0
Saturday 25 Feb 2012 22:54

بلوچ رہنماﺅں پر قائم مقدمے ختم کرنیکا اعلان

بلوچ رہنماﺅں پر قائم مقدمے ختم کرنیکا اعلان
تحریر: طاہر یاسین طاہر 
 
سیاست کاری فقط الفاظ گری ہی نہیں ہوتی، اگر اسے لفظوں کے ہیر پھیر کا جال سمجھ لیا جائے تو انسان گاہے خود بھی اسی جال میں پھنس جاتا ہے۔ قوموں کی برادری میں وقار سے رہنے کے لئے اندرونی معاملات ہر حال میں درست کرنا ہوتے ہیں۔ بصورت دیگر خارجی محاذ پر ایسے ایسے حملوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ اعصاب جواب دینے لگتے ہیں۔ زندگی کی گاڑی خواہشات کی پٹڑی پر نہیں چلائی جا سکتی، عملیت پسندی ہی مسائل سے چھٹکارے کا اصل نسخہ ہے۔ 

ہمیں اس امر میں کلام نہیں کہ ایک مدت سے بلوچوں کے ساتھ وعدے وعید کرتے چلے آ رہے ہیں مگر کیا یہ سچ نہیں کہ ہم نے کبھی بھی اپنے وعدوں کوپ ورا نہ کیا۔ نواب نوروز سے لیکر خیر بخش مری تک، کو ہم نے وعدوں کے فریب میں نہ صرف زندہ رکھنے کی کوشش کی بلکہ ان کے ساتھ دھوکہ بھی کرتے آئے۔ جس کی وجہ سے بلوچوں کا ہم پر سے اعتماد اٹھتا چلا گیا۔ امریکی کانگریس میں رکن کانگرنس روہرابیکر نے بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے بلوچوں کو حق خود ارادیت دلوانے کے لئے قرار داد پیش کی اور کہا کہ امریکہ اس حوالے سے بلوچوں کو قتل کرنے والوں کو اسلحہ اور امداد فراہم کر رہا ہے۔ روہرا بیکر نے قرارداد میں بلوچستان کو آزادی دلوانے کے لئے زور دیا۔
 
اس پر لامحالہ پاکستان کی جانب سے ہر سطح پر شدید ردعمل ظاہر کیا گیا، تو پاکستان میں قائم امریکہ سفارتخانے نے اس بات کی تردید کی کہ امریکہ آزاد بلوچستان کی حمایت کرتا ہے، یا اس کا ایسا کوئی ارادہ ہے۔ سفارتخانے نے نہ صرف روہرا بیکر کی قرارداد سے لاتعلقی کا اظہار کیا بلکہ اسے اوبامہ انتظامیہ کی پالیسی کے برعکس قرار دیتے ہوئے مذکورہ رکن کانگریس کی ذاتی خواہش قرار دے دیا۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ امریکی جب کسی معاملے پر پیش رفت کرنا چاہتے ہیں تو پہلے اس حوالے سے بیان بازی کر کے ردعمل کو جانچتے ہیں اور پھر اس کے مطابق اپنی پالیسی کا ازسرنو جائزہ لیتے ہیں۔
 
امریکہ نفسیات سے واقف کار یہ بات جانتے ہیں کہ جب وہ کسی معاملے پر پسپائی اختیار کرتا ہے تو دوبارہ پوری قوت اور نئی حکمت عملی کے تحت حملہ آور ہوتا ہے اور اس کا یہ حملہ انتہائی شدید ہوتا ہے۔ لہٰذا امریکہ سفارتخانے کی تردید نہ صرف امریکہ خارجہ پالیسی کے برعکس ہے بلکہ قوی امکان ہے کہ وہ دوبارہ بھی یہ معاملہ کسی نہ کسی فورم پر ضرور اُٹھائے گا۔ ممکن ہے کہ انسانی حقوق کی دلفریب چادر میں بلوچستان کے مسئلے کو لپیٹنے کی کوشش کی جائے۔ ہمیں اس حوالے سے بھی تیار رہنا ہو گا۔
 
یہ بات اب آشکار ہو چکی ہے کہ امریکہ اول دن سے ہی بلوچستان پر نظریں جمائے بیٹھا ہے۔ کیا گیارہ ستمبر1947ء کی اشاعت میں واشنگٹن پوسٹ میں الگ بلوچستان کی خبر اور نقشہ شائع نہیں کیا تھا؟ اس وقت سے امریکہ بلوچستان کی علیحدگی پر کام کر رہا ہے، اس میں قوم پرست سرداروں، ہماری اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی قوتوں کی غلطیاں امریکہ کام کو آسان کرتی گئیں۔ گریٹر بلوچستان کے منصوبے پر کام کرنے والے امریکہ نے ایک آزاد اور خودمختار بلوچستان کو اپنے ایجنڈے میں شامل کر رکھا ہے۔
 
امریکی دفاعی تجزیہ کار کرنل رالف پیٹرز نے 2006ء میں بلوچستان کو پاکستان سے علیحدہ کرنے کی تجویز دی تھی، یہ وہی کرنل رالف پیٹرز ہیں جو گزشتہ دنوں امریکی ایوان نمائندگان کی خارجہ کمیٹی کے سامنے پیش ہو کر بلوچستان کے بارے میں رائے زنی کر چکے ہیں۔ خیال رہے کہ رالف پیٹرز کی مذکورہ تجویز امریکی خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں شامل ہے، لہٰذا خطرے کے پیش نظر ہمیں زیادہ متحرک اور چوکس رہنا پڑے گا۔ 

بلوچستان میں سکیورٹی کی حالت ناگفتہ بہ ہے، بلوچ قوم پرستوں پر سیاسی مقدمات قائم ہیں۔ بلوچوں کے تحفظات دور کرنے کے لئے ریاست کو نئے سرے سے بلوچ پالیسی بنانا ہو گی۔ بالخصوص وعدوں کی پاسداری کا خاص خیال کرنا ہو گا۔ وگرنہ عدم اعتماد کی خلیج گہری سے گہری ہوتی چلی جائے گی۔ جس کا سارا فائدہ ہمارے دشمن ہیں اُٹھائیں گے۔ وزیر داخلہ رحمن ملک نے ناراض بلوچ رہنماﺅں کے خلاف مقدمات واپس لینے اور معافی کا اعلان کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حیربیار مری اور براہمداغ بگٹی سمیت جو بھی بلوچ رہنما ملک سے باہر ہیں وہ وطن واپس آجائیں میں خود ان کا استقبال کرونگا۔

آغاز حقوق بلوچستان کمیٹی کے اجلاس کے بعد وزیر داخلہ نے کہا کہ بلوچستان پر جلد آل پارٹیز کانفرنس بلا رہے ہیں، بلوچ اور قومی قیادت اے پی سی میں شرکت کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کے بارے میں پروپگینڈہ کیا جا رہا تھا، سکیورٹی فورسز پر حملے کرنے والے غدار ہیں۔ ایف سی صوبائی حکومت کی نگرانی میں کام کرے گی اور اپنے طور پر کوئی آپریشن نہیں کریگی۔ وزیر داخلہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر بلوچستان حکومت درخواست کرے تو نواب اکبر بگٹی قتل کیس میں مشرف کے ریڈ وارنٹ جاری کروا دیں گے۔

وزیر داخلہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ 15ہزار بلوچ گریجوئیٹ نوجوانوں کو انٹرن شپ پر نوکریاں دی جائیں گی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ حکومت کی جانب سے درست اقدام ہے یہ بات بھی سچ ہے کہ بلوچ رہنماﺅں پر قائم سیاسی مقدمات ختم کرنے سے اختلاف کے خاتمے کی سبیل ضرور نکلے گی۔ بلوچستان کا مسئلہ جس نہج پر ہے وہاں تمام سیاسی قوتوں اور اسٹیبلشمنٹ سمیت، وطن دوست قوتوں کو آگے بڑھ کر ناراض بلوچوں کو گلے لگانے کی ضرورت ہے۔ اس بات کی اہمیت نہیں کہ بلوچوں کے ساتھ کتنے دلفریب وعدے کئے جا رہے ہیں۔ بلکہ اہم ترین بات تو یہ ہے کہ ان وعدوں پر خلوص نیت پر عملدرآمد بھی کیا جاتا ہے یا نہیں۔؟ 

اے پی سی بلانے کا عندیہ اچھی پیش رفت ہے لیکن اس مرحلے پر کانفرنسوں سے بڑھ کر عملی اقدامات اُتھانے کی ضرورت ہے۔ معاملے کو ایک امریکی رکن کانگریس کی ذاتی خواہش قرار دے کر دل کو تسلی نہیں دی جا سکتی۔ فقط یہ کہہ دینا کہ بلوچستان میں غیر ملکی قوتوں متحرک ہیں کافی نہیں، بلکہ اہم بات تو یہ ہے کہ جب اس سازش کا ادراک ہو گیا کہ بھارت، اسرائیل اور امریکہ افغانستان کے راستے بلوچستان پر حملہ آور ہیں تو اس سازش کا توڑ کرنے کے لئے ریاست نے کیا اقدامات اُٹھائے۔؟ سیاست کاری میں مذاکرات کی اہمیت سے انکار نہیں، مگر اب کی بار بھی اسے صرف لفظوں کا جال سمجھا گیا تو ہم اس جال میں پھنس کر ظالم شکاری کے خونی پنجوں کی مضبوط گرفت میں ہونگے۔
خبر کا کوڈ : 140773
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش