0
Thursday 16 Feb 2012 23:18

طوفان برپا ہونے لگا

طوفان برپا ہونے لگا
تحریر: مہدی محمدی
گذشتہ روز ایران کے نیوکلیئر ایشو کا ایک تاریخی دن تھا۔ ایران نے اپنے مغربی دشمنوں پر یکے بعد دیگرے ایسی کئی کاری ضربیں لگائیں جنکی توقع کسی تجزیہ نگار یا انٹیلی جنس ایجنسی کو ہر گز نہ تھی۔
ایران نے پہلا قدم اٹھاتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ اس نے اپنے نیوکلیئر ایندھن کے کارخانوں میں 20 فیصد افزودہ یورینیم پر مشتمل ایندھن مکمل طور پر مقامی ٹیکنولوجی کو استعمال کرتے ہوئے تیار کر لیا ہے اور اسکی پہلی کھیپ کو تہران کے تجرباتی ایٹمی ری ایکٹر میں فیڈ بھی کر دیا گیا ہے۔
دوسری خبر یہ تھی کہ ایران نے نئی نسل کے سنٹری فیوجز بنا لئے ہیں جو گذشتہ سنٹری فیوجز کی نسبت درحقیقت چوتھی نسل شمار کئے جاتے ہیں۔ سنٹری فیوجز کی یہ نسل اپنی پہلی نسل کی نسبت جو اس وقت ایران کی ایٹمی تنصیبات میں اسٹینڈرڈ سنٹری فیوج مشینوں کے طور پر کام کر رہے ہیں، یورینیم کو افزودہ کرنے میں 3 گنا زیادہ طاقتور ہے۔
گذشتہ روز اعلان ہونے والی تیسری اہم خبر یہ تھی کہ ایران نے اپنی ایٹمی تنصیبات میں زیر استعمال سنٹری فیوجز کی تعداد میں قابل ذکر حد تک اضافہ بھی کر دیا ہے۔
چوتھی خبر جو انتہائی غیر متوقع طور پر اعلان کی گئی اور جس نے کچھ دیر کیلئے تمام مغربی ذرائع ابلاغ کو شدید شاک سے دوچار کر دیا وہ یہ تھی کہ ایران نے اچانک اعلان کیا کہ اس نے 6 یورپی ممالک کو خام تیل کی ترسیل روکنے کا فیصلہ کر لیا ہے مگر یہ کہ یہ ممالک ایران کے خلاف اپنے رویوں میں بنیادی تبدیلیاں لائیں۔
اور آخرکار ایران کی قومی سلامتی کونسل کے سیکرٹری جنرل جناب سعید جلیلی نے اعلان کیا کہ انہوں نے یورپ کی 5+1 مذاکراتی ٹیم کی سربراہ خاتون کیتھرائن اشتون کو ایک خط ارسال کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ایران 5+1 گروپ کے ساتھ پہلی فرصت میں مذاکرات شروع کرنے کیلئے مکمل طور پر آمادہ ہے۔
ان خبروں پر دوبارہ ایک نظر دوڑائیں، کیا اہم واقعہ رونما ہو رہا ہے؟ کیا امریکی اور یورپی حکام ایسا سوچ بھی سکتے تھے کہ ایران نے ان کیلئے ایسے جواب تیار کر رکھے ہوں؟ اور ایران یہ تمام جواب ایک ہی دن انہیں دے مارے؟ اجازت دیں پہلے دیکھیں کہ کیا اہم واقعہ رونما ہوا ہے۔
تہران کے تجرباتی نیوکلیئر ری ایکٹر کا ایندھن مقامی طور پر تیار کرنے کا اعلان تکنیکی اعتبار سے ایک انتہائی اہم اور گرانبہا کامیابی ہے۔ جب اکتوبر 2009 میں ایران اور ویانا گروپ (فرانس، امریکہ اور روس) کے درمیان آسٹریا کے شہر ویانا میں ہونے والے مذاکرات تعطل کا شکار ہوئے تو بین الاقوامی ایٹمی توانائی کی ایجنسی آئی اے ای اے میں امریکی سفیر اور ویانا گروپ میں امریکی نمائندے گالن ڈیوس نے انتہائی واضح الفاظ میں اعلان کیا کہ اگر ایران تہران میں واقع تجرباتی نیوکلیئر ری ایکٹر کے ایندھن کیلئے انکی طرف سے پیش کردہ جوہری ایندھن کے تبادلے کے معاہدے کو قبول نہیں کرتا تو اسے یقین کر لینا چاہیئے کہ وہ کبھی بھی اکیلے اس ری ایکٹر کے ایندھن کو تیار کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے گا۔ یہ بات انتہائی واضح تھی کہ مغربی حکام نے یہ امید لگا رکھی تھی کہ وہ ایران میں کینسر کے 8 لاکھ 50 ہزار مریضوں کی زندگی کو یرغمال بنا کر تہران کے ایٹمی ری ایکٹر کا ایندھن ختم ہو جانے اور ریڈیو اکٹیو ادویات کی پیداوار رک جانے کے بعد ایران کو اپنے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر سکتے ہیں اور اسے جوہری ایندھن کے تبادلے کے معاہدے کو قبول کرنے اور آخرکار اسے یورینیم افزودگی کو مکمل طور پر روکنے پر راضی کر سکتے ہیں۔
حتی استنبول میں انجام پانے والے مذاکرات میں بھی، جو ایران اور مغربی ممالک کے درمیان انجام پانے والے آخری مذاکرات تھے، ویانا گروپ کے اراکین نے انتہائی تکبر آمیز انداز میں اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ ایران تہرن کے نیوکلیئر ری ایکٹر کا ایندھن تیار کرنے پر قادر نہیں ہے، ایران پر زور دیا کہ وہ تبادلے کیلئے ملک سے باہر بھیجے جانے والے کم افزودہ ایندھن کی مقدار کو 1200 کلوگرام سے بڑھا کر 1800 کلوگرام تک لے آئے۔ ان تمام مطالبات کے سامنے ایران کا جواب یہ تھا کہ وہ کوئی غیرمنصفانہ مطالبہ قبول نہیں کرے گا اور اگر مغربی ممالک ایران کی ثابت قدمی اور استقامت کو آزمانا چاہتے ہیں تو وہ ایسا کر کے دیکھ لیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ ریڈیو اکٹیو ادویات جو ایران اپنے تہران کے جوہری ری ایکٹر میں تیار کر رہا ہے انکی قیمت بعض اوقات بیرونی ممالک میں تیار کی جانے والی مشابہ ادویات سے 10 گنا کم تر ہوتی ہے لہذا مستقبل قریب میں قوی امکان موجود ہے کہ ایران خطے میں اس قسم کی ادویات کے ایک بڑے اکسپورٹر میں تبدیل ہو سکتا ہے۔
نئی نسل کی سنٹری فیوج مشینوں کی تیاری بھی ایک انتہائی اہم اور اسٹریٹجک خبر ہے۔ ایران نے یہ نئی نسل کے سنٹری فیوجز ایسے حالات میں تیار کئے ہیں جب وہ ان مشینوں میں استعمال ہونے والے حصوں کی درآمد پر سخت قسم کی پابندیوں سے دوچار ہے۔ یہ پابندیاں اس قدر سخت ہیں کہ حتی مختلف ممالک کے درمیان پرامن مقاصد کی خاطر تعاون کو فروغ دینے والی سہولیات کی فراہمی سے متعلق بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے منشور میں مندرج تمام اسٹینڈرڈز کے بھی خلاف ہیں۔ ان سب مسائل کے باوجود ایران ایسی سنٹری فیوج مشین ڈیزائن کرنے اور بڑی تعداد میں انہیں پروڈیوس کرنے میں کامیاب ہوا ہے جن میں مکمل طور پر مقامی ٹیکنولوجی استعمال کی گئی ہے اور وہ پارٹس اور ڈیزائن کے اعتبار سے فارن مشینوں سے بالکل مختلف ہیں۔ سادہ الفاظ میں اس عظیم تکنیکی کامیابی کے حصول کو یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ اولا ایران کی یورینیم افزودہ کرنے والی ایٹمی تنصیبات کی پیداوار اور کارکردگی میں اسی قدر اضافہ ہوتا چلا جائے گا جس قدر پرانی سنٹری فیوج مشینوں کی جگہ نئی مشینیں نصب کر دی جائیں گی اور دوما ایران کی ایٹمی تنصیبات کا حجم کم از کم تین گنا کم ہو جائے گا، سوما یہ کہ سنٹری فیوج مشینوں کی کارکردگی میں اضافے کے باعث افزودہ یورینیم کی پیداوار میں بھی قابل ذکر اضافہ دیکھنے میں آئے گا اور فضلہ (Waste Products) کی مقدار میں بھی کمی آئے گی۔ لہذا ایران کم مدت میں زیادہ اچھی کوالٹی والا اور زیادہ مقدار میں پروڈکٹ تیار کر سکے گا۔
واضح ہے کہ ایران کی جوہری تنصیبات میں ایک ہی وقت پیدا ہونے والی ان تمام تبدیلیوں کا مطلب ایک وسیع تر انقلاب ہی ہو سکتا ہے۔ وہ جوہری تنصیبات جنکے بارے میں مغربی حکام اور ان سے وابستہ مفکرین کا دعوا تھا کہ انکی کارکردگی روز بروز کم ہوتی جا رہی ہے اور وہ اسٹاکس نٹ سے مربوط خیالی داستانیں اور افسانے سنا کر ایران کی جوہری تنصیبات کی فعالیت کم ہونے کے مدعی تھے اس وقت ایسی عظیم کامیابی کی شاہد ہیں جو بہت جلد ناقابل واپسی کے مرحلے کو بھی عبور کر کے مستحکم اور محفوظ مرحلے میں داخل ہو جائے گی۔
اور اب ایران کی جانب سے یورپ کو خام تیل کی فراہمی روکنے پر مبنی خبر کا جائزہ لیتے ہیں۔ ایران کی جانب سے یورپ کو تیل کی فراہمی روک دینا ایک انتہائی اہم موضوع ہے۔ پہلے دن سے ہی جب صہیونیستوں نے ایران سے خام تیل کی خریداری کو روکنے کا آئیڈیا یورپ اور امریکہ کی گود میں ڈالا تو وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ اس طرح سے ایران بہت جلد ایسی صورتحال سے دوچار ہو جائے گا کہ اپنے ملک اور سیاسی نظام کی بقا اور اپنا جوہری پروگرام جاری رکھنے میں سے کسی ایک آپشن کو چننے پر مجبور ہو جائے گا۔ اسی طرح امریکی اور یورپی یہ سوچ رہے تھے کہ ایران کو 6 ماہ کی مہلت دینے سے وہ ایک تو ایران کے اندر اعتراضات اور دباو کو ایجاد کر سکیں گے اور دوسرا ایران کے خلاف پابندیوں کے مرحلہ وار اور بتدریج اجراء کے ذریعے تیل کی بین الاقوامی مارکیٹ کو ممکنہ صدمے سے بچایا جا سکے گا، تیسرا یہ کہ اپنے لئے خام تیل کے مناسب متبادل تلاش کر سکیں گے۔ درحقیقت مغربی ممالک یہ تصور کر رہے تھے کہ کام تمام ہو چکا ہے اور ایران اب مزید کوئی راہ حل نہیں نکال سکتا یا کوئی مناسب ردعمل نہیں دکھا سکے گا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ چیز جسکا امریکی اور یورپی تصور بھی نہیں کر سکتے تھے یہ تھی کہ ایران خود ہی یورپی ممالک کو خام تیل کی ترسیل بند کرنے کا فیصلہ اختیار کر لے اور یورپ کو جسکا نحیف بدن معاشی بحران تلے کچلا جا رہا ہے، جو شدید سردی کی لپیٹ میں ہے اور خام تیل کی خریداری کیلئے کوئی مناسب متبادل بھی تلاش نہیں کر پایا، ایک ایسی بے سابقہ دشوار صورتحال کا شکار کر دے جسکی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ موجود حالات میں ایران کا یہ فیصلہ یقینا ایک تاریخی فیصلہ ہے۔ ایسے وقت جب مغربی دنیا اس کوشش میں مصروف تھی کہ ایران پر اپنا ٹائم ٹیبل تھونپ کر اپنی مرضی کی فضا قائم کر دے ایران اس کھیل کے اصلی ماسٹر مائنڈ کے طور پر ابھر کر سامنے آتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
ایران نے اپنا آخری قدم یعنی کیتھرائن اشتون کو خط کا ارسال بھی انتہائی مناسب وقت پر اٹھایا ہے۔ ایران نے یہ خط مغربی دنیا کے سامنے ایک عرصے تک طاقت کا بھرپور مظاہرہ کرنے کے بعد ارسال کیا ہے۔ ایسے وقت جب امریکہ اور یورپ نے ایران کے حساب کتاب کو اپنا ہدف بنا رکھا تھا ایران نے بھی انکے حساب کتاب کو اپنا ہدف بنایا ہے۔ ایران کی جانب سے ٹھیک اسی وقت جب وہ تہران کے نیوکلیئر ری ایکٹر کا ایندھن تیار کرنے میں کامیابی سے ہمکنار ہو چکا ہے یورپی ممالک کو مذاکرات شروع کرنے کی پیشکش کا مطلب یہ ہے کہ مذاکرات کا آغاز اسی نکتے سے ہونا ممکن نہیں جہاں وہ استنبول میں ختم ہوئے تھے۔ اب جبکہ نئی نسل کی سنٹری فیوج مشینیں اور فردو کی ایٹمی تنصیبات بھرپور فعالیت انجام دے رہی ہیں، مذاکرات کے آغاز کا معنا مغربی ممالک کی جانب سے ایران کے خلاف دھمکیوں کی زبان استعمال کرنے کی صلاحیت میں قابل ذکر کمی کے مترادف ہو گا۔ اسکے علاوہ ایران پر دباو اور پابندیوں کی شدت میں اضافے کی مخالفت کرنے والے ممالک کو بھی یہ پیغام ملا ہے کہ وہ اپنی مخالفت پر سختی سے ڈٹے رہیں کیونکہ پابندیاں اور دباو نہ فقط ایران کو اپنا جوہری پروگرام رول بیک کرنے پر مجبور نہیں کر سکتیں بلکہ ایران کے ایٹمی پروگرام میں مزید وسعت کا باعث بن سکتا ہے اور اس طرح مستقبل قریب میں ان کیلئے زیادہ بڑے سرپرائز کا سبب بن سکتا ہے۔ جو نکتہ سب سے زیادہ اہم ہے وہ یہ کہ ایسے وقت مذاکرات کا شروع ہونا جب ایران یورپ کو خام تیل کی ترسیل بند کرنے میں پہل کر چکا ہے کیتھرین اشتون کے ہاتھ سے ایک اہم ہتھکنڈہ نکل جانے کا باعث بنے گا۔
یقینا کیتھرین اشتون اور 5+1 گروپ کے دوسرے ممبرز یہ ارادہ رکھتے تھے کہ آنے والے مذاکرات میں ایران کو اس طرح سے بلیک میل کریں کہ یا تو انکے مطالبات کو مان لے یا پھر جون 2012 میں برگزار ہونے والے یورپی یونین کے اجلاس میں اپنے خلاف خام تیل کی فروخت پر پابندیوں کے اجراء ہونے کیلئے تیار ہو جائے۔ لیکن اب مس کیتھراین اشتون ایران کو دھمکانے کیلئے کیا ہتھکنڈہ استعمال کریں گی؟
15 فروری کو انجام پانے والے ان تمام واقعات نے مغربی ممالک کو جس اسٹریٹجک ڈیڈلاک اور اسکے نتیجے میں جس مذاکراتی ڈیزاسٹر سے روبرو کیا ہے اس کا بھرپور جائزہ لینے کیلئے اس سے کہیں زیادہ تفصیلی بحث کی ضرورت ہے لیکن یہ جملہ اس ساری بحث کا لب لباب ثابت ہو سکتا ہے کہ:
ایران کے حساب کتاب کو تبدیل کرنے کی دشمنانہ کوششوں کا نتیجہ اسکے سوا کچھ نہیں نکلے گا کہ مغربی دنیا انتہائی ذلت آمیز انداز میں اپنی ہی ریڈ لائن کو مزید پیچھے لانے پر مجبور ہو جائے گی۔
خبر کا کوڈ : 138209
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش