0
Friday 17 Feb 2012 12:53

سہ فریقی سربراہ کانفرنس، علاقائی تعاون کی جانب مثبت قدم

سہ فریقی سربراہ کانفرنس، علاقائی تعاون کی جانب مثبت قدم
اسلام آباد میں جمعرات سے شروع ہونے والی دو روزہ پاک ایران افغانستان سربراہی کانفرنس ایک جانب خطے میں رونما ہونے والے حالات اور مستقبل کی ضرورتوں کی حامل سمجھی جا رہی ہے تو دوسری جانب تینوں ملکوں کے درمیان باہمی تعاون بڑھانے میں بھی اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ صدر آصف علی زرداری، جو ایرانی صدر محمود احمدی نژاد اور افغان صدر حامد کرزئی کے میزبان ہیں، ارد گرد کے ملکوں سے دوستانہ تعلقات اور اقتصادی تعاون بڑھانے میں خاص دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس مقصد کے لئے وہ کئی بار چین کے دورے پر گئے ہیں، ایران بھی جا چکے ہیں، وسطی ایشیائی اور خلیجی ریاستوں سے رابطے میں رہے ہیں اور بھارت اور روس سمیت کئی دوسرے ممالک سے وفود کے تبادلوں کے ذریعے مختلف شعبوں میں تعاون کے امکانات تلاش کرتے رہے ہیں۔ حال ہی میں بھارت کے وزیر تجارت پاکستان کا دورہ کر کے گئے ہیں، قبل ازیں پاکستانی وزیر خارجہ ماسکو میں اشتراک و تعاون کی کئی جہتوں پر بات کر کے آئی ہیں۔ ان سرگرمیوں کے پیچھے کارفرما فلسفہ یہی ہے کہ علاقائی سطح پر زیادہ سے زیادہ اعتماد پر مبنی اقتصادی روابط کو فروغ دیا جائے۔ 

ایرانی صدر احمدی نژاد ہمسایہ ملکوں میں باہمی ضرورتوں کے لئے رابطوں اور مشاورت کی اہمیت کے نہ صرف قائل ہیں بلکہ پاکستان، ایران اور افغانستان کے سربراہوں کے فورم کے قیام کے محرک بھی وہی ہیں۔ افغان صدر حامد کرزئی بھی اس سے پہلے پاکستان کے کئی دورے کر چکے ہیں اور تعلقات کی سردی و گرمی کے باوجود خطے کے امن و سلامتی کے لئے علاقائی ملکوں کے باہمی رابطوں کی اہمیت اجاگر کرتے رہے ہیں۔ تینوں ممالک کے سربراہوں کے درمیان ملاقاتوں کا سلسلہ اگرچہ اچھے مستقبل کی خواہشات کے ساتھ 2009ء سے جاری ہے مگر کئی معاملات میں شبہات کی موجودگی کے باعث باہمی تعاون میں اتنا اضافہ ممکن نہیں ہو سکا، جتنا ہونا چاہئے تھا۔ جبکہ افغانستان اور پاکستان میں امریکی اثرو نفوذ کی موجودگی بھی اس سہ فریقی فورم کے نتیجہ خیز ہونے میں رکاوٹ بنی رہی ہے۔ تاہم افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد پیدا ہونے والے مسائل اور خطے میں رونما ہونے والے بعض واقعات کے منظر نامہ میں مبصرین اس سربراہی اجلاس بجا طور پر غیر معمولی اہمیت دے رہے ہیں اور توقع کی جا رہی ہے کہ اس سے علاقائی امن و استحکام اور خوشحالی کی سمت پیش قدمی میں مدد ملے گی۔

سہ فریقی کانفرنس میں سرحدوں پر کئے جانے والے انتظامات، دہشت گردی کی روک تھام، منشیات کی نقل و حمل اور انسانی اسمگلنگ سمیت ان تمام امور کا جائزہ متوقع ہے جن کا تینوں ہمسایہ ملکوں سے تعلق ہے۔ جبکہ سربراہی کانفرنس کے پہلو بہ پہلو ایرانی صدر احمدی نژاد اور افغان صدر حامد کرزئی کی صدر آصف زرداری سے دو طرفہ ملاقاتیں بھی ہونگی جن میں باہمی دلچسپی کے امور کا زیر غور آنا بالکل فطری بات ہے۔ صدر احمدی نژاد سے پاکستانی قیادت کی ملاقات کا اہم موضوع توانائی کے شعبے میں تعاون ہے۔ وطن عزیز کو ایک جانب گیس اور بجلی کی شدید کمی کا سامنا ہے تو دوسری جانب اس پر واشنگٹن کی طرف سے دباؤ ہے کہ وہ ایران سے گیس حاصل نہ کرے۔ اگرچہ اسلام آباد اس دباؤ کی مزاحمت کرتا رہا ہے تاہم ایرانی صدر کی طرف سے گیس پائپ لائن منصوبے پر عملدرآمد کی واضح یقین دہانی کی خواہش ظاہر کی جائے تو یہ ایک منطقی بات ہو گی۔ 

اسی طرح افغانستان کے صدر حامد کرزئی بعض مزاحمتی گروپوں سے امن بات چیت میں پاکستان کی حمایت کے موضوع سے زیادہ دلچسپی رکھ سکتے ہیں۔ پاکستان متعدد مواقع پر ایسی مصالحتی کوششوں کی حمایت کا عزم ظاہر کر چکا ہے جو افغانستان کے اندر سے ہوں اور جن میں خود افغان عوام حصہ لیں۔ مبصرین کے اندازے کے مطابق اسلام آباد اور کابل اس مشترکہ امن کمیشن کو بحال کر سکتے ہیں جو سابق افغان صدر برہان الدین ربانی کے قتل کے بعد سے تعطل کا شکار ہے۔ ان سب باتوں کو سامنے رکھا جائے تو پاکستان، ایران اور افغانستان کے صدور کی یہ ملاقات کئی معاملات میں شبہات کے ازالے اور باہمی اعتماد میں اضافے کا ذریعہ بنے گی۔ تینوں ممالک کئی ایسے مسائل کا مشترکہ حل تلاش کر سکیں گے جو انفرادی سطح پر مشکل نظر آتے ہیں۔ 

پاکستان، ایران اور افغانستان ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ممالک ہیں اور جغرافیائی ہمسائیگی نہ بدلی جا سکتی ہے نہ آس پاس کے ملکوں کے حالات کو ایک دوسرے پر اثر انداز ہونے سے روکنا ممکن ہے۔ تینوں ممالک کے تاریخی، ثقافتی، سماجی اور مذہبی رشتوں کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ جن کی باعث کسی ایک ملک میں ابھرنے والی کسی تحریک، اندرونی انقلاب اور بیرونی یلغار سمیت ہر بڑے واقعے سے دوسرے ممالک متاثر ہوتے ہیں۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمسایہ ممالک باہمی رابطے مضبوط کر کے ایک دوسرے کے بارے میں غلط فہمیاں دور کریں کیونکہ جہاں غلط فہمیاں ہوتی ہیں وہاں باہر کی قوتوں کو فائدہ اٹھانے کا موقع ملتا ہے۔ آپس کی تجارت ، ضروری اشیاء اور ٹیکنالوجی کے تبادلے اور راہداری کی سہولتوں میں تعاون بڑھانا تینوں ملکوں کے مفاد میں ہے۔ یورپی ممالک صدیوں تک ایک دوسرے سے لڑتے رہنے کے بعد جب مشترکہ منڈی کی صورت میں منظم ہوئے تو ان کے حالات بدل گئے اور اپنے فائدے کے لئے وہ یورپی یونین کے پرچم تلے آ گئے۔ 

پاکستان، ایران اور افغانستان کے تعلقات تو تاریخی طور پر بدرجہا بہتر رہے ہیں۔ افغانستان روایتی طور پر مشرق وسطٰی اور دیگر ملکوں کے درمیان تجارت کا راستہ رہا ہے۔ جبکہ پاکستان کو مشرق اور مغرب کے درمیان رابطوں کا دروازہ کہا جاتا ہے۔ اس جغرافیائی محل وقوع سے فائدہ اٹھایا جانا چاہئے۔ ایران پاکستان کو انرجی برآمد کر سکتا ہے۔ پاکستان ٹیکسٹائل، چمڑے کا سامان، پھل اور دوسری اشیاء ایران کو دے سکتا ہے۔ افغانستان، مشرق وسطیٰ کے ملکوں سے تجارت کے لئے راہداری فراہم کر سکتا ہے۔ جبکہ خطے کے معدنی وسائل کو بروئے کار لانے کے لئے مل جل کر کام کیا جائے تو ایک بڑا مضبوط اقتصادی بلاک تشکیل پا سکتا ہے۔ خطے کے ان ملکوں کے باہمی تعلقات میں وسعت اور ہم آہنگی سے علاقے میں سیاسی استحکام اور پائیدار امن کا امکان وابستہ ہے۔ اس لئے امریکہ سمیت بیرونی قوتوں کو ان ملکوں کے باہمی تعلقات میں دخل اندازی سے گریز کرنا چاہئے تاکہ 2014ء میں بیرونی فوجوں کے انخلا کے بعد تعمیر نو اور امن و استحکام کا ایسا منظر نامہ ابھر سکے جس میں خطے کے ممالک خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو سکیں اور  عالمی برادری کے لئے بھی اس میں تشویش کا کوئی سامان نہ ہو۔
 "روزنامہ جنگ"
خبر کا کوڈ : 138443
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش