0
Wednesday 4 Nov 2009 13:09

پاک ایران تعلقات اور اقبال

پاک ایران تعلقات اور اقبال
مظفر اعجاز
پاکستان اور ایران کے بارے میں کسی کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ دونوں ممالک کے عوام کے درمیان اتحاد و محبت کے رشتے بحیرہ عرب سے زیادہ گہرے اور ہمالیہ سے زیادہ بلند ہیں،قیام پاکستان کے وقت سب سے پہلے ایران نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کو تسلیم کیا اور ایران کے اسلامی جمہوریہ بننے پر 1979ء میں سب سے پہلے پاکستان نے اس کی اس حیثیت کو تسلیم کیا۔ ماضی میں آر سی ڈی جیسے رشتے میں بندھے ہوئے پاکستان،ایران اور ترکی آر سی ڈی شاہراہ بنا چکے اور اس شاہراہ پر دوستی کا سفر کئی برس چلتا رہا۔لیکن زمانے کی گردشوں،سیاسی قلابازیوں نے تینوں حکومتوں کے درمیان فاصلے پیدا کر دیے۔دوستی کے رشتوں میں دراڑیں پڑنے لگیں لیکن پھر بھی عوام کے درمیان محبت کا رشتہ برقرار رہا۔گذشتہ چند برسوں کے دوران خطے میں امریکی اور اقوام متحدہ کے پرچم تلے ناٹو افواج کی موجودگی نے حالات کو مزید خراب کر دیا،اب امریکی وزیر خارجہ کے بقول غیر ریاستی عناصر نے حالات کو مزید خراب کیا۔ ایک غیر ریاستی عنصر بلوچستان میں سرگرم جند اللہ بھی ہے۔ مبینہ طور پر اس تنظیم کا سربراہ عبدالمالک ریگی بلوچستان میں ہے۔ اس تنظیم کے بارے میں پہلی مرتبہ پاکستانی قوم نے جنرل پرویز مشرف کے دور میں سنا تھا۔جب یہ کہا گیا کہ جنرل پرویز پر حملے کی سازش میں جند اللہ ملوث ہے۔اعتبار اور اعتماد کا یہ حال ہے کہ ہم اب تک اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ اس قسم کا کوئی گروہ موجود بھی ہے یا اس کا نام بھی کسی ایک خاص واقعہ کی وجہ سے گھڑا گیا تھا،جیسے القاعدہ۔آج تک اس کا نام صرف حکومتوں،حکومتی اہلکاروں اور ایجنسیوں سے ہی سنا گیا ہے کہیں پرائیویٹ طور پر ان اداروں یا تنظیموں کا نام نہیں آتا۔اب ایرانی علاقے سیستان و بلوچستان میں ایک کارروائی کے ذریعے جس میں جنداللہ کے ملوث ہونے کا الزام ہے اس کے بعد سے پاکستان اور ایران کے تعلقات خراب ہوتے جا رہے تھے۔الزام پاکستان پر تھا۔پاکستانی سرحد استعمال ہونے کا الزام تھا،لیکن تعلقات کی بحالی کا قدم پاکستانی حکام کے بجائے ایرانی حکومت نے اٹھایا۔اپنے وزیر داخلہ کو بھیجا اور تعلقات کی بہتری کا موقع پیدا کیا،پاکستانی حکومت کی طرف سے تو کوئی نہیں گیا۔
گذشتہ دنوں کراچی میں پاک ایران فرینڈ شپ ایسوسی ایشن کا قیام عمل میں آیا،اس تقریب میں ایرانی سفیر ماشاءاللہ شاکری خصوصی طور پر شریک ہوئے۔ ایسوسی ایشن کے صدر تو سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس سجاد علی شاہ ہیں اور سیکرٹری ناظم ایف حاجی۔ یوں تو تقریبات ہوتی ہی رہتی ہیں لیکن ایرانی قونصل جنرل کراچی مسعود محمد زمانی اور ایرانی سفیر ماشاء اللہ شاکری نے علامہ اقبال کے اشعار کے حوالے دیے اور کئی اشعار پڑھے ،ایرانی سفیر نے تو اپنی تقریر کا اختتام بھی علامہ اقبال کے اشعار پر کیا اور کہا کہ آج کا اسلامی جمہوریہ ایران علامہ اقبال کے خوابوں کا ترجمان ہے۔ انہوں نے علامہ کی نظم سے اقتباسات سنائے جن میں خاص شعر یہ تھا:
 دلیل صبح روشن سے ستاروں کی تنک تابی 
                           افق سے آفتاب ابھرا،گیا دور گراں خوابی 
اور انہوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ اقبال نے اپنے دور میں مسلم نوجوان کو مخاطب کیا تھا اور اسے بتایا تھا کہ وہ کیا چیز ہے۔ ایرانی قوم نے اقبال لاہوری کے فکر و فلسفہ کو حرزجاں بنایا اور انقلاب برپا کر دیا۔آج اسلامی جمہوریہ ایران ان کے خوابوں کی تعبیر ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے خاص طور پر یہ شعر بھی پڑھا کہ: 
طہران ہو گر عالم مشرق کاجنیوا 
               شاید کہ کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے 
ایرانی سفیر سے قبل جسٹس سجاد علی شاہ نے بھی چند جملے کہے جو حاضرین میں موجود بہت سے ترقی پسند،روشن خیال پارلیمینٹرینز کو گراں گزرے۔جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ پاکستان اور ایران کے درمیان جو اقدار مشترک ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے عوام کی بھاری اکثریت مسلمان ہے۔ان ملکوں کے نام اسلامی جمہوریہ ہیں اور دونوں ہی ملکوں میں آئین کے مطابق کوئی قانون قرآن و سنت کے منافی نہیں بن سکتا۔جسٹس سجاد نے یہ بھی کہا کہ کسی زمانے میں خطے میں روس کو ناکام بنانے کے لیے امریکا کو خوش آمدید کہا گیا تھا۔اب امریکا کی آمد کے بعد لوگ امریکا ہی کو اس خطے سے نکالنا چاہتے ہیں۔ ایرانی سفیر اور جسٹس سجاد کی تقریروں کے بعد اس تقریب میں عجیب کیفیت دیکھنے میں آئی۔جو گفتگو پاکستانی رہنما اور دانشور کر رہے تھے وہ کچھ یوں تھی،بڑی شرمندگی کے ساتھ.... 
ارے دیکھو ایرانیوں نے علامہ اقبال کو اپنا رہنما بنایا ان کی فکر کو اختیار کیا اور ہم نے کیا کیا۔ اپنے ہی وطن کے مصور کو محض سلامی اور پریڈ تک محدود کر دیا۔خطبہ الہٰ آباد اور بس.... امت مسلمہ کے تصور کائنات کے نظام اور اخلاقی تعلیمات کے حوالے سے ہم اقبال کو پڑھاتے بھی نہیں بلکہ پڑھتے بھی نہیں۔ تھوڑی دیر یہ باتیں ہوتی رہیں اور پھر لوگ کھانا کھا کر خانہ فرہنگ ایران سے رخصت ہوئے، اور شاید اب مرزا اشتیاق بیگ کو یاد بھی نہیں ہو گا کہ وہ کس بات پر دل گرفتہ تھے۔انہیں بھی لکھنے کے لیے دوسرے موضوعات مل گئے ہوں گے۔ پاک ایران فرینڈ شپ ایسوسی ایشن کے قیام سے دو باتیں سامنے آئی ہیں ایک تو یہ کہ اس کی وجہ سے پاکستان اور ایران کے اسلامی رشتوں کو مضبوط بنانے میں مدد ملے گی۔ یہ کام اگرچہ پہلے ہو جانا چاہیے تھا لیکن دیر آید درست آید کے مصداق یہ کام بہتر ہو گیا ہے۔کالم نگاروں اور صحافیوں کی ایک بڑی تعداد اگرچہ اس تقریب میں شریک تھی لیکن ان کی نظر میں اتحاد امت یا پاک ایران تعلقات کی اہمیت اتنی نہیں تھی جتنی درحقیقت ہے۔ ایران اور پاکستان کے درمیان جہاں کئی قدریں مشترک ہیں وہیں ایک قدر مختلف بھی ہے اور وہ ہے قیادت کا فرق۔اس معاملے میں دونوں ملکوں میں بہت فرق ہے۔ایرانی قیادت قومی مفاد اور ایران کے مستقبل کے حوالے سے بہت مستحکم ہے،جبکہ پاکستانی قیادت اس حوالے سے ایک بڑا سوالہ نشان بنی ہوئی ہے۔ جب تک پاکستانی قیادت اس حوالے سے مضبوط موقف نہیں اختیار کرے گی اس وقت تک بہتری کے امکانات نہیں ہیں۔


خبر کا کوڈ : 14416
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش