0
Saturday 28 Jan 2012 00:12

افغانستان بڑی طاقتوں کا اکھاڑا، تاریخ کا تسلسل

افغانستان بڑی طاقتوں کا اکھاڑا، تاریخ کا تسلسل
تحریر: رشید احمد صدیقی

1838ء میں افغانستان میں امیر دوست محمد خان کی حکومت تھی۔ اس زمانے میں روس کی نظریں وسطی ایشیاء اور جنوبی ایشیاء پر تھیں۔ انگریز حکومت اس کے بڑھتے قدم افغانستان میں روکنا چاہتی تھی۔ گورنر ہند لارڈ آکلینڈ نے امیر دوست محمد خان کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ وہ اس شرط پر راضی تھے کہ سکھ راج سے پشاور واپس لینے میں ان کا ساتھ دیا جائے۔ انگریز اس شرط کو ماننے پر تیار نہ ہوئے۔ امیر محمد خان نے روس کے ساتھ دوستی کا معاہدہ کیا تو انگریز حکومت نے اعلان شملہ کے تحت کوئٹہ کے راستے قندہار اور بعد ازاں کابل پر چڑھائی کی۔ 

انھوں نے شاہ شجاع کی 30 سال قبل ختم کرائی گئی حکومت کی بحالی کا بہانہ کیا۔ انگریز اصل میں کابل میں ایسی حکومت چاہتے تھے جو ان کے مفادات کی محافظ ہو۔ امیر دوست محمد خان نے بھاگ کر بامیان میں میں پناہ حاصل کی۔ کابل فتح کرنے اور امیر دوست محمد خان کی حکومت ختم کرانے کے بعد انگریزوں کو محسوس ہوا کہ شاہ شجاع درانی کی حکومت قائم رکھنے کے لیے انگریز فوج کی وہاں موجودگی لازمی ہے۔ تین سال بعد وہاں کے قبائل دوست محمد خان کے بیٹے اکبر خان کی قیادت میں اٹھ کھڑے ہوئے۔ اکتوبر 1841ء کو افغانیوں نے کابل میں میں انگریز افسر الیکزنڈر ولیم برنز کو قتل کیا۔
 
23 دسمبر کو اکبر خان کے لوگوں نے ہند میں برطانوی حکومت کے نمائندہ برائے افغانستان Hay Macnaghten کو قتل کیا اور اس کی لاش کابل کی گلیوں میں گھسیٹی۔ یکم جنوری 1842ء کو انگریز کمانڈر ایلفن سٹون نے اکبر خان کے ساتھ محفوظ انخلاء کا معاہدہ کیا۔ معاہدہ سے باہر غلزئی قبیلہ کے جنگجوئوں نے افغانستان سے واپس جاتے انگریزوں پر راستے میں حملے شروع کیے۔ انگریز فوج کا کمانڈر الیکزینڈر مارا گیا۔ 16000 افراد میں سے سات آٹھ گرفتار ہوئے اور صرف ایک ڈاکٹر ولیم برائڈن جلال آباد زندہ پہنچنے میں کامیاب ہوا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ انھیں عبرتناک کہانی سنانے کے لیے زندہ چھوڑ کر بھیجا گیا تھا۔ 

دوسری اینگلو افغان جنگ 1878ء میں لڑی گئی۔ اس کی بنیاد بھی افغاستان کی خارجہ پالیس ہی تھی۔ انگریزوں نے امیر دوست محمد خان کے فرزند شیر علی خان کی حکومت لشکر کشی کر کے ختم کرائی اور ان کے بیٹے یعقوب علی خان کو جانشین بنوا کر افغانستان کی خارجہ پالسی کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ 1893ء میں ہند کی انگریز حکومت اور افغانستان کے درمیان ڈیورنڈ لائن کو سرحد کا درجہ دیا گیا۔ مئی 1919ء میں تیسری افغان جنگ کا اختتام ڈیورنڈ لائن کی تجدید پر منتج ہوا۔ اس بار انگریزوں نے ڈیورنڈ لائن کو سرحد تسلیم کرانے کی تجدید پر اکتفا کیا، جو تقریباً 2600 کلو میٹر لمبی سرحد ہے۔ 

انگریز افغانستان کو برطانوی ہند اور سویت یونین کے درمیان ایک حد فاصل بنانا چاہتے تھے۔ وہ افغانستان پر قبضہ کرنے کے خواب سے دستبردار ہو گئے تھے۔ 1919ء میں برطانیہ افغانستان سے عملاً دستبردار ہو گیا تھا اور 28 سال بعد 1947ء میں وہ ہندوستان بھی چھوڑ گیا اور افغانستان اس کی دسترس سے ہمیشہ کے لیے نکل گیا۔ دسمبر 1979ء میں افغانستان میں ببرک کارمل کی قیادت میں بغاوت ہوئی۔ حفیظ اللہ امین کو قتل کر کے ان کی حکومت ختم کر دی گئی۔ سویت یونین نے اس انقلاب کو درپیش خطرات سے نمٹنے کے لیے ایک لاکھ کے قریب مسلح فوجی اور ہتھیار افغانستان میں داخل کیے۔ 

اس کے خلاف ایک بڑی عوامی جنگ لڑی گئی۔ پاکستان اس جنگ کا بیس کیمپ رہا۔ اس جنگ کے نتیجے میں 1989ء میں سویت افواج افغانستان سے نکل گئیں۔ لیکن اس کے ساتھ 31 دسمبر 1991ء کو سویت یونین اور کمیونزم کا خاتمہ بھی ہوا۔ نو ستمبر 2001ء کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملہ کے بعد امریکہ نے افغانستان کو براہ راست نشانے پر لیا اور سات نومبر 2001ء کو اس پر بمباری شروع کرکے چھ ہفتے میں طالبان کی حکومت ختم کر دی۔ امریکہ نے 1878ء میں برطانوی طرز عمل کی تقلید میں اپنا نمائندہ حامد کرزئی کی صورت میں وہاں صدر بنا بٹھایا، جو دس سال گزرنے کے بعد بھی وہاں کے صدر ہیں۔ 

1839ء سے 2011ء تک تین سپر طاقتوں کے لیے میدان جنگ بننے والے افغانستان میں آخر وہ کون سی بات ہے جس سے اس کی تقدیر میں آگ اور خون لکھا ہے۔ ذیل میں اس بارے میں ایک خلاصہ پیش خدمت ہے: 

چاروں طرف سے خشکی میں گھرے جنگجو قبائل کے اس ملک کے شمال میں ترکمانستان، آذر بائی جان اور تاجکستان واقع ہیں۔ یہ سلسلہ کرغیزستان، قازقستان اور ازبکستان کی نو آزاد مسلم ریاستوں تک پھیلا ہوا ہے، جو معدنی وسائل سے بھری پڑی ہیں۔ دنیا بالخصوص امریکہ ان وسائل کو للچاتی نظروں سے دیکھتا ہے۔ اس سے پرے سپر طاقت روس جس کا خوف ہمیشہ ماضی کی سپر طاقت برطانیہ پر طاری رہا، امریکہ بھی اس سے خوف زدہ رہتا تھا۔
 
افغانستان کے شمال مشرق میں ابھرتی معاشی طاقت چین ہے، جو دنیا کا سب سے بڑا ملک بھی ہے آبادی کے لحاظ سے، روس رقبہ کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک ہے۔ افغانستان کے مشرق میں پاکستان ہے جو دنیا کی پہلی اسلامی ایٹمی قوت ہے۔ ساتھ ہی ایک اور ایٹمی قوت بھارت واقع ہے جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ افغانستان کے مشرق میں ایران اور مشرق وسطیٰ ہے، جو تیل کا خزانہ ہے۔ چنانچہ یہ خطہ دنیا کی طاقتوں کے لیے ایک میزان کا درجہ رکھتا ہے، اس لیے ہمیشہ بڑی طاقتوں کی اس پر نظر رہی ہے۔ ہر سپر طاقت کی خواہش ہوتی ہے کہ یہاں پر قابض رہ کر دنیا کے زرخیز میدانوں پاک وہند، معدنی وسائل سے بھرے وسطی ایشیاء، تیل سے مالا مال مشرق وسطٰی پر اس کا قبضہ ہو تو دنیا کے سیاہ و سفید اس کے تسلط میں آجائیں گے۔ 

افغانستان کے اس اکھاڑے میں 160 سال کے عرصہ میں برطانیہ، روس اور امریکہ پٹ گئے ہیں۔ امریکہ ابھی تک اپنی شکست تسلیم نہیں کر رہا، لیکن حال ہی میں مذاکرات کا جو ڈھونڈ اس نے رچایا ہے یہ اعتراف شکست کی ابتداء ہے۔ انشاءللہ اگلے کالم میں اس پر روشنی ڈالوں گا۔
خبر کا کوڈ : 133389
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش