0
Monday 27 Feb 2012 19:27

گذشتہ عشرے کے دوران ایران کے جوہری پروگرام کو درپیش چیلنجز پر ایک نظر

گذشتہ عشرے کے دوران ایران کے جوہری پروگرام کو درپیش چیلنجز پر ایک نظر
تحریر: مھدی محمدی
اسلام ٹائمز- ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق تنازعے کو شروع ہوئے تقریبا دس سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اگر اس عشرے کے دوران انجام پانے والے واقعات کو انتہائی مختصر اور دقیق انداز میں بیان کرنا چاہیں تو کہا جا سکتا ہے کہ اس دوران تنازعے کے دونوں فریق ایک طرح کا "خوف کا سودا" کرنے میں مصروف رہے ہیں۔ یہ اصطلاح شاید عجیب و غریب سمجھی جائے لیکن درحقیقت بہت اچھے انداز میں ایران اور مغرب کے درمیان اس اسٹریٹجک تنازعے کی نوعیت کو بیان کرتی ہے۔
خوف کے سودے سے ہماری مراد یہ ہے کہ اس تنازعے کی اندرونی ڈائنامکس عملی طور پر سوائے "ایک فریق کا دوسرے فریق پر اپنی دھونس جمانے اور اس کے اندر خوف پیدا کرنے کی صلاحیت" کے کسی قاعدے اور قانون کی پیروی نہیں کر رہی تھی۔ بندہ حقیر جو 2002 سے لے کر اب تک اس تنازعے پر گہری نظر رکھے ہوا ہوں، اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اس تنازعے کا تکنیکی اور قانونی پہلو اس قدر کمزور ہے کہ اسے مطرح کرنا بھی ممکن نہیں اور مغربی ممالک کی نظر میں اصل مسئلہ یہ ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام اور اٹامک ایران کا ظہور خطے اور دنیا میں طاقت کے توازن کو اس طرح سے ہلا کر رکھ دے گا کہ اسکے بعد خطے میں مغربی قوتوں کی جیوپولیٹکل اور اسٹریٹجک برتری بے معنا ہو کر رہ جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ دس سالوں میں وہ فریق توازن کو اپنے حق میں تبدیل کرنے میں کامیاب رہا ہے جو مقتدرانہ انداز میں مخالف فریق سے بات کرنے کے قابل رہا ہے۔ اگر اس تنازعے میں کسی فریق نے کوئی کامیابی حاصل کی ہے تو وہ صرف دوسرے فریق (جو ہمیشہ مغربی ممالک ہی رہے ہیں) کے خوفزدہ ہو جانے سے ہی ممکن ہوئی ہے اور قانون اور لاء کی منطق ہر گز اس توازن کی تبدیلی پر اثرانداز نہیں ہوئی ہے۔
آج دس سال بعد جس چیز کو اس تنازعے کے عمل کے طور پر مطرح کیا جا سکتا ہے وہ کئی اہم پہلو ہیں جن پر ایران کے اٹامک انرجی کمیشن کے اہلکاران کی قائد انقلاب اسلامی ایران آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے حالیہ ملاقات کی مناسبت سے مختصر نظر ڈالتے ہیں۔
پہلا اہم نکتہ یہ ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام کے تنازعہ کی صورت گذشتہ دس سال کے دوران مکمل طور پر تبدیل ہو چکی ہے۔ آغاز میں صورتحال یہ تھی کہ ایران پر دباو ڈالا جا رہا تھا کہ وہ اپنے جوہری پروگرام کے حوالے سے دنیا کو اعتماد میں لے۔ اعتماد میں لینے کا مطلب بھی یہ تھا کہ ایران بتدریج اپنے تمام ایٹمی پروگرام خاص طور پر یورینیم کی افزودگی کو مکمل طور پر رول بیک کرتے ہوئے بند کر دے۔ یہ صورتحال اب بالکل ختم ہو چکی ہے۔ ایک انتہائی اہم، پیچیدہ اور لمبے پروسس اور بہت بڑے چیلنج کے بعد یہ تنازعہ جدید نوعیت اختیار کر گیا۔ آج جب امریکی حکام ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں بات کرتے ہیں تو وہ یہ دقیانوسی تصور اپنے ذہن سے نکال چکے ہیں کہ ایران کو کسی وقت کسی طریقے سے اس بات پر راضی کیا جا سکتا ہے کہ وہ یورینیم کی انرچمنٹ کے عمل کو بند کر دے۔ اس وقت امریکی کی ساری پریشانی یہ ہے کہ کیسے ممکن ہے ایران ایٹمی طاقت کی حد تک نہ پہنچ پائے؟ اور اگر اس حد تک پہنچ بھی جائے تو کیسے اسے اس حد سے خارج کیا جائے؟ اور اگر اس حد سے خارج بھی نہ کر پائے تو پھر اسے کیسے کنٹرول کیا جائے؟
امریکہ درحقیقت اس وقت اس کوشش میں مصروف ہے کہ جوہری پروگرام کے حوالے سے ایران کی اسٹریٹجک پالیسی کو کنٹرول کر سکے اور وہ اس بات سے بخوبی آگاہ ہو چکا ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام کو روکنا اب ممکن نہیں رہا۔ امریکہ کے اسٹریٹجک حلقوں میں آج کل جو بات مشہور ہو چکی ہے یہ ہے کہ امریکہ جان چکا ہے کہ ایران کا ایٹمی پروگرام اب رک نہیں سکتا لہذا یہ فیصلہ کر چکا ہے کہ ماضی کی بجائے مستقبل کے بارے میں اور تاریخ کی بجائے اہداف کے بارے میں گفتگو کرے۔ صہیونیست بھی ذرا مختلف انداز میں اسی نتیجے پر پہنچ چکے ہیں۔ اسرائیلی ماضی میں اور اب بھی اعلانیہ طور پر انتہائی غصے اور کینے سے یہ کہتے ہوئے نظر آتے تھے کہ ایران کو کسی قیمت پر یہ اجازت نہیں دینے چاہئے کہ وہ ایٹمی طاقت بن کر سامنے آئے لیکن حالیہ دنوں میں وہ صرف یہ کہتے ہوئے ہیں نظر آتے ہیں کہ ایران کا مسئلہ ایک عالمی مسئلہ ہے۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل یہ اعتراف کر چکا ہے کہ وہ اکیلے نہ ایران کا مقابلہ کرنے کی طاقت رکھتا ہے اور نہ ہی اس سے مقابلہ کرنا چاہتا ہے۔ اس سے زیادہ اہم نکتہ یہ ہے کہ صہیونیست ایران کو ایٹمی طاقت بننے سے روکنے پر زور دینے کی بجائے صرف یہ کہتے ہوئے نظر آ رہے ہیں کہ ایران کو اجازت نہیں دینی چاہئے کہ وہ حفاظتی زون میں داخل ہو یعنی ایسی سطح پر پہنچ جائے کہ نہ اسے روکا جا سکے اور نہ ہی اس پر کاری ضرب لگانا ممکن ہو۔
اس نکتے کی جانب توجہ کرنا انتہائی اہم ہے کہ اسرائیل اور امریکہ کی اسٹریٹجک پالیسی میں یہ تبدیلیاں خوش آمد گویی، مذاکرات یا منت سماجت کے ذریعے حاصل نہیں ہوئیں۔ مغربی ممالک نے ایران کو ایسی سطح پر پہنچنے سے جہاں سے وہ عالمی سیاست پر اثرانداز ہو سکے روکنے کیلئے پورا زور لگایا ہے اور جب وہ اپنی ان کوششوں میں ناکامی کا شکار ہوئے ہیں اور انہیں یقین حاصل ہو گیا ہے کہ ایران کو اپنا راستہ جاری رکھنے سے روکنا ممکن نہیں تو انہوں نے مجبوری میں خود کو نئی صورتحال سے مطابقت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
دوسرا اہم نکتہ اس پیش بینی اور تجزیے سے متعلق ہے جو مغربی ممالک ایران کا ایٹمی طاقت میں تبدیل ہو جانے کے نتیجے میں تصور کئے ہوئے ہیں۔ اگر انکے گذشتہ موقف پر نظر ڈالی جائے تو وہ ہمیشہ سے یہ دعوی کرتے آئے ہیں کہ ایران کا ایٹمی طاقت بن جانے کے نتائج انتہائی غیرقابل برداشت اور عالمی ڈیزاسٹر کے مترادف ہوں گے۔ اگرچہ مغربی ممالک یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے تھے کہ ایران سے انکی مراد اٹامک ایران اور جوہری ہتھیاروں سے لیس ایران ہے لیکن جیسا کہ بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی آئی اے ای اے کے سابق ڈائریکٹر ہانس بلیکس اور امریکہ کی قومی سلامتی کونسل کی سابق رکن ہیلری منلورت نے کہا ہے امریکہ کا ایران کے ساتھ مسئلہ اسکا ایٹمی پروگرام نہیں بلکہ خود ایران اور اسکی امریکہ مخالف پالیسیاں ہیں۔ لہذا اگر ایران کے جوہری پروگرام کا تنازعہ حل بھی ہو جائے امریکہ کوئی اور بہانہ تلاش کرے گا اور ایران کے مسئلے کو ٹھنڈا نہیں پڑنے دے گا۔
یورپی ممالک گذشتہ ایک عشرے سے یہ دعوی کر رہے ہیں کہ ایران کا ایٹمی طاقت بن جانے کے کم از کم 3 ایسے نتائج برآمد ہو سکتے ہیں جنہیں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
1. خطے میں اسلحہ کی دوڑ شروع ہو جائے گی اور خطے کے دوسرے ممالک بھی جوہری ہتھیاروں کی تیاری میں لگ جائیں گے،
2. این پی ٹی اپنے خاتمے کے قریب ہو جائے گا، اور
3. ایران ایٹمی طاقت بن کر خطے میں موجود اسلامی مزاحمت کی تحریکوں کو اپنی حمایت کی چھتری تلے لے آئے گا اور اس طرح اسرائیل کے ساتھ ساز باز کرنے والی قوتوں کیلئے خطہ مکمل طور پر غیرمحفوظ ہو جائے گا۔
پہلے دعوے کے بارے میں اب انکی جانب سے ماضی کی طرح شدت باقی نہیں رہی۔ اس بارے میں سب سے زیادہ دلچسپ ردعمل سعودی عرب کی جانب سے سامنے آیا ہے جس نے حال ہی میں کہا ہے کہ اگر ایران جوہری ہتھیار بنائے گا تو سعودی عرب بھی ایٹمی ہتھیار خرید لے گا! درحقیقت اکثر سیاسی تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ اولا ایران جوہری ہتھیار نہیں بنائے گا اور دوما ایران کا ایٹمی طاقت بن جانے سے کبھی بھی خطے میں اسلحہ کی دوڑ شروع ہونے کا کوئی امکان موجود نہیں کیونکہ اگر ایسا ہونا ہوتا تو مغربی طاقتوں کی جانب سے اسرائیل کو ایٹمی ہتھیاروں سے لیس کرنے یا امریکہ کی زیر نگرانی پاکستان کی جانب سے ایٹم بم بنانے کے بعد یہ دوڑ شروع ہو چکی ہوتی۔
دوسرا دعوی درحقیقت ایک کھوکھلا نعرہ ہے۔ مغرب کا مسئلہ یہ ہر گز نہیں کہ وہ این پی ٹی کے غیرموثر یا اسکی کارکردگی کم ہونے کے بارے میں پریشان ہو کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو وہ تھوڑی توجہ اسرائیل پر دیتے۔ بلکہ مغربی ممالک کا اصلی مسئلہ یہ ہے کہ جاپان، کوریا اور امریکہ جیسے ایٹمی طاقت بننے والے کلاسیکل ماڈلز کے ساتھ ساتھ ایک منفرد ماڈل ایران کے نام سے ابھر کر سامنے آ جائے جو گذشتہ ماڈلز میں سے کسی ایک کے ساتھ بھی انطباق پذیر نہیں ہے۔ لہذا خود بخود ایک ایسے ماڈل میں تبدیل ہو جائے جسے دوسرے ممالک بھی اپنانے کی کوشش کریں اور این پی ٹی کے قوانین کو توڑے بغیر اور امریکہ کی کاسہ لیسی کئے بغیر ایٹمی طاقت میں تبدیل ہو جائیں۔
اپنی ساری بحث کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے ہم کہیں گے کہ مغرب ہر گز ایران کا ایٹمی طاقت بن جانے کے نتیجے میں ظاہر ہونے والے سیکورٹی یا فوجی اثرات کی بابت پریشان نہیں بلکہ اسکی پریشانی کا اصل سبب یہ ہے کہ اٹامک ایران مشرق وسطی کی جیوپولیٹیکس کو اس طرح سے ہلا کر رکھ دے گا کہ ایران کو خطے کی سب سے بڑی طاقت کے طور پر قبول کرنے کے علاوہ انکے پاس کوئی چارہ نہیں بچے گا۔ وہ چیز جو خاص طور پر اسرائیلی حکام کیلئے سب سے زیادہ پریشان کن ہے ایران کے جوہری پروگرام کی روزافزون ترقی کے ساتھ ساتھ خطے میں ایران کی سیاسی برتری ہے جو اسلامی بیداری کی لہر جنم لینے کے باعث وجود میں آئی ہے۔ اسرائیلی یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ خطے میں عربی بہار نے پہلے ہی انکی سلامتی کو شدید خطرات سے دوچار کر دیا ہے اور اب اگر ایران بھی ایک ایٹمی طاقت کے طور پر اس متلاطم خطے میں ظاہر ہوتا ہے تو پھر اس مغربی آرڈر کا کیا بنے گا جسکے نفاذ کیلئے امریکیوں نے گذشتہ 50 سال سے خود کو ہلکان کر رکھا ہے؟ اس نظام کی تبدیلی مغربی قوتوں کی سوچ پر بھی اثرانداز ہو گی اور زیادہ عرصہ نہیں لگے گا کہ مسئلہ فلسطین کیلئے انکا راہ حل بھی تبدیل ہو جائے گا۔ یہ وہ سبق ہے جو ایران نے گذشتہ 10 برس میں اپنے ایٹمی پروگرام کو درپیش چیلنجز سے سیکھا ہے اور یقینا اسکے نتائج کو دیکھنے کیلئے بھی بے صبری کا مظاہرہ نہیں کرے گا۔
اگر آپ نے صحیح راستے کا انتخاب کیا ہے تو یقینا اپنے ہدف تک بھی پہنچ پائیں گے۔
خبر کا کوڈ : 140185
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش