0
Friday 3 Feb 2012 21:32

امریکہ، طالبان محدود مذاکرات!

امریکہ، طالبان محدود مذاکرات!
تحریر: عدیل عباس زیدی

غیر ملکی حملہ آور طاقتوں کیلئے دلدل ثابت ہونے والا افغانستان 10 سال گزرنے کے باوجود بھی امریکہ کیلئے درد سر بنا ہوا ہے، امریکی فوج کے افغان سرزمین سے انخلاء کی باتیں تین سال سے ہو رہی ہیں لیکن گزشتہ دو ماہ سے خطہ کی بدلتی ہوئی صورتحال نے ایک بار پھر افغانستان کو عالمی توجہ کا محور بنا دیا ہے، قطر میں طالبان کا دفتر کھولنے اور مذاکرات کی بارہا تردیدوں کے بعد امریکہ اور پھر طالبان کی جانب سے تصدیق نے خطہ کی صورتحال کو اہم موڑ پر لا کھڑا کیا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات غیر معمولی خبر ہے، تاہم ان مذاکرات سے وابستہ امیدیں روز بروز بڑھتی ہی جا رہی ہیں، 10 سال سے جاری افغان جنگ میں اس قسم کا موقع پہلی بار آیا ہے۔

افغانستان کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے حلقوں نے کا کہنا ہے کہ امریکہ طالبان مذاکرات کو Peace Talk (امن مذاکرات) تو نہیں البتہ اس جانب اہم قدم ضرور قرار دیا جا سکتا ہے، کیونکہ قطر میں طالبان کو دفتر کھولنے کی اجازت، ملا عمر کے نام کا دہشتگردوں کی فہرست سے اخراج، بعض افغان جنگجوئوں (جن کا شائد ملا عمر گروپ سے براہ راست تعلق نہیں) کی گوانتانا موبے سے رہائی اور کرزئی حکومت کے رویئے میں بظاہر تبدیلی کو کسی حد تک اہمیت دی جا سکتی ہے، اگر مذکورہ بالا نکات میں سے ملاعمر کے نام کو دہشتگرد فہرست سے نکالنے پر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ جنگجو طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے اور عالمی سطح پر جواز پیش کرنے کیلئے یہ امریکی مجبوری تھی، کیونکہ امریکہ کیلئے Most Wanted فہرست میں شامل شخص (ملا عمر) یا اس کے کسی نمائندے سے بات کرنا اس وقت تک ممکن نہ ہو سکتا جب تک وہ دہشتگرد فہرست میں شامل رہے۔

ان وجوہات پر بہت کچھ تحریر ہو چکا ہے کہ امریکہ کو طالبان سے مذاکرات کی ضرورت کیوں پیش آئی، تاہم بعض ایسے نکات پر روشنی ڈالنا ضروری ہو گا جو اس مذاکراتی عمل کی نوعیت سمجھنے میں معاون ثابت ہوں، اگر امریکہ اور طالبان کے مابین جاری بات چیت کو محدود کہا جائے تو غلط نہ ہو گا، کیونکہ ایک سنجیدہ حلقے کا خیال ہے کہ امریکہ طالبان مذاکرات صرف قیدیوں کے تبادلے تک محدود ہیں، امریکہ کے بھی کچھ قیدی (فوجی اور شہری) طالبان کی تحویل میں ہیں، دوسری جانب طالبان جنگجووں کی امریکہ کی مختلف جیلوں میں موجودگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔

خیال کیا جا رہا ہے کہ ان قیدیوں کے تبادلے تک تو معاملات درست سمت میں آگے بڑھیں گے لیکن اس کے بعد مذاکرات کس رخ مڑتے ہیں اس کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا، کیونکہ ملا عمر اور حزب اسلامی کے سربراہ حکمتیار کے یہ بیانات بھی قارئین کے اذہان میں اچھی طرح محفوظ ہوں گے کہ ''ایک بھی غیر ملکی فوجی کی افغان سرزمین پر موجودگی تک کسی قسم کی بات چیت نہیں ہو گی''، طالبان اور امریکہ و نیٹو کیخلاف برسر پیکار دیگر جنگجو گروپ شکست تسلیم کرنے کو کسی طور پر تیار نظر نہیں آ رہے، ایسی صورتحال میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کیلئے صورتحال قابل فکر ضرور ہے۔

امریکہ ایک لمبے عرصہ تک قیام کیلئے بوریا بستر افغانستان لیکر آیا تھا، لیکن توقعات کے برعکس حالات اور گزشتہ دو سالوں کے دوران بڑھتی ہوئی فوجی ہلاکتوں نے امریکی تھنک ٹینکس اور ارباب اختیار کو دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے، تاہم پاکستان، ایران اور چین پر نظر رکھنے اور ان ممالک کی ترقی میں رکائوٹ ڈالنے کیلئے افغان سرزمن سے بہتر امریکہ کیلئے کوئی اور ٹھکانہ نہیں ہو سکتا، اس کے علاوہ بھی کئی امریکی مفادات سرزمین افغانستان سے وابستہ ہیں۔

افغانستان میں امن مذاکرات کی کوئی بھی کوشش پاکستان کو نظر انداز کئے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی، تاہم سانحہ سلالہ چیک پوسٹ کے بعد واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان بڑھتی ہوئی دوریاں اس موجودہ مذاکراتی عمل کی کامیابی پر سوالیہ نشان ضرور لگا رہی ہیں، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ برہانی الدین ربانی کے قتل کے بعد پاکستان اور افغان حکومت کے درمیان اختلافات شدت اختیار کر گئے ہیں، اور بعض ذرائع تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ افغان صدر حامد کرزئی اس گرما گرمی کو ختم کرنے کیلئے پاکستان کا دورہ کرنے کے خواہش مند ہیں لیکن میزبان اس پر رضامند نہیں، تاہم پاکستانی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کا حالیہ دورہ افغانستان دونوں ممالک کے درمیان Tension (کشیدگی) کم کرنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔

مذکورہ بالا معاملات کو زیر نظر لانا اس مذاکراتی عمل کو سمجھنے کیلئے ضروری تھا، اب اگر واشنگٹن اور طالبان کی بات چیت کی کامیابی کی امید کی جائے تو موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ کسی کیلئے خوش فہمی اور کسی کیلئے غلط فہمی ضرور ہو سکتی ہے، البتہ اس مذاکراتی عمل میں ملا عمر، جلال الدین حقانی، گلبدین حکمتیار، شمالی اتحاد کے اراکین سمیت خطہ کے اہم ممالک بشمول پاکستان، ایرن اور چین کی شمولیت افغانستان اور خطہ کے بہتر مستقبل کیلئے فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے، افغانستان کے مستقبل سے منسلک ایک فریق بھارت بھی ہے جو اکثر ایشئین ڈائیگر بننے کے خواب دیکھتے ہوئے افغانستان میں اثرو رسوخ قائم کرنے کا متمنی رہتا ہے جو کم از کم پاکستان کیلئے ناقابل قبول ہے۔

دوسری جنگ عظیم کے ایک اہم کمانڈر کا یہ جملہ ''دنیا کی بڑی سے بڑی جنگ کا اختتام مذاکرات کی میز پر ہو سکتا ہے لیکن معلوم نہیں لوگ جنگ کو کیوں ترجیح دیتے ہیں'' شائد امریکی حکمرانوں کی سمجھ میں آگیا ہے، لیکن اپنے مفادات کی خاطر گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والے امریکہ پر اعتبار کرنا کسی فریق کی دانشمندی پر شک کرنے کیلئے کافی ہو گا، تاہم افغانستان کے پڑوسی ممالک کیلئے امریکہ کو اس خطہ سے بیدخل کرنے کا یہ اہم موقع ہے چونکہ امریکی شکست اب ہر خاص و عام کی زبان پر عیاں نظر آ رہی ہے، دوسری جانب واشنگٹن اور طالبان کے حالیہ مذاکرات سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ کرنا بھی عقل مندی نہ ہو گی، تاہم اس خطہ کے بہتر مستقبل اور بے گناہوں کے قتل عام کو روکنے کیلئے پاکستان، ایران اور چین کو اہم کردار ادا کرنا ہو گا۔
خبر کا کوڈ : 135150
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش