0
Tuesday 21 Feb 2012 21:51

بلوچستان پر امریکی کانگریس کی قرارداد

بلوچستان پر امریکی کانگریس کی قرارداد
تحریر: جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم 
 
انسان کی تخلیق کے بعد آہستہ آہستہ معاشرے وجود میں آتے رہے۔ ان معاشروں میں رہنے والے تمام افراد کو اللہ غفور الرحیم نے سوجھ بوجھ، فہم و فراست، عقل و دانش اور بصیرت بھی عطا کی، لیکن ایک خاص حکمت کے مطابق کسی کو کم اور کسی کو زیادہ۔ اکثریت ہم جیسے عام لوگوں کی ہے۔ لیکن کچھ اللہ کے ولی اور نیک انسان ایسے بھی ہیں جن پر اللہ کی عنایت کی وجہ سے اُن کی عام آنکھوں کے علاوہ ان کی قلبی آنکھیں بھی کھلی ہوتی ہیں جن کی بدولت وہ روحانیت کے فیلڈ میں بہت آگے چلے جاتے ہیں۔ لوگوں کے دماغوں کو بھی اللہ غفور الرحیم کم یا زیادہ بینائی عطا کرتا ہے جس سے اُن کے نور بصیرت میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ عام لوگوں سے بہت آگے دیکھ سکتے ہیں۔

 یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی Intutive سپرٹ اور بہترین حکمت عملی کی بدولت اقوام اور معاشروں کی رہنمائی کیلئے ہراول دستوں کا کام کرتے ہیں۔ باقی سب عام عقل و فہم رکھنے والے لوگوں کی ہمدردیاں اور دعائیں بھی ان خداداد صلاحیتوں کے حامل قائدین کے شامل حال رہتی ہیں۔ پاکستان کے وجود میں آنے سے پہلے اہل بصیرت ہراول دستے کی قیادت قائداعظم محمد علی جناح اور ڈاکٹر علامہ اقبال جیسے دانشوروں اور مفکروں کے ہاتھوں میں تھی۔ جس کی وجہ سے اللہ کے نام پر ایک نظریاتی مسلمان ریاست وجود میں آ گئی۔ کسی نے کیا خوب کہا کہ: ’’ہم پاکستان سے پیار اس لئے نہیں کرتے کہ یہاں زمین، پہاڑ، دریا اور جھیلیں خاص ہیں، یا یہاں کے لوگ باقی عالم اسلام سے بہتر ہیں۔ ہم پاکستان کو اس لئے چاہتے ہیں کیونکہ مدینہ طیبہ کے بعد یہ واحد مسلمان ریاست ہے جو اسلام کے نام پر قائم ہوئی‘‘۔
 
قارئین کرام، جس طرح کسی ملک کی تخلیق کے لئے دن کے وقت خواب دیکھنے والے اہل بصیرت سرفروشوں کے ہراول دستے کی ضرورت ہوتی ہے، بالکل اسی طرح قوموں کی سلامتی کو جب زبردست خطرات لاحق ہوتے ہیں تو حب الوطنی کے جذبے سے سرشار بالکل ویسے ہی مرد مجاہدوں کو سامنے آنا پڑتا ہے۔ جو اپنی بہترین حکمت عملی کے ساتھ نہ صرف ان خطرات کو ٹالتے ہیں بلکہ قوموں کی برادری میں اپنے قومی وقار کو بلند کرتے ہیں۔ ان ہراول دستوں میں نہ صرف فوجی جرنیل بلکہ اپنے اپنے پیشوں کے انمول تجربوں کے خزانوں سے مالا مال مجید نظامی صاحب جیسے صحافی فیلڈ مارشل، حسین شہید سہروردی جیسے سیاسی جرنیل، ڈاکٹر اے کیو خان اور ڈاکٹر عطا الرحمن جیسے سائنسی سپاہ سالار، کاروباری اور صنعتی دنیا کے طارق سعید جیسے قائدین اور سول سوسائٹی کے عبد الستار ایدھی جیسی سرکردہ شخصیات اپنے اندرونی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ریاست کے دفاع کیلئے میدان جنگ میں اتر آتے ہیں۔
 
1971ء میں پاکستان کو دولخت کرنے کے بعد آج پھر پاکستان کے دشمن پاکستان کو توڑنے کی بات کر رہے ہیں۔ ان میں ہندو اور یہودی لابیوں کی مدد سے امریکہ پیش پیش ہے۔ افغانستان میں شکست کھانے کے بعد اب امریکہ اپنی قوم اور دنیا کی توجہ اپنی ناکامیوں سے ہٹا کر پاکستان کی طرف کرنا چاہتا ہے۔ امریکی کانگرس کی کمیٹی برائے خارجہ اُمور نے پہلے نہایت بے شرمی کے ساتھ بلوچستان کے نام نہاد مسئلے پر بحث کی اور پھر ایک قرارداد پیش کر دی کہ بلوچستان کو آزاد ہونا چاہیے اور عظیم بلوچستان میں پاکستان کے علاوہ ایران اور افغانستان کے علاقے بھی شامل ہونے چاہیے۔ ریمنڈ ڈیوس، ایبٹ آباد اور سلالہ کے بعد پاکستان کی سالمیت پر اس شرمناک حملے کا مقابلہ کرنے کیلئے آج ہمارے قائدین کی صفوں میں بظاہر قائداعظم یا ڈاکٹر علامہ اقبال تو نظر نہیں آ رہے، لیکن قوم کی صفوں میں اور ہر طبقہ فکر میں ملکی مفاد کی خاطر جان دینے والے سرفروشوں کی کمی نہیں۔ وہ اب اُٹھیں اور ملکی مفاد کے تحفظ کیلئے ہراول دستہ بنائیں۔
 
امریکی حکومت اور اُن کا پاکستان میں موجود سفیر یہ کہتے ہیں کہ امریکی حکومت کا ایسی قراردادوں سے کوئی تعلق نہیں، یہ قراردادیں پہلے بھی پیش ہوتی رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر کانگریس کی یہ کمیٹیاں اتنی ہی آزاد ہیں تو پھر وہ فلسطینیوں اور کشمیریوں کے حق خودارادی اور ہندوستان اور اسرائیل کی مذمت کیلئے خود بخود قراردادیں کیوں پیش نہیں کرتیں۔؟ کیا کبھی کانگریس کی کسی کمیٹی نے امریکہ کے بے گناہ عراقیوں، افغانیوں اور پاکستانیوں کے خلاف جنگی جرائم کی قرارداد بھی کانگریس کے آگے رکھی۔؟ 

دراصل بات یہ ہے کہ پورے امریکہ پر ہنود اور اس سے بڑھ کر یہود کی مکمل گرفت ہے۔ وال اسٹریٹ جرنل، واشنگٹن پوسٹ، نیو یارک ٹائمز، سی این این اور دوسرے سارے چینل ایک خاص مقصد کیلئے حکومت کی ایما پر دوسرے ممالک پر دباؤ بڑھانے کیلئے خبریں لیک کرتے ہیں۔ دوسری قوموں کو دبانے کیلئے کانگریس کی کمیٹیوں کو بھی اشارے کئے جاتے ہیں کہ اب انہوں نے کونسا راگ الاپنا ہے۔ اب جبکہ امریکہ میں انتخابات کا سال ہے۔ افغان جنگ امریکیوں کو اخلاقی اور مالی لحاظ سے کنگال کر چکی ہے، شکست نوشتہ دیوار ہے۔ آج سے دس سال قبل اگر امریکی سالانہ ہلاکتیں 50 یا 60 تھیں تو اب وہ بڑھ کر 500 سے 600 سالانہ تک پہنچ چکی ہیں اور امریکہ کے اندرونی معاشی مسائل تاریخ کی اس بدترین سطح پر پہنچ گئے ہیں جس نے اُن کی انٹرنیشنل کریڈٹ ریٹنگ کو گراد یا ہے تو ایسی صورت میں بلوچستان جس کی اپنی نمائندہ اسمبلی موجود ہے کے حق خودارادیت کا راگ چہ معنی دار د۔ 
قارئین اس کی مختصر وجوہات حسب ذیل ہیں۔
(1) جغفرافیائی اور معدنی لحاظ سے پاکستان، ایران کے بلوچی علاقوں کو بین الاقوامی Strategists ایک گولڈن لینڈ برج کہتے ہیں، جس کے ایک طرف ایک ایسا سمندر ہے جو سٹریٹ آف ہرمز کے بالکل منہ کے سامنے ہے اور دوسری طرف پہلے سے امریکہ کے زیر تسلط مقبوضہ افغانستان ہے جس کو وسطی ایشائی ریاستوں کے تیل وگیس کے ذخیروں تک رسائی کے لئے امریکہ اور مغربی طاقتیں ایک Launching pad تصور کرتی ہیں۔
 
(2) بلوچستان پاکستان کا ایک ایسا صوبہ ہے جس کا علاقہ تو 347000 مربع کلومیٹر ہے لیکن آبادی صرف آٹھ ملین ہے۔ کم Population Density والے علاقوں کو غاصب قومیں اپنے فوجی اڈے بنانے کے لئے نہائت موزوں سمجھتی ہیں چونکہ عوامی مزاحمت کے خطرات بہت کم ہو جاتے ہیں۔ امریکہ دنیا میں قائم کئے ہوئے اپنے 800 فوجی اڈوں میں بلوچستان کو شامل کرنے کا بھی خواہاں ہے۔
 
(3) امریکہ یہ بھی نہیں چاہتا کہ گوادر کی بندرگاہ کو اس کا ابھرتا ہوا دشمن چین استعمال کرے۔ وہ بلوچستان کے ذریعہ ایران کی گیس پائپ لائن پاکستان یا ہندوستان تک پہنچانے کے خلاف ہے۔ وہ پاکستان کو توڑ کر اس کے ایٹمی اسلحہ پر بھی قبضہ کرنا چاہتا ہے چونکہ ایران اور پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کو اسرائیل اپنی سلامتی کیلئے خطرہ تصور کرتا ہے۔
 
(4) اس دیدہ دلیری اور ڈھٹائی کے ساتھ امریکہ کی کانگریس کمیٹی کی بلوچستان پر بحث کی ایک بہت اہم وجہ پاکستان میں کمزور سیاسی قیادت اور ناکارہ پارلیمنٹ ہے۔ جن کے ہاتھ میں ملک کی باگ دوڑ بھی ہے۔ 

دراصل انصاف کی بات یہ ہے کہ دس سالہ امریکہ کی جی حضوری کے بعد اگر امریکہ ہمارے ایک ایسے صوبے کیلئے حق خودارادیت کی بات کر رہا ہے جہاں صوبائی اسمبلی موجود ہے تو پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری دونوں داخلہ اور خارجہ پالیسیوں کی مکمل ناکامی ہے۔ جس کی وجہ امریکہ پر غیر دانشمندانہ blind انحصار اور بلوچ بھائیوں کے جائز سیاسی، معاشی اور سکیورٹی معاملات سے پہلو تہی ہے۔ اس کی ساری ذمہ داری پارلیمنٹ پر ہے، لیکن کچھ لوگ اسٹیبلیشمنٹ کو بھی اس کا قصور وار ٹھہراتے ہیں اور وہ یہ کہتے ہیں کہ اسٹیبلیشمنٹ نے موجودہ پاکستان کش سیاسی Status qou کو غیر ضروری تحفظ دیا، جو تاریخ کی بدترین معاشی تباہی اور ملکی سلامتی کے خلاف بیرونی مداخلت کا موجب بنے۔

ایران، پاکستان اور افغانستان کے چوٹی کے مذاکرات کے بعد اعلامیہ تو بہت حوصلہ افزا ہے، لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ان لیڈروں میں اس پر عمل کرنے کا حوصلہ اور جرات بھی ہے کہ نہیں۔ پاکستان، ایران اور سعودی عریبیہ میں اختلافات ختم کروانے میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔ ترکی کی بھی ایسے مذاکرات میں شمولیت کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے اور کرزئی کو سمجھایا جائے کہ دس سال اقتدار کے مزے لوٹنے کے بعد پوسٹ امریکہ افغانستان میں اپنے اقتدار کی بات بھول جائیں۔ افغان طالبان کے ساتھ اگر امریکہ قطر میں مذاکرات کر سکتا ہے تو اُن کے ساتھ پاکستان کے مذاکرات بھی ریاض یا اسلام آباد میں ہونے چاہئیں اور امریکہ کو بہترین سفارت کاری سے یہ باور کرانا بھی ضروری ہے کہ ایران اور افغان طالبان سے پاکستان کے بہتر تعلقات واحد سنہری پل ہے جو امریکہ کو ان دونوں کے قریب لا سکتا ہے۔
 
عوام کے حوصلے بڑھانے کیلئے تو یہ اعلامیہ خوش آئند ہے چونکہ عوام یہی چاہتی ہے، لیکن مسلم امہ میں قیادت کے فقدان کی وجہ سے اس پر عمل کرنے کی راہ بڑی ہی کٹھن ہے، جس کے لئے اخلاص سے محنت کرنا ہو گی، لیکن بلوچستان پر قبضہ کرنے کے خواب دیکھنے والوں کو یہ جان لینا چاہیے کہ اٹھارہ کروڑ مجاہدوں کے ملک پاکستان کی طرف میلی نظر سے دیکھنے والوں کی آنکھیں نکال دی جائیں گی۔ بیرونی طاقتوں کی گیڈر بھبھکیوں کے باوجود پاکستانی قوم کے حوصلے بلند ہیں اور وہ تو یہ کہتے ہیں کہ
اے پاک وطن
جو عہد کیا جان دینے کا
وہ پورا کریں گے حکمِ خدا
ہم جان والے
ہم دل والے
تیری حرمت کے ہم رکھوالے
یہ وقت گواہی دے گا
جان واری تھی
جان واریں گے
تجھے اپنے لہو سے سنواریں گے
پاکستان زندہ باد
خبر کا کوڈ : 139688
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش