0
Thursday 16 Feb 2012 12:20

چراغِ مصطفوی یا شرارِ بولہبی

چراغِ مصطفوی یا شرارِ بولہبی
تحریر: سید قمر رضوی 

دنیا کے تمام مروجہ و متروکہ مذاہب میں تحصیلِ علم کی ایک خاص حیثیت رہی ہے مگر کسی مذہب میں اسے واجب کا درجہ نہ ملا۔ یہ اسلام کا ہی حسن ہے کہ اسکے مبلغین و پیشوایان نے ہر مرد و زن پر حصولِ علم واجب قرار دیا، بلکہ اس واجب پر اس قدر زور دیا کہ گہوارے سے گور تک اسی عبادت میں مشغول رہنے کا حکم دے دیا۔ 

روایات میں ہے کہ کسی صحابی نے رسول اکرم گرامی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال پوچھا کہ اگر کسی پر نزع کا عالم طاری ہو، اسکے ہواس بھی قائم ہوں اور لواحقین کو یہ یقین ہو کہ اب اسکی موت یقینی ہے، تو ایسی صورتِحال میں موجود لوگوں کو کیا کرنا چاہیے۔؟ رسول گرامی ص نے ارشاد فرمایا کہ اس وقت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مرنے والے سے علم و حکمت کی کوئی بات کر لی جائے۔
 
خدا کا بہت فضل و احسان ہے کہ اس نے ہمیں اس دین کے پیروکار گھروں میں پیدا کیا کہ جسکے اعلانِ ظہور کا دیباچہ ہی علم و قلم قرار پایا۔ وہ دین جسکی بنیاد عقل و فہم کے ستونوں پر رکھی گئی، تفکر و تدبر اسکے اجزائے ترکیبی ہوئے اور محمد مصطفٰے ص جیسے عقلِ کل مبلغ میسر آئے۔ سید المرسلین، شافع محشر، افضل البشر، خاتم النبییین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بے شمار اوصاف میں سے کسی وصف پر کبھی فخر نہ فرمایا صرف اسکے کہ ایک مرتبہ نازاں ہو کر فرمایا: "انا مدینۃ العلم، وعلی بابھا۔" 

ظاہراً یہ محض پانچ الفاظ پر مشتمل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک سے جاری ہونے والے لاکھوں کلمات میں سے ایک کلمہ ہے، مگر دیگر کلمات کی مانند اس ایک جملے میں بھی علم و حکمت کے جواہر پوشیدہ ہیں، جو اہل فکر کے لئے دعوت دیدار رکھتے ہیں۔ دنیا کا یہ قاعدہ ہے کہ کسی شے کی وسعت کا اندازہ لگانا ہو تو سمندر کو مشابہ قرار دیا جاتا ہے۔ جبکہ نبیء اکرم نے اپنی ذات کو ایک شہر سے تشبیہہ دی، جسکا مطلب یہ ہے کہ سمندر میں محض پانی، چند جانور اور کچھ جواہرات ہی میسر آتے ہیں، جبکہ ایک شہر میں ہر وہ چیز دستیاب ہوتی ہے جسکا تصور انسانی عقل میں اپنی ضرورت پوری کرنے کے لئے آسکتا ہو۔
 
ساتھ ہی سرکار ص نے دروازے کی اہمیت بھی آشکار کر دی کہ شہر میں داخلے کا واحد وسیلہ دروازہ ہی ہے، سو تا قیامت جو کوئی بھی علم کا متلاشی ہو، وہ مجھ تک آئے، لیکن علی کے وسیلے سے۔ جبکہ مولائے متقیان امیر المؤمنین جناب علی ابن ابی طالب علیہ السلام رسول اکرم ص سے حاصل کئے گئے علم کو پرندے کا اپنے بچے کو دانہ دنکا دینے سے تشبیہہ دیتے ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی اعلان فرماتے نظر آتے ہیں کہ مجھ سے پوچھ لو قبل اس کے کہ میں تم میں نہ رہوں۔ میں زمین سے زیادہ آسمانوں کے راستوں سے واقف ہوں۔ یہی وہ علم ہے جو انبیاء و مرسلین کی وراثت تھا، جسے اس خانوادے نے اپنا ترکہ ہونے پر فخر کیا۔ چنانچہ ہم قدم قدم پر خانوادہء اہلبیت ع کو اس وراثت کا وارث ہونے پر خدا کا مشکور ہوتا دیکھتے ہیں۔ 

باب العلم جناب علی ابن ابی طالب علیہ السلام جہاں قدم قدم پر علم و حکمت کی تعلیم دیتے نظر آتے ہیں، وہیں ایک مقام پر ہم سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں کہ "علم و حکمت مؤمن کی گمشدہ میراث ہے، جہاں سے بھی ملے لے لو "یعنی مولا ع ہمیں اشارہ فرما رہے ہیں کہ علم اور مؤمن کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ جو عالم نہیں، وہ مؤمن نہیں۔ مگر یہ بھی عام مشاہدے کی بات ہے کہ ظاہراً عالم نظر آنے والے کچھ حضرات نہ تو مؤمن ہیں اور نہ ہی ظاہراً مؤمن نظر آنے ولے عالم۔ ان دو مظاہر میں تفریق ایک غیر فطری امر ہے، اسی لئے معمولی سی سطحی چھان بین بھی ایسے افراد کو بےنقاب کر دیتی ہے اور انکا جہل و نفاق ظاہر ہو جاتا ہے۔
 
ایسے ہی ایک اور مقام پر امام علی ع نے جہل سے اپنی نفرت کا اظہار کچھ انداز سے فرمایا کہ "میں جاہلوں کا سب سے بڑا دشمن ہوں۔" جہاں یہ امام ع کے لئے مقامِ نفرین ہے، وہیں یہ آفاقی کلمات ہمارے اپنے لئے موقعِ فکر ہیں کہ ہم متمسکینِ باب العلم اپنے گریبانوں میں جھانکیں اور جائزہ لیں کہ ہم طالبانِ علم ہیں یا جاہلانِ کل۔ 

آج اکیسویں صدی ہے، جہاں انسان ظاہری طور پر اتنی ترقی کر چکا ہے کہ دنیا کو سمیٹ کر بچوں کے ہاتھوں میں کھلونوں کی صورت میں تھما چکا ہے۔ یہ سب یقیناً علم کے بل بوتے پر تہہ در تہہ تحقیق کے نتیجے میں عمل میں آیا ہے۔ مغرب نے علم اور تحقیق کے میدان میں ایسے ایسے سنگ ہائے میل طے کئے کہ آج کے انسان کے لئے بے بہا آسانیاں پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ بے شمار مسائل بھی حل کر ڈالے۔
 
ہم اپنی آج کی زندگی کا موازنہ اگر تیس سال قبل کی زندگی سے بھی کریں تو اسی علم کے ثمرات کے نتیجے میں زندگی کے ہر گوشے میں واضح فرق نظر آئے گا۔ مغرب کی جانب سے پھیلنے والی تحقیق، تعلیم اور تدریس کے اثرات کو ہم نے بھی خوب قبول کیا اور اب جب ہم اپنے اطراف و اکناف میں نظر کریں تو گلی گلی کھلے ہوئے تعلیمی ادارے علم بانٹتے نظر آتے ہیں۔ یہ ادارے اولاً ابتدائی دور کی تعلیم دیتے نظر آتے تھے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کالج اور اب جامعات میں ڈھل چکے ہیں۔ اور آج عالم یہ ہے کہ ایک ایک شہر میں بیسیوں یونیورسٹیاں تھوک کے حساب سے سال میں کئی مرتبہ اعلٰی تعلیم یافتہ افراد کی کھیپ نکال رہی ہیں۔ 

کچھ اداروں پر غیر ملکی کمپنیوں کی خاص نظرِ کرم بھی ہوتی ہے، جہاں کے طلاب کو مزید اعلٰی تعلیم اور پھر انہی کمپنیوں میں غیر معمولی معاوضوں پر ملازمتوں کا انتظام بھی پہلے ہی سے کر دیا جاتا ہے۔ یہ تعلیمی ادارے تعلیم کی حد تک تو اپنے گاہکوں کو کچھ نہ کچھ دے رہے ہیں لیکن جب بات آتی ہے تربیت کی تو کوئی ایک بھی ادارہ اس ذمہ داری میں کامیاب نظر نہیں آتا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے ملک کے شہری علاقوں میں تعلیم کا تناسب تو بہت اوپر تک جا چکا ہے، لیکن ساتھ ہی معاشرتی و اخلاقی ابتری بھی اسی رفتار سے محوِ پرواز ہے۔ پڑھے لکھے معاشرے میں انسانی و اخلاقی اقدار کا فقدان ایک خطرناک علامت اور تباہی کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ 

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ماضی کے غیر یا کم تعلیم یافتہ معاشرے میں انسانیت تو تھی، لیکن آج کے تعلیم یافتہ دور میں حیوانیت کیسے درآئی۔ یقیناً کہیں نہ کہیں خرابی ضرور موجود ہے جو اہلِ علم کو جاہل کی صورت دے رہی ہے۔ ایک معصوم بچہ کسی تعلیمی ادارے سے فارغ التحصیل ہو کر معاشرے کے لئے بوجھ کیوں بن رہا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ زندگی بانٹنے والا مسیحا، چند ٹکوں کی خاطر قصاب کا روپ دھار جاتا ہے۔ کیونکر ممکن ہے کہ اعلٰی تعلیم یافتہ اور اصلی ڈگری کے حاملان بدعنوانی میں اس حد تک آگے چلیں جائیں کہ وطنِ عزیز کے 8500 ارب روپے محض چار سال کے مختصر عرصے میں چند جیبوں کی زینت بن جائیں۔
 
اس سرجن کو کیا ہوا جسکے پیشے کا عنوان زندگی بچانا تھا اور وہ سونے کی چمک میں اتنا اندھا ہوا کہ گردوں کا بیوپاری بن گیا، یہ کیونکر ممکن ہوا کہ تعلیمی طور پر ایک اینجینیر درجنوں بیگناہ افراد کا قاتل اور پیشہ ور ڈاکو ہو۔ ایک سائنسدان کسطرح سے جعلی ادویات کے فارمولے تیار کر سکتا ہو۔ اگر ان خطوط پر سوچنا شروع کریں اور تباہی کی مثالیں ڈھونڈیں تو آج کا معاشرہ ان ناسوروں کی قید میں کاملاً جکڑا ہوا نظر آئے اور رونگٹے کھڑے کرنے کے ساتھ ساتھ روح کو بھی کپکپا دے۔ سوچنے کا مقام یہ ہے کہ انبیائے کرام کا ورثہ "علم" کیا یہ سب کچھ پیدا کر سکتا ہے؟ اگر نہیں تو تجزیہ کرنا پڑے گا کہ ہمارے پاس علم کی صورت میں چراغِ مصطفوی ہے یا شرارِ بو لہبی۔
خبر کا کوڈ : 138250
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش