0
Thursday 29 Oct 2009 13:10

یمن کی خانہ جنگی،سعودی عرب امریکہ و اسرائیل کی سازش

یمن کی خانہ جنگی،سعودی عرب امریکہ و اسرائیل کی سازش
علی عباس رضوی
یمن کے شمالی صوبوں صعدہ اور عمران میں شیعہ مسلمانوں کے خلاف یمنی فوج کی کاروائیوں کے نتیجے میں اب تک لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہيں اور حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے پناہ گزینوں کے امور میں اقوام متحدہ کا ادارہ این ایچ سی آر بار بار یمنی حکومت سے درخواست کر رہا ہے کہ وہ اس علاقے میں اپنی فوجی کاروائی فوری طور پر بند کر دے ۔ الحوثی گروہ کے خلاف یمنی فوج کی اس کاروائی میں سعودی عرب کی حکومت بھی پوری طرح سے یمنی حکومت اور فوج کا ساتھ دے رہی ہے۔ چنانچہ شیعہ دشمنی میں سعودی عرب کی حکومت اس قدر آگے بڑھ گئی ہے کہ وہ اب یمن کے اقتدار اعلی اور ارضی سالمیت کی بھی پرواہ نہيں کر رہی ہے۔سعودی عرب کے جنگی طیارے اب تک کئی بار شمالی یمن میں الحوثی گروہ کے ٹھکانوں پر بمباری کر کے بہت سے بے گناہ شیعہ مسلمانوں کو خاک و خون میں غلطاں کر چکے ہيں ۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ یمن کے الحوثی گروہ کے خلاف سعودی عرب کی حکومت کے اقدامات کے پیچھے کئی محرکات کارفرما ہيں ۔
یمن کے شمالی علاقوں میں الحوثي گروہ ایک عرصے سے پرامن طریقے سے اپنے شہری حقوق کا مطالبہ کر رہا ہے اس کا کہنا ہے کہ یمن کے صوبہ صعدہ اور عمران کے شہریوں کو بھی اسی طرح کے شہری حقوق ملنے چاہئیں جس طرح یمن کے ديگر علاقوں کے شہریوں کو حاصل ہيں شمالی علاقوں کے شہریوں کا کہنا ہے کہ وہ یمن کے ساتھ ہی رہنا چاہتے ہيں وہ یمن کو ہی اپنا ملک و وطن سمجھتے ہيں اور ان کے اندر علیحدگی پسندی کا کسی بھی طرح کا کوئی جذبہ نہيں پایا جاتا۔ مگر اس کے بعد بھی یمن کی حکومت الحوثي تحریک کے مطالبے کو ماننے کے بجائے بندوقوں اور گولیوں سے اس کا جواب دے رہی ہے ۔ اور اس چھٹی جنگ میں اب سعودی عرب بھی بظاہر یمنی حکومت کے ساتھ ہو گیا ہے۔سعودی عرب اپنی اس مداخلت سے شمالی علاقے میں شیعہ مسلمانوں کا صفایا کرنا چاہتا ہے اور اس کے لئے وہاں اس نے وہابی،سلفی،تکفیری اور القاعدہ کے عناصر کو بڑی تعداد میں روانہ کر دیا ہے تا کہ وہ شیعوں کا قتل عام کرنے کے ساتھ ساتھ فکری اعتبار سے بھی انھیں نقصان پہنچائيں۔ دوسری طرف سعودی عرب یمن سے اپنا پرانا حساب بھی چکانا چاہتا ہے سعودی عرب اور یمن کے درمیان طویل عرصے سے سرحدی تنازعہ چلا آ رہا ہے اور جب سے جنوبی اور شمالی یمن کا الحاق ہوا ہے۔ سعودی حکام میں یمن کو حصے بخرے کرنے کی گھناؤنی فکر اور بھی پروان چڑھ گئی ہے اور اب جبکہ یمنی حکومت اور فوج کی غلط پالیسیوں اور فوجی کاروائیوں کی وجہ سے شمالی یمن اور اسی طرح جنوبی یمن کے بہت سے علاقوں کے باشندے بغاوت پر اتر آئے ہيں۔ سعودی عرب نے اپنے لئے موقع کو غنیمت سمجھا ہے اور اس نے پوری طرح سے یمن کے امور میں مداخلت شروع کر دی ہے ۔مبصرین کا کہنا ہے کہ یمن کے شمالی علاقوں میں اب جو صورت حال ہے اسے صرف خانہ جنگی کا نام نہيں دیا جاسکتا۔ اگر دیکھا جائے تو اس کی جڑیں اب کافی گہری ہو چکی ہیں ۔انیس سو چھیانوے میں صہیونی حکومت نے اریٹیریا کی فوج کی مدد سے باب المندب کے ساحل پر واقع یمن کے اسٹرٹیجک جزیروں پرقبضہ کر لیا تھا اور یوں اس نے مکالمے ریکارڈ اور سننے والے جدید ترین آلات نصب کر کے اس اہم آبی گذرگاہ پر اپنا کنٹرول کر لیا تھا۔صہیونی حکومت کے اس اقدام کا مقصد بحیرہ احمر میں ایک بڑے حصے پر اپنا کنٹرول کر لینا تھا کیونکہ مشرق وسطی پر تسلط جمانے کے لئے اس طرح کی اہم آبی گذرگاہوں پرکنٹرول کرنا ضروری تھا اور یہ وہ علاقہ تھا جس پر امریکہ کی برسوں سے نظریں جمی ہوئی تھیں ۔اس دوران یمن میں الحوثی گروہ گذشتہ کئی عشروں سے اپنے شہری حقوق کا مطالبہ کرتا چلا آ رہا ہے اور وہ وقفہ وقفہ سے صعدہ اور عمران کے شہریوں کے خلاف ہونے والے امتیازی سلوک پر احتجاج کرتا رہا ہے ان کا کہنا ہے کہ وہ ایک ایسے علاقے میں آباد ہيں جو یمن کا سب سے اہم سوق الجیشی علاقہ ہے اس کے باوجود بھی انھیں اس طرح کے حقوق بھی نہيں مل رہے جیسا کہ یمن کے ديگر علاقوں کے شہریوں کو میسر ہيں ۔یہ وہ علاقہ ہے جو یمن کی رگ حیات سمجھا جاتا ہے۔ پچھلے دنوں يہ خبر آئی تھی کہ اس علاقے کے باشندوں یعنی الحوثي قبائل نے یمن کی حکومت کو اس بات پر متنبہ کیا تھا کہ اگر اس نے صہیونی حکومت کے ساتھ سفارتی یا کسی بھی طرح کے تعلقات برقرار کرنے کی کوشش کی تو وہ اس کی ہر پیمانے پر مخالفت کريں گے اس انتباہ کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ الحوثی گروہ باب المندب تک جانے والے راستے اپنا کنٹرول کر سکتا ہے ۔ اس مخالفت کے بعد ہی صہیونی حکومت اور امریکہ نے اس گروہ سے انتقام لینے کے بہانے یمنی حکومت کو ان کے خلاف اکسایا ہے اور اس بار یمنی حکومت ہر دور سے زیادہ سخت فوجی رویہ اپنائے ہوئے ہے۔ جس میں اس کا ساتھ صہیونی حکومت،امریکہ اور سعودی عرب دے رہے ہيں ۔امریکہ کے اعلی فوجی و سول حکام کا تواتر کے ساتھ دورہ یمن، سعودی عرب کی طرف سے یمنی حکومت کے لئے ہرطر ح کی اسلحہ جاتی اور فوجی حمایت اور صعدہ کے علاقوں پرسعودی جٹ طیاروں کی بمباری نیز موساد کی علاقے میں بڑھتی ہوئی سرگرمیاں یہ تمام مسائل ہيں جن کے پیش نظرکہا جاتا ہے کہ اب یمن کی جنگ صرف خانہ جنگی کی حد تک محدود نہيں رہ گئی ہے ۔اس وقت یمن کے شمالی باشندے تین الگ الگ قوتوں کے تین الگ الگ مقاصد کے بیک وقت بھینٹ چڑھے ہوئے ہيں ۔ امریکہ اس علاقے میں اپنے اسٹرٹیجک مفادات تلاش کر رہا ہے صہیونی حکومت اس اہم آبی علاقے پر اپنا پورا کنٹرول چاہتی اور سعودی عرب کی حکومت مذہبی فتنوں کو ہوا دے کر اپنی شیعہ دشمنی کی پالیسی کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس درمیان یمن کی حکومت تو محض ان قوتوں کی آلہ کار بن کر رہ گئی ہے ۔ ورنہ باب المندب جیسے اہم اسٹریٹجک آبی علاقے پر امریکہ اور صہیونی حکومت کا تسط قائم کرانے میں سعودی عرب ان کی سب سے زیادہ خدمت کر رہا ہے۔ سعودی عرب یہ بات اچھی طرح سمجھتا ہے کہ جب تک صعدہ کے شیعہ مسلمان مضبوط رہيں گے اس وقت اس اہم علاقے پر امریکہ اور صہیونی حکومت کا کنٹرول نہيں ہو سکتا اس کے علاوہ سعودی عرب کی حکومت پورے یمن میں سلفی نظریات کی ترویج کرنے کے لئے سلفیوں کی ہر طرح سے مالی اور لاجسٹیک اور حتی سفارتی و فوجی حمایت کر رہی ہے۔ سعودی عرب کی اس کھلم کھلا مداخلت نے تمام تر انسانی حدوں کو بھی پار کر دیا ہے اور اس نے پناہ گزینوں کے امور میں اقوام متحد کے ادارے کو اپنی سرگرمیاں روکنے پر مجبور کر دیا ہے ۔گذشتہ دو تین مہینوں کے دوران جب یمنی حکومت اپنی فوجی برتری کے باوجود الحوثي گروہ پرکامیابی حاصل نہيں کر سکی۔ سعودی عرب کی حکومت نے یمنی فوج کی اسلحہ جاتی اور لاجسٹیک حمایت کی ذمہ داری سنبھال لی تا کہ یمن کے شیعہ مسلمانوں کا صفایا کیا جاسکے۔ سفارتی میدان میں بھی سعودی عرب پوری طرح سے سرگرم ہو گیا ہے تا کہ یمن کے شیعہ مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا جائے ۔سعودی عرب کے محکمہ انٹلیجنس کے سربراہ نے اپنے حالیہ دورہ لیبیاء میں اس ملک کے حکام سے کہا ہے کہ وہ الحوثی تحریک کے لئے اپنی ہر طرح کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لے ۔ دوسری طرف سعودی عرب کی حکومت نے اس کے عوض سلفی القاعدہ اور تکفیری گروہ کے ان عناصر کو جنھوں نے کچھ دنوں قبل معمر قذافی کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا معمر قذافی کی حمایت کے لئے راضي کرنے کی کوشش کی ہے۔ سعودی عرب نے اس عرصے میں یمن میں سلفی گروہ کو کروڑوں ڈالر دینے کے ساتھ ساتھ یمنی حکومت کی بھی بڑے پیمانے پر مالی حمایت کی ہے تا کہ وہ اپنی فوجی ضروریات کو پورا کر سکے اس پوری صورت حال سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ سعودی عرب کی طرف سے اتنے بڑے پیمانے پر مالی سفارتی اور فوجی سرگرمیوں کے کثیرالجہتی مقاصد ہيں ایک طرف سے وہ یمن کے شیعہ مسلمانوں کا صفایا کرنا چاہتا ہے تاکہ باب المندب کے علاقے میں ایک اہم سیکورٹی زون قائم ہوسکے۔ دوسری طرف پورے علاقے پر وہ وہابی،سلفی اور تکفیری گروہوں کو نظریاتی طور پر مسلط کرنا چاہتا ہے اور بالآخر امریکہ اور صہیونی حکومت کے اسٹریٹیجک مفادات کو پورا کرنا چاہتا ہے ۔ان تمام باتوں کے باوجود یمن کی صورت حال پر نظر رکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کی اس کھلی مداخلت کا حوثی گروہ کے خلاف یمنی حکومت کی فوجی کاروائیوں پر کوئی زیادہ اثر نہيں ہو گا بلکہ اس کے برخلاف یمن کے شمالی و جنوبی صوبوں میں جہاں یمنی حکومت،سعودی عرب،امریکہ و صہیونی حکومت کے خلاف کھلی جنگ کی آگ بھڑکے گی وہيں سعودی عرب کے اندر بھی اس آگ کی گرمی،شعلوں کا اثر اختیار کر کے اس کے سرحدی صوبے حصیر کو اپنی لپیٹ میں لے لے گي اور پھر سعودی عرب اپنی ہی بھڑکائی ہوئی آگ کے شعلوں کی زد میں آجائے گا۔ 
خبر کا کوڈ : 14076
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش