QR CodeQR Code

ایران سے متعلق امریکی پالیسی، 2 مارچ سے قبل اور بعد

روزنامه کیهان , 25 Mar 2012 15:21

اسلام ٹائمز: جس طرح ایران کے پارلیمانی انتخابات کے بارے میں امریکہ گذشتہ 6 ماہ سے غلط تصورات کا شکار تھا اور آخرکار سیاسی رسوائی کا شکار ہوا اسی طرح ایران کے ساتھ مذاکرات کے بارے میں بھی انتہائی غلط فہمی کا شکار ہے۔


تحریر: سعداللہ زارعی
اسلام ٹائمز- قائد انقلاب اسلامی ایران نے ایکسپرٹس کونسل کے اراکین سے اپنے تازہ ترین ملاقات میں فرمایا:
"ہم نے دو روز قبل سنا کہ امریکی صدر نے آیپیک کے اجلاس میں کہا ہے کہ ہم ایران کے ساتھ جنگ کے بارے میں نہیں سوچ رہے، یہ اچھی بات ہے، یہ عقلمندی کی بات ہے اور ظاہر کرتی ہے کہ وہ اوہام سے نکل آئے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی اس نے کہا کہ ہم اقتصادی پابندیوں کے ذریعے ایران کو اپنے سامنے جھکنے پر مجبور کر دیں گے۔ یہ انکا وہم ہے۔ پہلی بات میں وہم سے نکلنا اچھی بات تھی لیکن دوسری بات میں انکے اوہام انہیں نقصان پہنچائیں گے۔ جب انسان کا حساب کتاب اوہام پر مبنی ہو اور حقائق پر مبنی نہ ہو تو اسکی بنیاد پر تیار ہونے والی پلاننگ کا انجام بھی شکست کے علاوہ کچھ نہیں ہو گا"۔
امریکیوں خاص طور پر امریکی حکام نے 2 مارچ کے ایران کے پارلیمانی انتخابات سے قبل ایرانی پارلیمنٹ کے نویں انتخابات پر اپنی توجہ مرکوز کر رکھی تھی۔ انکی توجہ کا مرکز یہ امر نہیں تھا کہ کونسا سیاسی گروپ ان انتخابات میں جیتے گا اور کون سا گروپ ہارے گا یا کون سا گروپ ان انتخابات میں حصہ لے گا اور کون سا گروپ ان انتخابات کا بائیکاٹ کرے گا بلکہ امریکی چاہتے تھے کہ وہ اسلامی جمہوری نظام کو دھچکہ پہنچانے کیلئے ان پارلیمانی انتخابات کو ایک ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کریں۔ وہ یہ سوچ رہے تھے کہ ایران کے اندرونی حالات کے پیش نظر ان انتخابات میں عوام کی شرکت انتہائی کم ہو گی۔ اسکی وجہ یہ تھی کہ وہ ایک طرف تو ایران کی اقتصادی صورتحال اور مہنگائی میں بے پناہ اضافے کو مدنظر رکھے ہوئے تھے اور دوسری طرف 2009 کے صدارتی انتخابات کے بعد معرض وجود میں آنے والے فتنہ گر گروپ کی جانب سے ان پارلیمانی انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان بھی انکی توجہ کا مرکز تھا۔
امریکی حکام کا خیال تھا کہ ایسی صورتحال میں ایران کے پارلیمانی انتخابات دو بڑی سیاسی پارٹیوں کے درمیان رقابت کا میدان ثابت ہوں گے۔ ایک ایران اور مغرب کے درمیان عدم مفاہمت اور مقابلے کو جاری رکھنے کا حامی جو انکی نظر میں ایک اقلیتی گروپ تھا اور دوسرا ایران اور مغرب کے درمیان مفاہمت اور دوستی کا حامی گروپ جو انکے خیال میں اکثریتی گروپ تھا۔ اسی بنیاد پر انکا خیال یہ تھا کہ جب اکثریتی گروپ ان انتخابات کا بائیکاٹ کر دے گا تو ان انتخابات کی کوئی قانونی حیثیت نہیں رہے گی۔ وہ اس طرح سے 2009 کی فتنہ گر سیاسی تحریک کو احیاء کرنے کے درپے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ان پارلیمانی انتخابات کو ایران کے اندر اختلاف پیدا کرنے کیلئے استعمال کریں لہذا مغربی ذرائع ابلاغ 2 مارچ کے پارلیمانی انتخابات تک اس پروپیگنڈے میں مصروف تھے کہ ان انتخابات میں صرف قائد انقلاب اسلامی ایران اور انکے حامی گروہ شریک ہیں۔ اسی لئے انہوں نے میڈیا سے صرف اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر کو ووٹ ڈالتے ہوئے دکھایا۔
امریکی حکام کی پوری کوشش تھی کہ وہ مغربی ذرائع ابلاغ کے ذریعے ایران کے اس گروپ کی بھرپور حمایت کریں جسے وہ اکثریتی گروپ قرار دے رہے تھے لہذا ایران کے پارلیمانی انتخابات سے کئی ہفتے قبل سے مغربی میڈیا کی جانب سے ایران کے خلاف شدید پروپیگنڈہ جاری رہا۔ مغربی حکام کا خیال تھا کہ یہ انتخابات ایران کے حکمفرما سیاسی نظام کے جواز کو متزلزل کر دیں گے جو بین الاقوامی سطح پر ایران کے خلاف ایک متحدہ محاذ بنانے میں انتہائی مفید ثابت ہو گا اور ایران کے حامی ممالک کو عقب نشینی پر مجبور کر دے گا۔ اس بنیاد پر مغربی دنیا نے 2 مارچ کے بعد کے ایران کے بارے میں ایک کمزور تصور بنا رکھا تھا جو 3 مارچ کو ہی مغرب کے ساتھ ہر قسم کا تعاون کرنے پر پوری طرح آمادہ نظر آ رہا تھا۔
لیکن 2 مارچ کے پارلیمانی انتخابات نے مغربی دنیا کے اس تصور کو خاک میں ملا دیا۔ مغربی ذرائع ابلاغ پر ان انتخابات کا اثر بہت جلد ظاہر ہونا شروع ہو گیا اور 2 مارچ کو ہی صبح سے لے کر دوپہر 4 بجے تک انکے تاثرات اور شام 7 بجے کے بعد کے انکے تاثرات میں واضح فرق کو دیکھا جا سکتا تھا۔ صبح کے وقت مغربی ذرائع ابلاغ نے صرف قائد انقلاب اسلامی ایران آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کو ووٹ ڈالتے دکھایا اور عوام کو کوریج بالکل نہیں دی گئی۔ لیکن شام 7 بجے کے بعد بھی عوام انتہائی بھرپور انداز میں انتخابات میں شرکت کرتے رہے اور الیکشن کمیشن کو ووٹنگ کا ٹائم کئی بار بڑھانا پڑا اور مغربی ذرائع ابلاغ بھی اس حقیقت کو چھپا نہ سکے۔ 3 مارچ کو مغربی ذرائع ابلاغ کی جانب سے یہ پروپیگنڈہ بھی ختم ہوتا نظر آ رہا تھا کہ ان پارلیمانی انتخابات میں صرف ایک خاص سیاسی گروپ کے افراد شریک تھے۔
2 مارچ کے ایرانی پارلیمنٹ انتخابات کے چند روز بعد ہی یہودی لابی آیپیک میں امریکی صدر براک اوباما کی تقریر نے ظاہر کر دیا کہ ان انتخابات نے انکے تمام تجزیوں اور منصوبوں کو خاک میں ملا دیا ہے۔ لیکن اسکا مطلب یہ ہر گز نہ تھا کہ انہوں نے اپنے شیطنت آمیز اقدامات اور سازشوں کو ترک کر دیا ہے بلکہ اوباما کی طرف سے اس بات کا اعلان کہ "ہم اور اسرائیل ایران سے جنگ کے بارے میں نہیں سوچ رہے" کا مطلب یہ تھا کہ 2 مارچ کے انتخابات سے قبل والی انکی پلاننگ پر سرخ لکیر پھر چکی ہے۔ وہ پلاننگ جسکے تحت وہ ایران میں قائد انقلاب اسلامی ایران کے مخالف گروپس کی حمایت میں مصروف تھے۔
اس سے اگلے روز امریکی صدر کی گفتگو میں اس پلاننگ کے چکناچور ہونے کے مزید آثار ظاہر ہوئے۔ صدر اوباما نے بعض ڈیموکریٹک صدارتی امیدواروں کی جانب سے ایران کے خلاف فوجی آپریشن پر زور دینے کے ردعمل میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ یہ افراد ایران پر فوجی حملے سے جنم لینے والے خطرات سے آگاہ نہیں ہیں اور نہیں جانتے کہ امریکی عوام کبھی بھی ایسے آپریشن کی حمایت نہیں کریں گے۔ اس بار امریکی صدر نے ایک طرح سے ایران کا سیکورٹی محافظ ہونے کا ثبوت دیا۔ انکے اس بیان نے ظاہر کیا کہ ایران پر فوجی حملے کا زمینہ بالکل فراہم نہیں ہے اور جو افراد ایران پر حملے کی باتیں کر رہے ہیں وہ خود بھی اپنی بات پر یقین نہیں رکھتے۔ یہ پارلیمانی انتخابات میں ایرانی عوام کی باشکوہ اور عظیم شرکت کا نتیجہ ہے۔
ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ایران کے پارلیمانی انتخابات کو اقلیتی گروپ کے ساتھ مخصوص ظاہر کرنے کے مغربی منصوبے کی شکست فاش کے بعد انہوں نے ایک دوسرے آپشن پر غور کرنا شروع کر دیا ہے۔ یہ آپشن "مذاکرات" کا آپشن ہے۔ گذشتہ چند روز سے امریکی ذرائع ابلاغ میں اس نکتے کی جانب اشارہ کیا گیا کہ "ایران ان پارلیمانی انتخابات میں عوام کی بھرپور شرکت کے بعد امریکہ کے ساتھ اپنے تاریخی مسائل کے بارے میں مذاکرات کیلئے کافی حد تک خوداعتمادی حاصل کر چکا ہے"۔ مغربی قوتوں کا خیال ہے کہ وہ جو مقاصد ایران کے پارلیمانی انتخابات سے حاصل کرنا چاہتے تھے اب وہی مقاصد مذاکرات کے ذریعے حاصل کر سکتے ہیں۔
امریکہ اور یورپی ممالک کئ دنوں سے اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ ہم ایرانی عوام کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہمارا ایران کے پرامن جوہری پروگرام کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں اور ہمارا مقصد صرف یہ ہے کہ ہم اس بارے میں مطمئن ہونا چاہتے ہیں کہ ایران کا ایٹمی پروگرام فوجی مقاصد کیلئے نہیں، آپ ایرانی بھی اسی بات پر زور دیتے ہیں کہ ہم ایٹم بم بنانا نہیں چاہتے اور اسکی تیاری کو حرام قرار دیتے ہیں تو آئیں ایسے سنجیدہ مذاکرات انجام دیں جو ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام اور اسکے فوجی مقاصد کی جانب منحرف نہ ہونے کی ضمانت فراہم کریں۔ لیکن درحقیقت مذاکرات سے امریکہ اور یورپی ممالک کا مقصد یہ نہیں ہے۔ اس کیلئے اس بات کی ضرورت ہے کہ مغربی ممالک مذاکرات شروع ہونے سے قبل رسمی طور پر ایسا بیانیہ صادر کریں جس میں ایران کے خلاف تمام پابندیوں کے خاتمے کا اعلان کیا جائے۔ مغربی ممالک ایک طرف تو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ ایران کے پرامن جوہری پروگرام کے حامی ہیں جبکہ ساتھ ہی یہ تاکید بھی کرتے ہیں کہ ایران روس کے پیش کردہ منصوبے کو قبول کر لے۔ روس کا پیش کردہ منصوبہ دراصل ایران کے جوہری پروگرام کے مرحلہ وار رول بیک پر زور دیتا ہے۔ لہذا یہ بات انتہائی واضح ہے کہ مغربی دنیا یہ گمان کر رہی ہے کہ وہ مذاکرات کے ذریعے ایران پر اپنی مرضی کے نتائج اور ہتھکنڈے ٹھونس سکتے ہیں جن میں سے ایک لمبے اور بے حاصل مذاکرات کے ذریعے وقت تلف کرنا ہے۔
اسی طرح مغربی قوتیں یہ خیال کر رہی ہیں کہ وہ مذاکرات کو ایران کے اندر ایک اختلافی مسئلے میں تبدیل کر سکتی ہیں۔ وہ یہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہی ہیں کہ ایران کے پاس دو راستے موجود ہیں جن میں سے ایک کا انتخاب اسے کرنا پڑے گا، ایک روز بروز بڑھتی ہوئی پابندیاں اور دوسرا "ذمہ دارانہ انتخابات"۔ ایران کے اندر جو بھی مذاکرات کا حامی نہیں ہے اور اس میں شریک نہیں ہے وہ دراصل پابندیوں کا حامی ہے۔ مغربی ممالک سمجھتے ہیں کہ وہ اس طرح ایران کے اندر امریکہ اور مغرب کے ساتھ مذاکرات کے حامی افراد یا گروپس کی عوامی مقبولیت کا باعث بن سکتے ہیں کیونکہ عوام پابندیوں کو بالکل پسند نہیں کرتے۔ دوسری طرف مغرب کی نظر میں ایران کے اندر فتنہ گر گروپس کے سربراہان بھی امریکہ اور مغرب سے مذاکرات پر زور دیتے ہیں، اور ایرانی مفکرین کی اکثریت بھی ان مذاکرات کی حامی ہے لہذا انکے خیال میں مذاکرات کے مسئلے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے سے ایران کے اندر مذاکرات کی حامی اکثریت کو مذاکرات کی مخالف اقلیت کے مقابلے میں لا کھڑا کر سکتے ہیں۔
مغربی حکام کہتے ہیں کہ ایران کے اندر مذاکرات کے حامی اور مخالف افراد کی یہ گروپنگ بذات خود مطلوب اور پسندیدہ امر ہے اور اسے مزید ہوا دینے کی ضرورت ہے۔ لہذا انتہائی واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ مغربی قوتیں مذاکرات کو ایران کے اندر وحدت اور اتحاد کے خاتمے کیلئے ایک ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرنا چاہتی ہیں اور انکا مقصد یہ ہے کہ ایران اپنے قومی مفادات سے پیچھے ہٹ جائے۔
مغربی حکام سمجھتے ہیں کہ مذاکرات کا ایشو قائد انقلاب اسلامی ایران آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کی پوزیشن کمزور ہونے کا باعث بنے گا جنکا اقتدار 2 مارچ کے پارلیمانی انتخابات میں ثابت ہو چکا ہے۔ انکے خیال میں اس طرح سے اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر کو مذاکرات پر راضی ہونے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ وہ مذاکرات جنکا پہلا نتیجہ ایران کی جانب سے اپنے ایٹمی پروگرام کے بارے میں عقب نشینی کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ لہذا مغربی حکام ہر قدم بڑا سوچ سمجھ کر اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر جب قائد انقلاب اسلامی ایران نے ایکسپرٹس کونسل کے اراکین سے ملاقات کے دوران یہ کہا کہ امریکی صدر کی جانب سے یہ کہنا کہ وہ ایران سے جنگ کے بارے میں نہیں سوچ رہا عقلمندی کی بات ہے اور ظاہر کرتا ہے کہ وہ اوہام سے باہر نکل آیا ہے تو امریکی ذرائع ابلاغ نے اسے امریکہ کے ساتھ مذاکرات پر انکی رضامندی کے اظہار کے طور پر ظاہر کیا۔ یونائٹڈ پریس نے اسے مذاکرات کیلئے کھلنے والا نیا دروازہ قرار دیا اور سی این این نے اسے ایک اچھی خبر قرار دیا، کرسٹین سائنس مانیٹر نے بھی اسے ایران کی جانب سے شیطان بزرگ کی تعریف قرار دیا۔ امریکی میڈیا کے رپورٹرز کو بھی یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ اس نکتے پر تاکید کریں کہ ایران مغرب کے ساتھ مذاکرات کرنے پر آمادہ ہو چکا ہے۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ امام خامنہ ای کے اس جملے سے کسی طور یہ مفہوم نہیں نکالا جا سکتا۔ اسکے علاوہ اس بات کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ اوباما امریکہ کے صدارتی انتخابات میں ایران کا کارڈ استعمال کرنا چاہتا ہے اور یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ 33 سال سے حل ناپذیر مسئلہ اب حل ہونے جا رہا ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی ان مذاکرات سے سیاسی فائدہ اٹھانے کے درپے ہے۔
دراصل جس طرح ایران کے پارلیمانی انتخابات کے بارے میں امریکہ گذشتہ 6 ماہ سے غلط تصورات کا شکار تھا اور آخرکار سیاسی رسوائی کا شکار ہوا اسی طرح ایران کے ساتھ مذاکرات کے بارے میں بھی انتہائی غلط فہمی کا شکار ہے۔ امریکہ اور مغرب کے ساتھ مذاکرات کبھی بھی ایران کا قومی مطالبہ نہیں رہا اور نہ ہی اب ہے۔ 2 مارچ کے پارلیمانی انتخابات نے بھی اس بات کو ثابت کر دیا ہے۔ ان انتخابات میں ایرانی عوام کی اکثریت نے اپنے ووٹ کے ذریعے مغربی پالیسیوں سے اپنی نفرت کا اظہار کیا ہے۔ دوسری طرف یہ پارلیمانی انتخابات ایران کے اندر فتنہ گر عناصر اور ایران سے باہر مغربی اور امریکی سازشکار حکام کے کمزور ہونے کا باعث بنا ہے اور ایران کے باایمان عوام اور قائد انقلاب اسلامی ایران کے موقف کی مضبوطی کا سبب بنا ہے۔ ایران اور 5+1 گروپ کے درمیان مذاکرات ایک طے شدہ فریم ورک کے اندر انجام پانے ہیں اور ایرانی عوام کی اکثریت اسکے موجودہ فریم ورک کی حامی ہے۔
ایران اور مغرب کے درمیان مذاکرات ایران کا اندرونی مطالبہ نہیں بلکہ بیرونی مطالبہ ہے اور امریکہ اور مغربی ممالک ان مذاکرات کے محتاج ہیں نہ ایران۔ ان مذاکرات سے ایران کا مقصد اپنے قومی مفادات کا حصول نہیں بلکہ امریکہ اور مغرب کی من مانی اور جاہ طلبی کو لگام دینا ہے۔ کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اور مغربی قوتوں نے ان مذاکرات کو ایران کے جوہری پروگرام کے خاتمے پر استوار کر رکھا ہے۔ اس وقت ایران اپنی تاریخ کے سنہری دور سے گزر رہا ہے اور اسکا قومی اتحاد اور وحدت اپنے عروج پر ہے لہذا اسے مغربی مطالبات کے سامنے جھکنے کی کوئی ضرورت نہیں اور نہ ہی اسے اس بات پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔


خبر کا کوڈ: 145260

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/fori_news/145260/ایران-سے-متعلق-امریکی-پالیسی-2-مارچ-قبل-اور-بعد

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org