0
Tuesday 7 Feb 2012 10:43

افغان بحران، امکانات اور خدشات

افغان بحران، امکانات اور خدشات
تحریر: سلیم صافی 

افغان بحران بنیادی طور پر ایک ہمہ پہلو (Multi-Dimentional) بحران ہے۔ غالب پہلو تزویراتی (Strategic) ہے دوسرا نظریاتی یا مذہبی، تیسرا سیاسی، چوتھا معاشی اور پانچواں معاشرتی پہلو ہے۔ سب اپنا اپنا کام دکھا رہے ہیں لیکن غالب پہلو اسٹریٹجک ہی ہے۔ افغانستان ماضی میں بھی بڑی طاقتوں کی براہ راست اور خطے کے ممالک کی پراکسی جنگوں کا میدان تھا اور آج بھی ہے، چنانچہ فوری مگر قلیل المیعاد (Short Term) حل کے لئے اس غالب پہلو یعنی تزویراتی کشمکش کا حل نکالنا ہو گا، لیکن دائمی اور پائیدار حل کے لئے باقی چار محاذوں پر بھی پائیدار بنیادوں پرکام کرنا ہو گا۔
 
قلیل المیعاد حل کی تین شکلیں ہو سکتی ہیں پہلا یہ کہ طالبان، حزب اسلامی، کابل حکومت اور شمال کے افغانی کسی فارمولے پر متفق ہو جائیں اور سب ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اپنی سرزمین سے غیرملکی قوتوں کو نکالنے کی راہ ہموار کریں، لیکن اس کا امکان نظر اس لئے نہیں آتا کہ افغانستان کے اندر اس وقت کوئی بھی فریق اپنی مرضی کا مالک نہیں، ہر فریق کے پاس اپنی لائن اور جدوجہد کے لئے اپنے دلائل موجود ہیں اور ہر فریق اپنے آپ کو حق بجانب بھی سمجھتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے ہر فریق نادانستہ دوسروں کے ہاتھ میں کھیل رہا ہے اور ہر ایک کی موجودگی یا فعالیت غیرملکی قوتوں کی شہہ کی مرہون منت ہے۔
 
دوسرا ممکنہ حل یہ ہو سکتا ہے کہ پاکستان، ایران، چین، روس اور اس کے زیر اثر وسط ایشیائی ریاستیں افغانستان کے مستقبل کے لئے کسی فارمولے پر متفق ہو جائیں اور پھر یہ سب مل کر اس فارمولے کو عالمی طاقتوں اور افغانوں سے منوالیں، لیکن اس کا امکان بھی بہت کم ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ کسی نہ کسی جگہ آ کر ان کے مفادات ایک دوسرے سے متصادم ہو جاتے ہیں، مثلاً اقتصادی میدان میں ایران اور پاکستان افغانستان کے اندر ایک دوسرے کے حریف ہیں، حلیف نہیں۔ روس، چین اور ایران بھی پاکستان کی طرح امریکہ کی شکست کے متمنی ہیں اور سب حسب استطاعت طالبان کو سپورٹ بھی کر رہے ہیں، لیکن پاکستان کے برعکس روس، چین اور ایران افغانستان میں دوبارہ طالبان کی حکومت کو اپنے لئے سنگین خطرہ بھی تصور کرتے ہیں۔ 
ایک اور رکاوٹ یہ ہے کہ یہ تمام ممالک امریکہ اور اسلام دونوں کے بارے میں الگ الگ تصورات رکھتے ہیں۔ اسی طرح ہندوستان کو روس اور چین ان نظروں سے نہیں دیکھتا جن نظروں سے پاکستانی دیکھ رہے ہیں۔ دوسری طرف افغانستان کے اندر ایران اور ہندوستان حلیف ہیں لیکن پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے لئے ہندوستان ہی سب سے بڑا درد سر ہے۔ 

تیسرا اور واحد قابل عمل حل یہ ہے کہ امریکہ، اس کے اتحادی، افغانستان کے پڑوسی ممالک، افغان حکومت، طالبان و حزب اسلامی اور شمالی افغانستان کے عناصر کسی فارمولے پر متفق ہو جائیں۔ افغانستان اس مقام تک اس لئے پہنچا اور قضیہ حل اس لئے نہ ہو سکا کہ ان میں سے ہر فریق اپنے مفادات اور خدشات کو تو مدنظر رکھتا ہے لیکن دوسرے کے مفادات اور خدشات کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ حل کا راستہ یہ ہے کہ تمام کھلاڑی اپنے جائز شکایات کے ازالے اور جائز مفادات کے حصول پر اصرار ضرور کریں لیکن دوسرے فریق کے مفادات کی قیمت پر نہیں۔
 
اسی طرح وہ اپنے خدشات کو بھی رفع کرے لیکن اس طرح نہیں کہ وہ دوسرے کھلاڑی کے لئے خدشات کا موجب بنے، مثلاً امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کا خدشہ اس حد تک صحیح ہے کہ افغان سرزمین کو مستقبل میں القاعدہ یا کوئی اور قوت اس کے خلاف استعمال نہ کرے۔ وہ اگر بات یہیں تک محدود رکھتا ہے تو روس، چین، ایران اور پاکستان کو بھی اعتراض نہیں ہو گا، لیکن جب وہ اپنی خواہشات کی بنیاد پر افغانستان میں طویل المدت قیام پر اصرار اور اس کے مستقبل کو ان خطوط پر استوار کرنا چاہتا ہے کہ جس کے نتیجے میں پاکستان، ایران یا روس و چین وغیرہ کے مفادات کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو لامحالہ وہ رکاوٹ ڈالنے پر آجاتے ہیں۔
 
اسی طرح پاکستان اگر یہ مطالبہ کرتا ہے کہ افغانستان کے مستقبل کی صورت گری ایسی ہو کہ اس کی سرزمین اس کے خلاف استعمال نہ ہو تو اس حد تک اس کی تشویش کو جائز سمجھا جائے گا لیکن جب وہ افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر کے مستقبل کی ساری بساط اپنی مرضی کے مطابق بچھانا چاہتا ہے تو یہاں سے وہ اپنی حدود سے تجاوز کرتا ہے اور یہیں سے اس کی خواہش دوسروں کے لئے ناقابل برداشت بن جاتی ہے۔ 

طالبان اگر غیرملکی افواج کا انخلاء یا پھر افغانوں کی مرضی کی حکومت کا مطالبہ کرتے ہیں تو اس حد تک ان کا مطالبہ جائز قرار پاتا ہے لیکن جب وہ ماضی کی طرح پورے افغانستان پر اپنے مخصوص طرز کی حکومت قائم کرنے پر اصرار کرتے ہیں تو وہ نہ صرف امریکہ اور دیگر غیرملکی طاقتوں کے لئے ناقابل قبول بن جاتا ہے بلکہ خود افغانستان کے اندر کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد بھی ایسی ہے کہ جو اس دور کو واپس لانے سے غیرملکی طاقتوں کی موجودگی کو بھی بہتر سمجھتے ہیں۔ علی ہذالقیاس۔ 
 
اب ممکنہ حل یہ ہو سکتا ہے کہ ایک ایسا فارمولا بنایا جائے کہ جس میں تمام اہم فریقوں (افغان حکومت و شمال کے افغانی، طالبان و حزب اسلامی، امریکہ و اس کے اتحادی، پاکستان، ایران، روس اور چین) کے جائز خدشات کو رفع اور سب کے جائز مفادات کا تحفظ کیا گیا ہو۔ ایسا ممکن ہے لیکن اس صورت میں ہر فریق اپنی خواہشات اور (Ambitions) سے دستبردار ہو کر قبول کر لے۔ اپنے جائز خدشات کو رفع کرنے اور جائز مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے پر تو اصرار کرے لیکن اس مطالبے اور خواہش سے دستبردار ہو جائے کہ جس سے دوسرے فریق کے لئے خدشات جنم لے رہے ہوں یا پھر اس کے مفادات پر ضرب پڑ رہی ہو۔
 
یقیناً امریکہ افغانستان میں ہار رہا ہے اور اس نے افغانستان کے حوالے سے جو خواب دیکھے تھے وہ کم و بیش سب چکنا چور ہو رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ کی ہار افغانستان اور پاکستان کی جیت کے مترادف ہے؟ جواب نفی میں یوں ہے کہ امریکہ تو ہار رہا ہے لیکن جس ڈگر پر معاملات جا رہے ہیں، اس سے لگتا ہے کہ امریکہ سے بڑھ کر افغانستان اور اس سے بھی بڑھ کر پاکستان ہار رہا ہے۔ افغانستان کی جیت تب ہوتی کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی شکست کے بعد وہاں امن اور خوشحالی آتی، لیکن یہ بات اظہر من الشمس دکھائی دیتی ہے کہ افغانستان مزید فسادات اور خانہ جنگیوں کی طرف جائے گا اور پاکستان پر منفی اثرات پہلے سے بھی بڑھ کر مرتب ہوں گے۔
 
طالبان نے امریکی ارادوں کو ناکام بنانے میں تو کلیدی کردار ادا کیا اور کر رہے ہیں لیکن دنیا کی مرضی کے بغیر وہ ماضی کی طرح افغانستان کے حاکم یوں نہیں بن سکتے کہ ایک تو امریکہ کی فضائی قوت کی وجہ سے وہ کسی بڑے شہر کو قبضے میں نہیں رکھ سکتے اور دوسرا شمال میں رہنے والے اور کابل حکومت کی حمایت کرنے والے افغان پھر امریکی اسلحہ اور پیسے کے ساتھ طالبان کے خلاف لڑیں گے۔ 

جب تک امریکہ کی افواج اتنی بڑی تعداد میں افغانستان کے اندر موجود ہیں تو وہ پاکستان کا محتاج ہے اور یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ افغانستان کو مستحکم اور خوشحال بنائے، لیکن جب اس کی افواج نکل جائیں گی تو پھر اس کی تمام مجبوریاں ختم ہو جائیں گی پھر استحکام لانا طالبان کا اور تخریب کرنا امریکہ کے کام بن جائیں گے۔ امریکہ اس وقت افغانستان میں سالانہ سو ارب ڈالر سے زائد خرچ کر رہا ہے اور انخلاء کے بعد چند ارب ڈالر سالانہ خرچ کر کے وہ افغانوں کو افغانوں سے بھی، اور انہیں پاکستان کے ساتھ بھی لڑوا سکتا ہے۔
 
ایک طرف تو افغانستان میں طالبان یا حزب اسلامی کی مستحکم حکومت قائم نہیں ہو سکے گی، لیکن دوسری طرف پاکستان پر وہاں کے حالات کے نہایت منفی اور بھیانک اثرات مرتب ہوں گے۔ امریکہ اور طالبان نے براہ راست مذاکرات تو شروع کر دیئے ہیں لیکن پہلے تو ان کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں اور اگر کامیاب ہوتے ہیں تو امریکیوں کے ذہن میں یہ نقشہ ہے کہ وہ جنوبی اور مشرقی افغانستان کو طالبان کے کنٹرول میں دے دیں۔ شمالی افغانستان کا کنٹرول وہاں کے موثر دھڑوں کے ہاتھ میں رہے اور امریکی اڈے بھی وہاں موجود رہیں۔ایسا ہوا تو یہ مستقبل کے حوالے سے یوں بھی خطرناک ہے کہ افغانستان کی تقسیم کی راہ ہموار ہو گی اور پاکستان کی مغربی سرحد ایک اور حوالے سے بھی اس کے لئے درد سر بن جائے گی۔
 
امریکیوں کی عقل اگر ٹھکانے آ رہی ہے تو پاکستانیوں کو بھی عقل سے کام لینا چاہئے۔ انہیں امریکہ سے اس کی ناک رگڑوانے کے خواب چھوڑ کر امریکہ کے ساتھ اس کے انخلاء کے عمل میں اس بنیاد پر تعاون کرنا چاہئے کہ اس کی جائز شکایات بھی رفع ہوں اور افغانستان اور پاکستان کے جائز اور ممکن مفادات کا بھی تحفظ ہو اور پاکستان کا مفاد اسی میں ہے کہ وہ افغانستان میں دائمی امن واستحکام اور وہاں کے عوام کے مفاد کو مقدم رکھے۔
 "روزنامہ جنگ"
خبر کا کوڈ : 135985
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش