1
0
Monday 13 Feb 2012 00:20

ایران پر حملہ

ایران پر حملہ
تحریر: زاہد مرتضٰی
 
فرمان حضرت امام حسین ع ہے کہ یہ برائیوں کا زمانہ ہے اور حق کے پیروکار داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ خدا کے احکامات کو نظر انداز کیا جا رہا ہے، جن چیزوں سے منع کیا گیا تھا ان پر بخوشی عمل کیا جا رہا ہے۔
جنگ کو منافع بخش صنعت سمجھنے والے امریکی آقاؤں کی فرمائش پر بعض مصنوعی، جعلی سکالرز نے ایک مرتبہ پھر امریکہ کی سیاسی گلیوں و بازاروں میں یہ صدا لگانا شروع کر دی ہے کہ ایران پر پیشگی حملہ کر دیا جائے۔ "سرجیکل اسٹرائیک" کی حالیہ آواز امریکہ کی خارجی تعلقات کی کونسل سے تعلق رکھنے والے سکالرز میتھیو کروئنگ کی طرف سے آئی ہے جو فارن افیئرز میگزین میں اپنے لکھے گئے آرٹیکل "Time to Attac Iran " میں جو دلائل کی کمی سے بھرپور ہے، میں اپنا موقف پیش کرتا ہے۔
 
کروئنگ کہتا ہے کہ اب ایران پر فوری حملہ مشرق وسطٰی سمیت پوری دنیا کو صدام حسین جیسے خطرے سے باز رکھے گا اور اس کے نتیجے میں امریکہ کی قومی سلامتی کو بہتر کرنے میں بھی کردار ادا کرے گا۔ وہ کہتا ہے کہ سفارتکاری اور پابندیاں ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام کو روکنے میں ناکام ہو چکی ہیں، کسی ملک کا نام نہ لیتے ہوئے اس نے الزام عائد کیا کہ خطے میں بہت سے ممالک امریکہ کو چھوڑ کر ایران کے اتحادی بننے لگے ہیں اور ممکن ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے اپنے ایٹمی پروگرام بھی شروع کر دیں، جس کے نتیجے میں خطے میں ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہو جائے گی۔ اس نے خبردار کیا ہے کہ ایران پر فوری حملے کی گھڑی سے فائدہ اُٹھا لینا چاہیے، اس سے قبل کہ ایران اپنے ایٹمی اثاثوں کو مزید محفوظ مقامات پر منتقل نہ کر دے۔ پس اگر امریکہ فوری حملے کا آپشن اختیار نہیں کرتا تو اس صورت میں وہ ایران کو ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے سے روکنے کے آخری موقع کے حق سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔
 
کسی بھی خطرے سے خالی سنجیدہ صورتحال کی موجودگی پر زور دیتے ہوئے کروئنگ خبردار کرتا ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کا حامل ایران مشرق وسطٰی میں امریکہ کے آزادانہ نقل و حرکت کو فی الفور روک سکتا ہے۔ یہ جانتے ہوئے کہ اسرائیل ایک ایٹمی اسلحہ رکھنے والا خطرناک ملک ہے۔ وہ ہمیں یہ یقین دلاتا ہے کہ اگر ایران ایٹمی ہتھیار حاصل کر لیتا ہے تو اس صورت میں وہ کبھی بھی پہلے حملہ کرنے کی کوشش نہیں کرے گا لیکن اگر صیہونی ریاست نے ایران پر حملہ کیا تو اس کے نتیجے میں بحران ایک بے قابو مرغولے کی شکل اختیار کر لے گا اور امریکہ کو خطے میں لمبے عرصے کیلئے مزید ایک دلدل میں پھنسا دے گا۔
 
مختصراً کروئنگ یہ مشورہ دیتا ہے کہ ایک فوری ضروری، محتاط، منظم پیشگی امریکہ حملہ بہترین حل ہے جو امریکہ کو ایک مہنگی عسکری کارروائی سے بچا سکتا ہے جس کی مستقبل میں ایران کے ایک ایٹمی قوت بن جانے کے بعد امریکہ کو ضرورت ہے۔ مزید برآں فوری حملہ مشرق وسطٰی کو فضا میں تحلیل کر دینے کے اسرائیل کے ان یکطرفہ اقدامات کے اشارے جن کی پیشنگوئی ممکن نہیں، کے خلاف ایک ڈیٹرنٹ ثابت ہو سکتا ہے۔
 
کروئنگ اپنے میدان جنگ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ایران کے خلاف مزاحمتی حملہ، صرف ایران کے نیوکلیئر تنصیبات پر حملوں تک محدود رہے گا جو مختلف شہروں، اراک، نطنز اور تہران کے علاقوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ وہ ان بموں کے بارے میں بتلاتا ہے جو اس حملے میں استعمال کیے جائیں گے۔ امریکہ کے جنگی ہتھیاریوں میں 3ہزار پاؤنڈ (13608کلو) وزنی Massive Oronance Penetrator جو تباہ کن صلاحیتوں کا حامل ہے اور 200فٹ گہرائی تک کنکریٹ کی کسی بھی تعمیرات کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، بھی شامل ہیں۔ 

مزید برآں وہ یقین دلاتا ہے کہ اگر واشنگٹن رات کو حملے کرے گا تو سویلین افراد کی ہلاکتوں کا امکان بہت ہی کم ہو گا اور حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی اکثریت فوجی اہلکار، سیاستدان، انجینئر اور ایٹمی تنصیبات پر کام کرنے والے اسٹاف کے لوگ ہونگے۔ اہداف پر گائیڈڈ میزائل استعمال کرنے سے ایٹمی تنصیبات سے متصل عمارتوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ کروئنگ کے پیش نظر دو آپشنز ہیں، امریکہ کو ایران کے خلاف ابھی رسمی جنگ کا باقاعدہ آغاز کر دینا چاہیے یا دوسری صورت میں ایک ایٹمی ایران سے مستقبل میں تصادم کیلئے تیار رہے۔ 

تاہم اس کے مطابق امریکہ کیلئے معقول حل صرف ایک ہی ہے کہ وہ ایران کے خلاف ابھی ایک فیصلہ کن حملہ کر دے اور اس بات کو یقینی بنا دے کہ ایران کا ایٹمی انفراسٹرکچر ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو گیا ہے۔ کروئنگ کے غلط نتائج اخذ کرنے کی بنیاد آئی اے ای کے بورڈ آف گورنرز کی نومبر 2011ء کو شائع ہونے والی وہ رپورٹ ہے جس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ایران ایٹمی ہتھیار بنانے کی تیاریاں کر رہا ہے۔ 

حقیقت یہ ہے کہ ایران، رہبر معظم آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے فتویٰ کے بعد ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کا کام ترک کر چکا ہے۔ جس میں انہوں نے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کو اسلامی نقطہ نظر سے خلافِ انسانیت قرار دیا تھا، رپورٹ کے مطابق اکتوبر 2003ء سے اسلامی جمہوریہ کی پالیسی آئی اے ای سے مکمل تعاون پر مبنی ہے۔ 2003ء سے قبل ایران کی طرف سے بھیجی جانے والی رپورٹس پر آئی اے ای اے کا اظہار اطمینان بالکل واضح تھا۔ 2003ء کے آخر تک آئی اے ای اے ایران کے ساتھ اچھے تعلقات پیدا کرنے کی اپنی اہلیت کا اظہار کرتی نظر آتی ہے۔ مختصراً کروئنگ ایران کے خلاف فوری حملے (سرجیکل سٹرائیک) کے اپنے موقف کی بنیاد 2003ء کے بعد ایران اور آئی اے ای اے کے درمیان ایٹمی پروگرام سے متعلق عدم تعاون کے نتیجہ کو قرار دیتا ہے۔
 
دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ایران پر حملے کے غیر منطقی، غیر منصفانہ اور غیر اخلاقی فیصلے کے پیچھے کون ہے؟ امریکی سیکرٹری دفاع لیون پنیٹا کا کہنا ہے کہ امریکہ ایران کو کبھی بھی ایٹمی ہتھیار حاصل نہیں کرنے دے گا۔ یہ ہمارے لیے خطرے کی گھنٹی ہے اور واضح طور پر اسرائیل کیلئے بھی ریڈ لائن ہے۔ نارمن پوڈورئز جونیو کنزرویٹو اور کمنٹری میگزین کے ایڈیٹر ہیں، قیاس آرائی کرتے ہیں کہ ایران اسلامی فاشسٹ نظریات کا مرکز ہے، جس سے ہم 9/11کے بعد سے لڑ رہے ہیں، ایران دہشتگردی جو اسلامک فاشزم کا مقبول ہتھیار ہے کا زبردست سپورٹر بھی ہے۔ علاوہ ازیں ایران جنگ عظیم چہارم کا نمایاں چہرہ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ 

ایران کی ایٹمی ہتھیار تیار کرنے کی کوششیں اسے تمام دنیا کیلئے بہت زیادہ خطرناک بنا سکتی ہیں۔ بش کے دور میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا بارکلے، 2003ء سے 2011ء تک امریکی سینٹ اٹارنی جنرل اور ٹورنٹو میمو نوشت کرنے والے جوہن پو لکھتے ہیں کہ اوبامہ انتظامیہ کی طرف سے ایک بڑھتے ہوئے خطرے کا سامنا کرنے میں ہچکچاہٹ کے باعث، دوسرے کئی جیسے ری پبلکن امیدوار کو ایران کے نیوکلیئر پروگرام کو تباہ کرنے کیلئے فوجی حملہ کا کیس تیار کرنا شروع کر دینا چاہیے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے کہا ہے کہ ایٹمی ایران ایک اور ہولوکاسٹ کا پیش خیمہ ہو گا، اس نے مزید کہا کہ خطے میں دیگر طاقتوں کی طرح ایران ایک ایسی طاقت ہے جو ایٹمی ہتھیار بنانے کی کوششوں میں لگی ہوئی ہے۔ ایک ایٹمی ایران پورے مڈل ایسٹ اور تمام دنیا کیلئے ایک سنجیدہ خطرہ ہو گا اور یقیناً یہ ہمارے لیے ایک بالواسطہ اور سنگین خطرہ ہے۔
 
دوسر ے جعلی سکالرز جو ایران کا خوف اور اسلامو فوبیا کے شعلوں کو ہوا دینے میں مصروف ہیں، ان میں سنٹر فار سکیورٹی پالیسی کے فرنیک گریفن، سوسائٹی آف امریکنز فار نیشنل ایگزسٹنس کے ڈیوڈ یروشلمی، مڈل ایسٹ فورم کے ڈینئل پائپس، جہاد واچ اینڈ سٹاپ اسلامائزیشن آف امریکہ کے رابرٹ سپنسر، انویسٹی گیٹو پراجیکٹس آن ٹیررازم کے سٹیون ایمرسن، الٹرا رائٹ ونگ کریسچن، صیہونسٹ جان ہیگ فرام کریسچن یونائیٹڈ فار اسرائیل، کریسچن براڈ کاسٹنگ نیٹ ورک اینڈ دی سنٹر فار لاء اینڈ جسٹس پیٹ رابرٹسن، فیتھ اینڈ فریڈم کولیشن کے رالف ریڈ اور ربلی گرام، ایوینجلسٹک ایسوسی ایشن اور سمارٹنز پریس کے فرینکلن گراہم قابل ذکر ہیں۔
 
اس حقیقت سے ہر شخص آگاہ ہے کہ امریکہ کی نگاہیں صدیوں سے توانائی کے ذخائر سے مالا مال خلیج فارس کے علاقے پر گڑی ہوئی ہیں، لیکن ایران پر حملے کی کال اس موقع پر کیوں دی جا رہی ہے؟ جبکہ جنگ کے خواہشمند صرف اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ ایران ایٹمی ہتھیار بنا لے گا، اس لیے اس پر پیشگی حملہ کر دیا جائے۔ درحقیقت حالیہ ہیجان کے پیچھے سچائی اور وہ وجہ جس کا واضح اظہار نہیں کیا جا رہا یہ ہے کہ صیہونی مکمل طور پر اس بات کو محسوس کر رہے ہیں کہ دنیائے عالم کی ان کے بارے میں رائے تیزی سے تبدیل ہوتی جا رہی ہے تبھی وہ بڑی قوتوں کو ایران کے خلاف فوجی حملے کی طرف دھکیل رہے ہیں، تاکہ دنیا کی انکے بارے میں بدلتی رائے کے مسئلے پر توجہ ہٹائی جاسکے۔
 
امریکی معیشت ابتری کی حالت میں ہے اور فوجی بجٹ خسارہ ریکارڈ سطح پر پہنچ گیا ہے، جس کی وجہ سے پنٹاگون بھی کٹوتیوں کی زد میں ہے۔ ان حالات میں مستقبل میں ایران کے خلاف مہم جوئی ناپسندیدہ عمل تصور کیا جائے گا۔ مزید برآں الیکشن کے سال میں ایک جنگ کا آغاز امریکی معیشت کی بری صورتحال اور سماجی مسائل جو امریکہ میں طاعون کی وبا کی طرح پھیل رہے ہیں سے ووٹرز کی توجہ ہٹانے کا ایک بہترین ذریعہ بن سکتا ہے۔ ایک اور نقطہ جس کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے کہ عالمی برادری اس بات پر کیوں شور نہیں مچا رہی کہ صیہونی ریاست اسرائیل اپنے ایٹمی ہتھیاروں اور ذخیروں کو ظاہر کرے اور انہیں آئی اے ای اے کے سامنے معائنے کیلئے پیش کرے۔ 

ایک اندازے کے مطابق اسرائیل کے پاس 200 سے 300 ایٹمی ہتھیار ہیں اور یہ ناجائز ریاست خطے میں جارحیت کے ارتکاب کی ایک تاریخ رکھتی ہے۔ اس ریاست نے 1981ء میں عراق کے نیوکلیئر ری ایکٹر اوسراک پر حملہ کیا، 1967ء، 1997ء، اور 2007ء میں شام، 1985، 1988ء میں تیونس، 1978، 1982اور 1993ء میں لبنان اور ماضی قریب میں 2006ء میں جنوبی لبنان۔ 2000 ، 2009 اور 2011ء میں فلسطین کے علاقے غزہ پر حملے کیے۔ دوسری طرف ایران نے خطے میں کسی بھی ملک پر حملہ نہیں کیا۔ پس کیوں ہر وقت جنگ پر آمادہ صیہونی ریاست اسرائیل کو ایٹمی ہتھیار رکھنے کی کھلی چھوٹ دے دی جائے، لیکن کبھی نہ مشتعل ہونے والا ایران پر صرف اس لیے حملہ کر دیا جائے کیونکہ وہ ایٹمی پروگرام حاصل کرنے کی صرف جستجو کر رہا ہے۔
 
یقیناً اسلام اجتماعی اور انفرادی طور پر اسلحہ رکھنے اور قوموں کو دفاع کا حق فراہم کرتا ہے، تاکہ ہم اپنے علاقے، حقوق اور وقار کا تحفظ کر سکیں، تاہم اسلام مسلمانوں کو کبھی اس چیز کی اجازت نہیں دیتا کہ محض ایسی جنگ میں الجھا جائے جو فقط قیاس آرائیوں اور غیر مقبول الزامات پر استوار کی گئی ہو۔ اسلامی سکالر احمد لکھتے ہیں کہ اسلام میں پیشگی جنگ کے نظریئے کا کوئی تصور موجود نہیں۔ پیشگی حملے کا تصور یا نظریہ بے دین اور ملحدوں کا ہے، جو ہمیشہ عقب سے یا کسی اشتعال انگیزی کے بغیر حملہ کر دیتے تھے۔
 
مغرب اور اس کے اتحادی ایران کو دھمکانے اور مسلمانوں کو دہشتگرد کہہ کر بدنام کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ اسلام ان کے جنگوں کے لامتناہی سلسلے، قبضے اور خون آشامی کے ایجنڈے کے مدمقابل جہاد کا نظریہ پیش کرتا ہے۔ بنیادی طور پر جہاد انسانی اقدار کے فروغ کے راستے پر اچھائیوں کی تبلیغ اور برائیوں کے خاتمے کی کوششوں کا نام ہے۔ جہاد کی پابندی کرتے ہوئے مسلمان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ وہ کسی بھی ملک کو اپنے قدرتی وسائل پر قبضہ نہیں کرنے دیں گے کیونکہ یہ وسائل اللہ تعالٰی نے انہیں عطا کیے تاکہ تمام انسانیت اس سے استفادہ کرے۔ 

ہم ایک دور میں زندہ ہیں جو برائیوں سے اٹا ہوا ہے، جیسے پاکستان میں امریکہ اور نیٹو کے ڈرون حملے، سرحدی علاقوں میں فوجوں پر بمباری، اندرون ملک شہریوں، حساس تنصیبات پر خودکش بم دھماکے اور انتہا پسندی کو پھیلانے جیسے مغربی استعمار کے ہتھکنڈے، افغانستان، عراق، ایران اور شام میں امریکی و اسرائیلی استعمار اور اس کے حواریوں کی سربراہی میں لاکھوں مسلمانوں کو خاک و خون میں غلطاں کر دیا گیا ہے۔ اپنی سرزمینوں کی حفاظت مسلمانوں اور بالخصوص امریکی و اسرائیلی سازشوں کا ادراک رکھنے والے مجاہد مسلمانوں کی اولین ذمہ داری ہے، اس کیلئے اپنے مال و دولت اور جان تک کو اپنے ملک کی حفاظت کیلئے نچھاور کرنے کیلئے ہر لمحہ تیار رہنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ہرگز اللہ تبارک تعالٰی کے احکامات کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ اپنی سرزمین کا دفاع کرنا ہماری اولین ذمہ داری ہے، اس کیلئے ہر ممکن ذرائع سے چاہے وہ مال و دولت ہو یا اپنی زندگی، اس مقدس سرزمین کی حفاظت میں نچھاور کر دینی چاہیے۔
خبر کا کوڈ : 137066
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
احسنتم جزاكم الله خير الجزاء و وفقكم لخدمة الاسلام والمسلمين اكثر فأكثر ومشكووووووووووووووووووور
ہماری پیشکش