخرید ایجنٹوں کے ذریعے قتل کیا گیا ہے۔ ٹائم نے مزید لکھا ہے کہ ایک سینئر اسرائیلی عہدیدار مسکراہٹ کے ساتھ کہتا ہے کہ اسرائیل کے انٹیلی جنس ادارے نے یہ قتل کامیابی سے انجام دیا ہے اور اس ایرانی سائنسداں کے لئے مجھے کوئي افسوس نہيں ہے۔
 
اسلامی ممالک کے حوالے سے غاصب صیہونی ریاست کی خفیہ ایجنسیوں کے ماضی کا اگر سرسری جائزہ بھی لیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ تہران کی حالیہ کارروائي میں بھی صیہونی ذہن کارفرما ہے۔ غاصب صیہونی حکومت کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی موساد نے اس سے پہلے کئی اسلامی ملکوں میں اس طرح کی کارروائیاں انجام دی ہیں۔
امریکی صدر رچرڈ نیکسن کے دور میں جب مصر اور امریکہ کے درمیان بجلی پیدا کرنے کے لئے ایک ایٹمی ری ایکٹر خریدنے کا معاملہ طے پایا تو اسرائیل نے امریکہ پر اپنا دباؤ اسقدر بڑھا دیا کہ ایک سال کے اندر امریکہ نے اس معاہدے کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔

اسی اسرائيل نے انیس سو باون میں ایک مصری سائنس دان سمیرہ موسی کو قتل کر دیا۔ ساٹھ کے عشرے میں مصر نے زمین سے زمین تک مار کرنے کے میزائل کی خریداری کے لئے ایک جرمن سائنس دان کی مدد حاصل کی۔ جس کے نام اور شخصیت کا صیہونیوں کو بھی علم ہو گیا۔ کروج نامی یہ جرمن سائنس دان اس وقت سے آج تک لاپتہ ہے، مصر کے باخبر ذرائع کے مطابق اس جرمن سائنس دان کو صیہونیوں نے اغوا کر کے اپنے راستے سے ہٹا دیا۔ اسرائيل نے اسی طرح انیس سو اسی میں بھی ایک مصری سائنس دان سعید بدیر کو قتل کروایا تھا۔
 
اسرائیل نے سن انیس سو اکیاسی میں جس طرح تمام علاقائی اور بین الاقوامی قوانین کو پامال کرتے ہوئے عراق کے ایٹمی ری ایکٹر کو تباہ کیا تھا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔  اسی طرح اسرائيل نے شام کے خلاف بھی ایک کارروائی کی تھی، جب اس نے دو ہزار سات میں شام کے ایک تازہ تعمیر ہونے والے ایٹمی پلانٹ کو دیرالزور میں ہوائي حملے کا نشانہ بنایا تھا۔ آج اگر یہ کہا جا رہا ہے کہ تہران میں شہید ہونے والے ایٹمی سائنس کے قتل میں صیہونی ایجنٹ ملوّث ہیں تو یہ کوئی انہونی بات نہیں۔
 
غاصب صیہونی حکومت کا ماضي مسلمان سائنس دانوں کے اغوا اور مسلمان ممالک کی ایٹمی تنصیبات کو تباہ کرنے کے حوالے سے سیاہ و تاریک ہے۔ وہ جب صدام جیسے اسلام دشمن شخص کے زيرانتظام ایک ایٹمی پلانٹ کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہے تو اسلامی جمہوریۂ ایران کا ایٹمی پروگرام اور اسکے ایٹمی سائنس دان اس کے لئے کیسے قابل برداشت ہونگے۔ غاصب صیہونی حکومت اپنے غیر قانونی اور ناجائز قیام سے لیکر آج تک ظلم و بربریت، تسلط پسندی اور توسیع پسندی کے راستے پر گامزن ہے اس کی ماہیت جنگ پسندی اور ناجائز قبضے پر استوار ہے اور اس میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں کہ غاصب صیہونی حکومت کی تمام تر سرگرمیوں اور دہشت گردانہ کاروائیوں کو امریکہ، برطانیہ اور بعض مغربی ملکوں کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔

اقوام متحدہ، سکیورٹی کونسل اور انسانی حقوق کے عالمی ادارے بھی اسرائیل کی غاصب اور ظالم حکومت کے حوالے سے ایک خاموش تماشائی سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔ اگر کبھی سلامتی کونسل یا کسی عالمی ادارے میں غاصب اسرائیل کے خلاف کوئی قرارداد منظور بھی ہو جاتی ہے تو امریکہ اور اسکے حواری یا تو اسے ویٹو کر دیتے ہیں یا اس کے لب و لہجے کو اتنا بے اثر کر دیتے ہیں کہ اسکا وجود اور عدم وجود برابر ہو جاتا ہے۔ مغربی ممالک اور سامراجی طاقتیں تو اپنی جگہ بعض عرب ممالک کے گھناؤنے کردار نے بھی غاصب صیہونی حکومت کو اتنا جری کر دیا ہے کہ اول تو اسکے خلاف کوئی قرار داد منظور نہیں ہوتی اور اگر کبھی منظور بھی ہو جائے تو اس پر عمل درآمد کے حوالے سے اسرائیل نے کبھی کسی عالمی قانون کی پاسداری نہیں کی۔
 
مظلوم فلسطینیوں کی زمینوں پر قبضے، فلسطینی شہریوں کے قتل عام اور اسلامی مقدسات کی توہین پر اگر عرب ممالک پر زور آواز اٹھاتے، تو آج نہ فلسطینیوں پر اس طرح کا ظلم ڈھایا جاتا اور نہ ہی فلسطین کے حصّے بخرے کئے جاتے، اور نہ مسلمان ممالک کے خلاف اسرائیل اسطرح کی کارروائیاں کرتا۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ آج سعودی عرب ہمسایہ اسلامی ملکوں کے خلاف سرگرم عمل ہے، لیکن اسرائيل کے مسئلے پر چپ سادھے ہوئے ہے۔ سعودی عرب اور اردن، امریکہ اور اسرائیل کی ایما پر آئے دن اسلامی جمہوریۂ ایران پر بے بنیاد الزامات لگاتے ہیں، لیکن اسرائيل کے مسئلے پر ان کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔
 
یہی وجہ کہ رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ان دو شہداء کے اہل خانہ سے ملاقات میں فرمایا کہ نوجوان ایرانی سائنس دانوں کو قتل کرنے کے لیے دشمنوں کی کوششیں اس کام کی عظمت کو ظاہر کرتی ہے کہ جو یہ نوجوان انجام دے رہے ہیں۔ آج اسلامی جمہوریہ ایران کی ترقی و پیشرفت مسلمان قوموں اور اسلامی ممالک کے نوجوانوں کے لیے ہمت اور حوصلے کا باعث بنی ہے۔
خبر کا کوڈ : 131852
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش