0
Tuesday 6 Mar 2012 21:54

امریکہ کی پاکستان میں نئی پالیسی

امریکہ کی پاکستان میں نئی پالیسی
تحریر:تصور حسین شھزاد 

امریکہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ دنیا بھر میں مسلمانوں کی بالخصوص اور دوسری اقوام کی بالعموم مشکلات کا ذمہ دار امریکہ ہی ہے۔ یہی امریکہ دنیا بھر میں یہودیوں کی سرپرستی کا بھی ٹھیکہ دار ہے جب کہ کچھ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکہ کو یہودیوں نے یرغمال بنا رکھا ہے اور اسے اپنے مفادات میں استعمال کرتے ہیں، امریکہ میں ایک طاقتور ترین یہودی لابی ہے جس کی اقتدار کے ایوانوں سے لے کر بازار کی دکانوں تک ہر جگہ اجارہ داری ہے۔ 

امریکہ نے جہاں مسلم دنیا پر زمین تنگ کر رکھی ہے وہاں اسے مسلم حکمرانوں سے بھی خدا واسطے کی دشمنی ہے۔ کوئی حکمران اس کے سامنے سرتسلیم خم نہ کرے تو یہ اسے عبرتناک انجام سے دوچار کر کے دوسروں کو بھی خوف زدہ کرتا ہے کہ میری نہ ماننے والوں کے ساتھ ایسا ہوتا ہے مگر زمینی حقائق یہ ہیں کہ جو اس کا پالتو ہو اور بعد میں اکڑ جائے اس کا انجام ایسا بناتا ہے، لیکن جو امریکہ کو  پہلے ہی گھاس نہ ڈالے اور اپنے کردار کی طاقت پر ڈٹ جائے امریکہ اس کے سامنے بھیگی بلی بن جایا کرتا ہے۔ 

اب صورتحال یہ ہے کہ امریکہ کی دنیا میں مداخلت اور مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کی پالیسیوں نے عوامی سطح پر امریکہ کے لئے نفرت کو فروغ دیا، جس کے باعث امریکہ کو احساس ہو ہی گیا کہ حکمرانوں کو خریدنے کیلئے ڈالرز ضائع کرنے کی بجائے عوام کے دلوں میں گھر کیا جائے اور اس مقصد کے حصول کے لئے ’’سافٹ امیج پلان‘‘ تشکیل دیا گیا۔ اس منصوبہ پر آج سے 10 سال قبل عمل شروع ہوا اور اس وقت یہ منصوبہ تیزی سے اپنے مراحل طے کر رہا ہے۔ 

امریکہ کے اس منصوبے کے مطابق پاکستان میں عوامی حلقوں میں پذیرائی حاصل کرنے کے لئے سفارتی عملے کی ڈیوٹی لگائی گئی ہے کہ وہ عوامی تقریبات میں شرکت کریں، لوگوں سے روابط بڑھائیں اور تجارت کی آڑ میں لوگوں سے میل ملاپ رکھیں تا کہ امریکہ کا ’’سافٹ امیج‘‘ عام لوگوں پر واضح ہو۔ اسی منصوبے کے پیش نظر سب سے پہلے مزاروں اور درباروں پر کام شروع کیا گیا۔ امریکی سفراء کو ہدایت کی گئی کہ وہ مزاروں پر جا کر حاضری دیں، چادریں چڑھائیں اور دربار کی انتظامیہ کی مالی امداد کریں تاکہ وہ دربار کی تعمیر و مرمت پر خرچ کر کے امریکہ کے شکر گزار بن سکیں۔ 

اسی مرحلے میں تمام درباروں پر عرس کروانے کے لئے متعدد درباروں کے گدی نشینوں کو ڈالرز دیئے گئے جس کے لئے اچ شریف کے ایک گدی نشین صاحب نے امریکہ کے لئے بہت کام کیا اور ڈھیروں ڈالرز لے کر مختلف گدی نشین پیر بھائیوں کو بانٹے اور امریکہ مردہ باد کو امریکہ زندہ باد کرنے کی کوشش کی۔ اس کے بعد امریکہ نے اپنا دوسرا مرحلہ شروع کیا اس مرحلے میں وہ دہشتگرد جنہوں نے ملکی سلامتی کے خلاف قدم اٹھائے تھے اور افغانستان میں جا کر امریکہ کے لئے ’’جہاد‘‘ کا فریضہ ادا کیا تھا کل وہ امریکہ کے لئے دہشت گرد تھے لیکن اس منصوبے کے مطابق ان کے لواحقین کے ساتھ ہمدردی کی جائے اور ان کی مدد کی جائے۔ 

اب صورتحال کچھ اس طرح کہ لاپتہ افراد جن کو خفیہ اداروں نے دہشتگردی کے جرم میں حراست میں رکھا ہوا ہے ان کے لواحقین گزشتہ دو ہفتوں سے زائد عرصہ سے اسلام آباد میں کیمپ لگائے حکومت کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ان لوگوں کو جو مبینہ دہشت گردوں کے اہل خانہ ہیں، کو اب این جی اوز اور امریکہ مظلوم بنا کر پیش کر رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ ان کے حراست میں لئے گئے افراد بےگناہ ہیں اگر گناہگار ہیں تو ان کا عدالتوں میں ٹرائل کیا جائے۔ اس حوالے سے اہلحدیث اور دیوبندی مکتب فکر کے زیادہ لوگ لاپتہ ہیں۔ اس تعاون اور ہمدردی کا مقصد اہلحدیث اور دیوبندیوں کے دلوں میں امریکہ کے لئے سافٹ امیج پیدا کرنا ہے۔ 

اس منصوبے کا تیسرا مرحلہ پاکستان میں بسنے والے اہل تشیع ہیں، اہل تشیع چونکہ دیگر مسلمان مکاتب فکر کی نسبت امریکہ کی مسلم کش پالیسی سے بہتر آگاہ اور بیدار ہیں اس لئے امریکہ نے ان پر بھی کام شروع کر دیا ہے۔ پاکستان میں ایک عرصہ سے امریکی ایما پر ہی اہل تشیع مسلمانوں کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ امریکہ نے ماضی میں کبھی بھی اس کی مذمت نہیں کی لیکن اب آ کر این جی اوز، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور امریکہ سمیت اس کے نمک خوار ادارے اور ’’سوسائٹیز‘‘ اہل تشیع کی ٹارگٹ کلنگ کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ پاکستان میں شیعہ مسلمانوں کی قتل و غارت بند کی جائے۔ 

دلچسپ امر یہ ہے کہ شیعہ مسلمان جانتے ہیں کہ ماضی میں جتنا بھی شیعہ مسلمانوں کا نقصان ہوا ہے اس کی تمام تر ذمہ داری امریکہ پر عائد ہوتی ہے کیوںکہ جتنے بھی ملزم پکڑئے گئے انہوں نے طالبان، سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کا کارکن ہونے کا اعتراف کیا۔ ان تینوں جماعتوں کی ڈوریاں امریکہ سے ہلتی تھیں اور ہیں اس حوالے سے واضح طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ماضی میں خود شیعہ مسلمانوں کو قتل کروا کر اب ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کی امریکی پالیسی کچھ اہداف ضرور رکھتی ہے۔ امریکہ اگر پاکستان میں دودھ کی نہریں بہا دے، بے روزگاری اور غربت کا مکمل خاتمہ کروا دے اس کے باوجود اس کا امیج سافٹ نہیں ہو سکتا۔ 

اب میڈیا کا دور ہے، لوگ بیدار ہیں، پوری مسلم امہ جان چکی ہے کہ امریکہ ہی ان کے مسائل اور پریشانیوں کا ذمہ دار ہے تو امریکہ کو ’’سافٹ امیج پلان‘‘ پر ڈالرز ضائع نہیں کرنے چاہیں بلکہ امریکہ کو چاہیئے کہ وہ پوری دنیا میں جہاں جہاں بھی قابض ہے وہاں سے قبضہ چھوڑ کر واپس چلا جائے۔ ہر ملک میں اس کے حکمرانوں کو آزادی اور خودمختاری دیدے اور دنیا کے وسائل پر اپنی سہولت کے لئے قبضے کے خواب دیکھنا چھوڑ دے تو دنیا میں امن بھی قائم ہو جائے گا اور امریکہ کی خود اپنی معیشت بھی بہتر ہو جائے گی کیوںکہ امریکہ کھربوں ڈالر دہشتگردی کے خلاف نام نہاد جنگ اور دیگر بےمقصد منصوبوں میں ضائع کر رہا ہے۔ 

امریکہ اگر چاہتا ہے کہ دنیا میں امن قائم ہو اور وال سٹریٹ پر قبضہ کرو تحریک جیسی سرگرمیاں بند ہوں تو فوری طور پر امریکہ تمام ممالک سے نکلنے کا اعلان کرے۔ تیل اور گیس کے ذخائر پر ڈاکے مارنے اور گن پوائنٹ پر قبضے کرنے کی بجائے تجارتی طریقہ کار کے مطابق لین دین کرے۔ ناجائز دھمکیاں اور کسی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنا چھوڑ دے تو سب مسائل حل ہو جائیں گے۔ دنیا امن کا گہوارہ بن جائے گی اور اگر امریکہ نے اسی طرح ہٹ دھرمی کا مظاہرہ جاری رکھا تو اقتدار کا ہما سدا ایک سر پر نہیں بیٹھا رہتا۔ پرسوں برطانیہ کے سر پر تھا، کل روس کے سر پر آ کر بیٹھ گیا آج اگر امریکہ کے سر پر بیٹھا ہے تو آنے والے کل کو یہ چین کی جانب پرواز کر جائے گا اور اس سے اگلے دن ایران کے سر پر بیٹھ جائے گا۔ 

امریکہ پھر اپنی شان رفتہ ماضی کی راکھ سے ہی کریدتا رہ جائے گا۔ آج اگر کسی کے ساتھ اچھا کرو گے تو کل برے وقت میں اچھے کی امید بھی رکھ سکو گے اور آج بھی دہش گردی اور ظلم و جور کی فصلیں کاشت کرو گے تو پھر جب یہ فصل پک جائے گی تو اس کو کاٹنا بھی پڑے گا۔ جس نے جو بویا ہوتا ہے وہی کچھ کاٹتا ہے۔ امریکہ اپنی نئی پالیسی پر ایک بار پھر غور کرے کہیں یہ سافٹ امیج مزید ہارڈ تو نہیں ہوتا جا رہا؟ 

خبر کا کوڈ : 143498
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش