0
Wednesday 1 Feb 2012 14:59

افغانستان میں مذاکرات کا سیزن

افغانستان میں مذاکرات کا سیزن
تحریر: رشید احمد صدیقی
 
65 دنوں کا ایک منظر نامہ ملاحظہ ہو: 
11 ستمبر 2001ء کی صبح امریکی وقت کے مطابق آٹھ بج کر 46 منٹ اور پھر نو بج کر تین منٹ پر ورلڈ ٹریڈ سنٹر نیویارک کے دو میناروں سے امریکہ ہی کے دو مسافر طیارے ٹکرا جاتے ہیں۔ سات اکتوبر کی رات افغانستان پر امریکی میزائلوں کی بارش سے ایک قیامت کا آغاز ہوتا ہے۔۔۔۔ امریکہ نے بھپرے ہاتھی کی طرح افغانستان میں ایک حشر برپا کیا۔ نیٹو ممالک کے ساتھ مل کر اس نے ان ایام میں کابل سے طالبان کی پانچ سالہ حکومت کا خاتمہ کر دیا۔
 
محلات سے نکلتے طالبان غاروں کی جانب بھاگ رہے تھے۔ امریکہ ایک شکاری کی طرح ان کا تعاقب کر رہا تھا۔ شکاری کا اپنے شکار کے ساتھ جو رویہ ہوتا ہے بعینہ امریکہ کا رویہ اسی طرح کا تھا۔ اس نے اسلام آباد کے افغان سفارت خانے سے افغان سفیر ملا ضعیف کو پکڑ کر کابل کے قریب اپنے اڈے بگرام پہنچایا اور پھر بدترین تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے کئی سال تک بدنامہ زمانہ جیلوں بشمول گوانتنا موبے میں پابند سلاسل کیے رکھا۔ 

بیچ میں کئی مناظر آئے لیکن آخری منظر بھی ملاحظہ ہو۔  
11،4000 مربع کلومیٹر کے حامل چھوٹے جزیرہ نما خلیجی ملک قطر کے دارالحکومت دوہا میں طالبان کا دفتر کھل گیا ہے، جس میں دس سال سے غاروں میں چھپے ملا عمر کے عارضی ترجمان طیب آغا بیٹھ کر امریکی قابض حکومت سے مذاکرات کر رہے ہیں۔ امریکہ کی نمائندگی اس کے خصوصی نمائندہ برائے افغانستان مارک گراس مین کر رہے ہیں اور شکاری امریکہ اب غاروں میں رہنے والے طالبان سے بات چیت پر مجبور ہے۔ 

دوہا مذاکرات پر دنیا کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔ افغانستان کی کرزئی حکومت بظاہر اس وجہ سے ناراض ہے کہ امریکہ نے ان کو اعتماد میں نہیں لیا ہے، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان کو الگ تھلگ رکھا جا رہا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حامد کرزئی قطر کے بجائے ترکی یا سعودی عرب میں بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔ موجودہ مذاکرات کا موضوع گونتانا موبے، پل چرخی اور باگرام میں قید اہم طالبان کمانڈروں کی رہائی ہے۔ امریکہ اگر بات چیت کے لیے میز پر آیا ہے اور اپنے سخت ترین موقف سے دستبردار ہو کر طالبان کے اس اہم مطالبہ پر بات کر رہا ہے تو جواب میں کچھ اہم چیز ہی مانگتا ہو گا۔ اور اطلاعات کے مطابق مذاکرات کے آخری دور میں اس پر کوئی اہم پیشرفت نہیں ہو سکی ہے۔
 
9/11 کے گیارہویں سال فریقین کا میز پر بیٹھنا اہم پیش رفت سمجھا جا رہا ہے۔ لیکن اصل میں یہ مذاکرات نہ پہلی بار ہو رہے ہیں اور نہ صرف طالبان سے ہو رہے ہیں۔۔۔۔ حامد کرزئی امریکہ کے نمائندے ہی ہیں۔ اگرچہ وہ کچھ باتوں پر امریکیوں سے ناراض ہیں کیونکہ وہ جہاں مرضی ہو افغانوں پر بم برساتا ہے۔ ایک افغانی ہونے کے ناطے حامد کرزئی کو اپنے ہم وطنوں کے مارے جانے کا دکھ تو ہوتا ہے۔ مختلف مواقع پر وہ اس پر رونا دھونا کر چکے ہیں اور ساتھ ہی اپنی بے بسی بھی ظاہر کی ہے۔ اس سے زیادہ کچھ کرنے کی جرأت وہ نہیں کر سکتے۔

دوسری جانب امریکہ کی توقع کے مطابق حامد کرزئی افغانوں کو امریکہ کے لیے مکمل طور پر رام نہیں کر سکے ہیں۔ اس اختلافی نقطہ کے علی الرغم نہ تو امریکیوں کو افغانستان میں کرزئی سے بہتر آدمی مل سکا ہے اور نہ کرزئی کے لیے امریکہ کے سوا کوئی سیڑھی موجود ہے۔ چنانچہ دونوں ایک دوسرے کے لیے ناگزیر ہیں، اور یہ سلسلہ اتنا جلد ختم ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ 

دوسری طرف مذاکرات کا عمل کافی عرصہ سے جاری ہے۔ طالبان اور کرزئی کے مابین مذاکرات، امریکہ اور طالبان میں مذاکرات، پاکستان اور طالبان میں مذاکرات، کرزئی اور حکمت یار کے درمیان مذاکرات۔ پاکستان کے بھی تمام شرکائے کھیل سے بات چیت کا سلسلہ ہر مرحلے پر جاری رہا ہے۔ کابل، قطر، سعودی عرب، ابوظہبی اور ترکی مختلف اوقات میں میزبان رہے ہیں۔ علاوہ ازیں افغانستان کے پہاڑی سلسلے تو ان سب کا مسکن ہیں۔ چھوٹے موٹے امور مختلف اوقات میں زیر بحث آتے رہے ہیں۔ 

دو سال قبل جب امریکہ کے ارباب حل و عقد اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ اب افغان جنگ کو نہیں جیتا جا سکتا اور یہاں سے باعزت انخلا کا راستہ تلاش کرنے میں ہی عافیت ہے۔ وہاں کی سیاسی قیادت یعنی صدر اوبامہ کے لیے اگلی انتخابی مہم قریب تر آ رہی تھی۔ وہاں کی معیشت پر غیر ضروری بوجھ بننے والی افغان جنگ ختم کرنے کا ان کا وعدہ تشنہ تھا۔ وہ انتخابی کامیابی کے لیے اس کا جلد سے جلد کوئی حل تلاش کرنے میں لگے تھے۔ 

دوسری جانب فوجی جنتا پینٹاگان افغانستان میں شکست کو ویتنام کی طرح کی شکست سمجھتا ہے اور یہاں سے نکلنے کو ماضی میں روس و برطانیہ کے انخلاء سے تشبیہ دیتا ہے جس کے بعد دنیا پر دونوں کے اقتدار کا سورج غروب ہو گیا تھا۔ چنانچہ وہاں اندرونی اختلاف کی وجہ سے یہ راستہ تجویز کیا گیا اور ڈیڑھ سال قبل طالبان اور حکمتیار سے مذاکرات کا یہی موضوع رہا کہ امریکہ بڑی تعداد میں اپنی فوج نکال دے گا لیکن بڑے بڑے مراکز کابل، قندہار، جلال آباد اور مزار شریف وغیرہ میں اس کو اڈے قائم کرنے کی اجازت دی جائے گی، جہاں پر وہ ضرورت کے مطابق فوج رکھے گا۔

دوسرا نکتہ مذاکرات کا یہ تھا کہ عربوں کو افغانستان سے نکالا جائے گا۔ طالبان اور حکمتیار دونوں کا موقف یہ تھا کہ امریکہ کو اڈوں کی اجازت ہرگز نہیں دی جائے گی۔ عربوں کے بارے میں یہ لچک دونوں جانب سے موجود تھی کہ یہ فیصلہ افغانستان کی آئندہ حکومت کرے گی۔ البتہ افغان سرزمین کو امریکہ سمیت کسی کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔۔۔ 

اڈوں کے مسئلہ پر مذاکرات اٹک گئے تھے۔ اب کے بار جو نیا مرحلہ آیا ہے تو اس میں موضوع طالبان کمانڈروں کی رہائی ہے۔ ظاہر ہے یہ اعتماد پیدا کرنے کا ایک نقطہ ہے۔ اصل بات وہی ہو گی کہ امریکہ کے انخلاء کا راستہ کیسے ہموار کیا جائے۔ یہاں پر سوال یہ ہے کہ طالبان رہنمائوں کی رہائی سے کیا اتنے اعتماد کی فضا پیدا ہو جائے گی کہ فریقین تفصیلی مذاکرات کے لیے بیٹھ سکیں گے۔۔۔ جیلوں سے رہائی کوئی مسئلہ نہیں، اس لیے کہ طالبان پچھلے دس سال سے ان جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔ 

ملا عمر کا نام دہشتگردوں کی فہرست سے نکالنا بھی مذاکرات کی کامیابی کی بنیاد نہیں ہو سکتی۔ اس لیے کہ اگر وہ اس رعائت سے فائدہ اٹھا کر منظر عام پر آتے ہیں اور امریکہ کے ساتھ مذاکرات پر بیٹھتے ہیں تو کیا افغان اس صورت حال کو قبول کریں گے اور ملا عمر اپنی پرانی حیثیت عوام میں برقرار رکھ سکیں گے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ وہ ہرگز ایسا نہیں کر سکیں گے۔ اس سے ان کی ساکھ خاک میں مل جائے گی۔ 

چنانچہ مذاکرات کو آگے بڑھانے کی غرض سے امریکہ کو اعتماد سازی کے لیے بہت بڑا قدم اٹھانا ہوگا اور وہ فوجی انخلاء کے لیے قابل قبول نظام الاوقات کے علاوہ کوئی بات نہیں ہو سکتی۔ افغان اس سے کم پر اس کے ساتھ مذاکرات کی میز طویل عرصہ سے سجائے رکھنے پر ہرگز تیار نہ ہوں گے۔ 

افغانوں کو امریکہ کی موجودہ کمزور پوزیشن کا علم ہے۔ ان کو اپنی اس قوت کا بھی ادراک ہے جس کی بنیاد پر امریکہ ان سے مذاکرات پر مجبور ہوا ہے۔ انھیں صدر اوبامہ کے آنے والے انتخابات اور اس کے لیے مہم کا بھی اندازہ ہے۔ دوسری طرف پاکستان کا سوا دس سال میں پہلی بار امریکہ کو آنکھیں دکھانا بھی ان کے سامنے ہے۔ چناچہ مذاکرات کی میز پر طالبان کا ہاتھ اوپر ہے اور امریکہ کا نیچے۔۔۔ لیکن مذاکرات امریکہ کی مجبوری ہے۔ اس کے بغیر اس کے پاس کوئی چارہ نہیں۔
 
ایسے میں پاکستان کی پوزیشن ہمیشہ کی طرح انتہائی کلیدی ہے۔ کلیدی کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے اس کو موقع فراہم کیا ہے کہ تہائی صدی سے خاک و خو ن میں ڈوبے افغانستان کے مسئلے کا کوئی حل نکالنے میں اپنا کردار ادار کرے۔ اس مسئلہ سے وابستہ ممالک میں ایران کا کردار باقی دنیا سے زیادہ اہم ہے کہ پاکستان اور افغانستان کا پڑوسی اور اس مسئلہ سے براہ راست متاثر ہونے والا ملک ہے۔ سعودی عرب کو امت مسلمہ میں جو مقام حاصل ہے اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ نئی صورتحال میں پاکستان، ایران، سعودی عرب، افغان حکومت اور اس سے برسرپیکار بڑی قوتوں کو انتہائی احتیاط اور کمال ہوشیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے خطے میں پائیدار امن کے قیام کے لیے کام کرنا ہو گا۔
خبر کا کوڈ : 134690
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش